ظالم

جاوید چوہدری  ہفتہ 9 نومبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

آپ پہلی مثال لیجیے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے لیے پوری دنیا کھلی تھی، محترمہ1997ء میں ملک سے باہر گئیں، یہ دنیا کے تین بڑے محفوظ اور شاندار شہروں دبئی، لندن اور نیویارک کی شہری تھیں‘ تینوں شہروں میں ان کے گھر تھے‘ دبئی میں محل جیسا گھر تھا‘ لندن میں بھی فلیٹ تھا اور سرے محل بھی اور نیویارک مین ہٹن میں بھی شاندار اپارٹمنٹ تھا‘ یہ تینوں شہر دہشت گردی‘ پلوشن‘ گندگی اور شہری مسائل سے پاک ہیں‘ محترمہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر سے نکلتی تھیں‘ پارکس‘ بیچز‘ پلے لینڈز‘ میوزیمز‘ اسٹیڈیمز اور ریستورانوں میں جاتی تھیں اور انھیں کسی جگہ گارڈز اور پروٹوکول کی ضرورت نہیں پڑتی تھی‘ یہ بلاخوف وخطر لندن کی انڈر گرائونڈ ٹرین میں سفر کرتی تھیں‘ نیویارک کی ٹیکسیوں میں بیٹھ جاتی تھیں اور عام جہازوں میں لمبے لمبے سفر کرتی تھیں‘ ان کے بچے دبئی کے امریکن اسکولوں میں پڑھتے تھے‘ ماحول صاف ستھرا تھا‘ گھر کلین تھے‘ لوگ مہذب تھے اور پڑھے لکھے اور کلچرڈ لوگوں کی کمپنی بھی حاصل تھی‘ دنیا کے مشہور صحافی اور دانشور محترمہ کے دوست تھے‘ یہ دنیا کے شاندار تعلیمی اداروں میں لیکچر بھی دیتی تھیں‘ یہ امریکی اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہوتی تھیں۔

یہ نیوز ویک اور ٹائم کی کور اسٹوریز میں بھی آتی تھیں‘ دنیا کے ان شاندار شہروں میں ان کا سرمایہ بھی محفوظ تھا‘ عزت بھی‘ جان بھی اور نخرے بھی لیکن پھر محترمہ نے یہ آرام‘ یہ تحفظ‘ یہ صاف ستھرا ماحول‘ فیملی لائف اور یہ پروٹوکول چھوڑ دیا‘ یہ تمام سہولتیں چھوڑ کر اس ملک میں واپس آ گئیں جہاں ان کی جان کو بھی خطرہ تھا‘ جہاں ان کے خلاف درجنوں مقدمے بھی درج تھے‘ جہاں جنرل پرویز مشرف ان کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا‘ جہاں گرد بھی تھی‘ بُو بھی تھی‘ جہالت بھی تھی‘ دہشت بھی تھی‘ ظلم بھی تھا‘ پولیس بھی تھی‘ نیب بھی تھی‘ خاندان کی سیاست بھی تھی اور بیت اللہ محسود بھی تھا اور سب سے بڑھ کر محترمہ اپنے بچوں‘ اپنی ہمشیرہ‘ اپنی والدہ اور اپنے خاوند سے بھی دور تھیں‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے محترمہ نے گھاٹے کا یہ سودا کیوں کیا؟ یہ آرام‘ سیکیورٹی‘ فیملی لائف‘ پیسہ اور بین الاقوامی عزت چھوڑ کر اس ملک میں کیوں آئیں جس میں کوئی شخص‘ کوئی ادارہ انھیں جان کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ یہ پاکستان میں واپس کیوں آئیں؟ میں آپ کو اس سوال کا جواب اگلی کہانی کے بعد دوں گا۔

آپ دوسری مثال لیجیے۔

آپ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی مثال لیجیے‘ جنرل پرویز مشرف نے10 دسمبر 2000ء کو شریف فیملی کو سعودی عرب جلاوطن کر دیا‘ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو سعودی عرب میں دنیا جہاں کی مادی اور روحانی سہولتیں حاصل تھیں‘ جدہ میں سرور پیلس تھا‘ یہ اس محل میں بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے‘ یہ سعودی عرب میں سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول لے رہے تھے‘ یہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کرتے تھے‘ انھیں شاہی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی سہولت بھی حاصل تھی‘ یہ سعودی عرب میں کاروبار بھی کر رہے تھے‘ انھوں نے وہاں اسٹیل مل لگا لی تھی‘ مل میں سیکڑوں لوگ ملازم تھے‘ یہ جمعہ کی نماز خانہ کعبہ میں ادا کرتے تھے‘ یہ کسی بھی وقت طواف کر سکتے تھے‘ یہ پورے خاندان کے ساتھ رمضان کا مہینہ مسجد نبویؐ میں گزارتے تھے‘ یہ روضہ رسولؐ کے بالکل ساتھ بیٹھ کر نوافل ادا کرتے تھے‘ ان کے لیے خانہ کعبہ بھی کھل جاتا تھا اور روضہ رسولؐ بھی اور شاہی خاندان نے ان کے لیے اپنے دروازے اور خزانے دونوں کھول رکھے تھے‘ یہ 2006ء میں لندن شفٹ ہو گئے‘ لندن میں بھی انھیں دنیا بھر کی سہولتیں حاصل تھیں‘ یہ وہاں کاروبار کرنے لگے‘ کاروبارایک ڈیڑھ سال میں ایک آدھ بلین پائونڈ تک پہنچ گیا‘ پارک لین کے مہنگے ترین علاقے میں ان کے فلیٹس تھے‘ آکسفورڈ اسٹریٹ کی بغل میں ان کا دفتر تھا‘ یہ سیکیورٹی‘ خوف اور پریشانی کے بغیر ہائیڈ پارک میں پھرتے تھے۔

جس ریستوران میں چاہتے‘ جس وقت چاہتے کھانا کھاتے تھے اور کسی قسم کا خوف ان کا دامن نہیں پکڑتا تھا چنانچہ دیکھا جائے تو یہ میاں برادران کی زندگی کا شاندار ترین وقت تھا‘ آرام‘ خوشحالی‘ سکون‘ شانتی‘ واک اور بے خوفی تھی لیکن پھر میاں برادران نے بھی یہ شاندار ماحول اور دنیا کی بہترین سہولتیں چھوڑ دیں اور یہ بھی اس ملک میں واپس آ گئے جس میں ان کی جان‘ ان کا مال‘ ان کا اقتدار ہر وقت خطرے میں رہتا ہے‘ یہ جس میں بلٹ پروف گاڑی کے بغیر دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر نہیں جا سکتے‘ یہ جس میں عید کی نماز بھی گھر میں پڑھنے پر مجبور ہیں‘ یہ جس میں ذاتی دوستوں سے لے کر فوج تک ہر ادارے کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں‘ یہ جس میں روز میڈیا کے نالائق اینکرز کے جاہل سوالوں کا سامنا کرتے ہیں‘ یہ جس میں عاقبت نااندیش لوگوں کو ٹیلی ویژن پر اپنی نقلیں اتارتے دیکھتے ہیں اور یہ جس میں اب اپنے خلاف نعرہ بازی دیکھ رہے ہیں‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے میاں برادران نے بھی گھاٹے کا یہ سودا کیوں کیا؟ یہ بھی آرام‘ سیکیورٹی‘ فیملی لائف‘ پیسہ اور بین الاقوامی عزت چھوڑ کر اس ملک میں کیوں آ گئے جس میں کوئی شخص‘ کوئی ادارہ انھیں جان تک کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ میں اس سوال کا جواب بھی آپ کو اگلی کہانی کے بعد دوں گا۔

آپ اب تیسری اور آخری مثال لیجیے۔

آپ جنرل پرویز مشرف کی مثال لیجیے‘ جنرل صاحب نے 18 اگست 2008ء کو صدارت سے استعفیٰ دیا اور یہ 24 مارچ2009ء کو دبئی اور لندن شفٹ ہو گئے‘ انھیں بھی دبئی اور لندن میں ہیڈ آف اسٹیٹ کاا سٹیٹس حاصل تھا‘ متحدہ عرب امارات کا شاہی خاندان جنرل مشرف کی بہت عزت کرتا تھا‘ یہ شاہ کے خصوصی جہاز اور ہیلی کاپٹروں میں شہزادوں اور شہزادیوں کی تقریبات میں جاتے تھے‘ یہ جِم جاتے تھے‘ ٹینس کھیلتے تھے‘ سگار پیتے تھے‘ مشروبات مغرب سے لطف اندوز ہوتے تھے اور روزانہ سوئمنگ کرتے تھے‘ یہ دبئی میں کسی بھی وقت‘ کسی بھی ریستوران میں چلے جاتے تھے اور انھیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا‘ یہ لندن میں بھی بہت مزے سے تھے‘ ایجویئر روڈ پر ان کا فلیٹ تھا‘ یہ پیدل چلتے ہوئے آکسفورڈ اسٹریٹ اور ہائیڈ پارک چلے جاتے تھے‘ اٹلی کے جزیروں میں چھٹیاں مناتے تھے‘ مونٹی کارلو کے کسینو میں شامیں گزارتے تھے‘ یہ امریکا کی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے تھے اور لاکھوں ڈالر معاوضہ حاصل کرتے تھے‘ صدر بش اور صدر اوبامہ کے رابطے میں رہتے تھے‘ سعودی عرب کا شاہی خاندان جنرل پرویز مشرف کا ضامن تھا‘ یہ کسی بھی وقت جنرل کیانی‘ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو فون کر دیتا تھا اور یہ لوگ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

یہ دبئی میں بیٹھ کر اپنی لولی لنگڑی پارٹی بھی چلا رہے تھے‘ یہ اینکرز کو پاکستان سے بلا کر انٹرویو دیتے تھے اور ٹھیک ٹھاک ریٹنگ حاصل کرتے تھے‘ یہ ٹیلی فون انٹرویو بھی دیتے تھے اور ان کا ہر انٹرویو میڈیا اور سیاست میں نئے گرداب پیدا کرتا لیکن پھر جنرل پرویز مشرف بھی یہ سارا آرام‘ عیش‘ مزے‘ خوشحالی‘ فراغت اور آسائش چھوڑ کر اس پاکستان میں آ گئے جس میں کوئی شخص‘ کوئی ادارہ انھیں جان کی گارنٹی نہیں دے سکتا‘ جس میں ان کے گھر کی حفاظت کے لیے پانچ سو کمانڈوز چاہئیں‘ جس میں یہ بلٹ پروف جیکٹ اور بلٹ پروف گاڑی کے بغیر عدالت نہیں پہنچ سکتے اور جس میں عدلیہ سے لے کر سیاسی جماعتوں تک تمام ادارے ان کے مخالف ہیں‘ جس میں انھیں وکیل تک نہیں ملتا اور جس میں انھیں آرٹیکل سکس کے تحت سزائے موت دینے کے مطالبات ہو رہے ہیں اور یہ جس میں طالبان کے سب سے بڑے ٹارگٹ ہیں‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جنرل پرویز مشرف نے بھی گھاٹے کا یہ سودا کیوں کیا؟ یہ بھی آرام‘ سیکیورٹی‘ فیملی لائف‘ پیسہ اور بین الاقوامی عزت چھوڑ کر اس ملک میں کیوں آ گئے جس میں کوئی شخص‘ کوئی ادارہ انھیں جان تک کی ضمانت نہیں دے سکتا‘ اب اس سوال کے جواب کا وقت آ گیا ۔

یہ ملک اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہے‘ اس ملک میں کوئی نہ کوئی ایسی خفیہ‘ کوئی نہ کوئی ایسی پوشیدہ خوبی موجود ہے جو دبئی‘ لندن‘ نیویارک اور سعودی عرب میں بھی نہیں‘ یہ خوبی اتنی بڑی‘ اتنی لازم اور اتنی شاندار ہے کہ ملک کے دو بڑے سیاسی خاندان اور جنرل پرویز مشرف جیسا شخص بھی دنیا بھر کا آرام‘ سکون اور آسائشیں تیاگ کر پاکستان آ جاتے ہیں اور سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں‘ میاں برادران نے تو اس ملک کے لیے خانہ کعبہ کے طواف اور مسجد نبویؐ کی زیارتیں تک قربان کر دیں‘ یہ محل چھوڑ کر اس ملک میں آ گئے جہاں ان کے اقتدار‘ پیسے اور جان تک کی ضمانت نہیں‘ جس میں یہ روز جیتے اور روز مرتے ہیں‘ جس میں ان کے اردگرد ہزاروں سوراخ ہیں اور ہر سوراخ سے ہر وقت خطرے کے سانپ اندر جھانکتے رہتے ہیں‘ یہ پوشیدہ خوبی‘ یہ خفیہ سہولت کیا ہے؟ ہم شاید اس زندگی میں اس کا اندازہ نہ لگا سکیں مگر یہ حقیقت ہے یہ لوگ اس سہولت‘ اس خوبی کے لیے پوری دنیا قربان کر سکتے ہیں اور یہ دنیا بھر کی سہولتیں تیاگ سکتے ہیں‘ اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے‘ یہ لوگ جس ملک کے بغیر رہ نہیں سکتے اور یہ جسے دنیا کی تمام سہولتوں اور آرام سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ یہ اس ملک کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟ یہ اسے نیویارک‘ لندن اور دبئی کیوں نہیں بناتے؟ میں جب بھی یہ سوچتا ہوں‘ میں پریشان ہو جاتا ہوں کیونکہ یہ عجیب بات ہے آپ ماں سے شدید محبت کرتے ہوں‘ آپ اسے جب تک دیکھ نہ لیں آپ کو نیند نہ آتی ہو مگر آپ اپنی بیمار ماں کا علاج نہ کرائیں‘ آپ اسے دوا نہ دیں‘ آپ ایسے لوگوں کو کیا کہیں گے‘ دنیا میں ایسے لوگوں کے لیے ظالم سے بہتر کوئی لفظ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔