زرخیز ماضی کے امین

رئیس فاطمہ  ہفتہ 9 نومبر 2013

ماضی وہ سحر ہے جس کی گرفت سے کوئی آزاد نہیں۔ ہم سب اپنے اپنے ماضی کے اسیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سوانح عمری، سرگذشت اور خود نوشت نہایت ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ماضی سے جڑی یادیں ہر انسان کی یادوں کی قندیلوں میں گاہے گاہے جگمگاتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ ناقابل فراموش یادیں تکلیف دہ بھی ہوتی ہیں۔ لیکن خانۂ دل سے نکلتی نہیں۔ دلکش یادوں کا کیا کہنا وہ تو خزانہ ہوتی ہیں۔ ان یادوں میں بہت کچھ ہوتا ہے، کتابیں، مخلص دوست، اچھی موسیقی اور وہ فلمیں جو ایک بار دیکھنے کے بعد حافظے سے ایسی چپک گئیں کہ بھلائے نہیں بھولتیں۔ ہمارے والدین جب ان حوالوں سے باتیں کرتے تھے تو سن کر رشک آتا تھا اور میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ یاالٰہی ہمیں ایسی زندگی کیوں نہ ملی جس میں اتنے پیارے پیارے لوگ تھے۔ ایسے ایسے گلوکار، موسیقار، اداکار، فلم تھیٹر اور ریڈیو کے لوگ والد کے دوست تھے؟

نہایت پرخلوص ہمسائے اور اہل محلہ رشتے داروں سے زیادہ عزیز تھے…!! سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اس لحاظ سے زیادہ خوش قسمت تھے کہ انھیں ایک دوستانہ مخلوط سوسائٹی ملی تھی، جہاں بہت کچھ اصلی تھا، اصلی گھی، اصلی دوائیں، اصلی پھل، اصلی گندم اور اصلی لوگ، جو اپنے چہروں پہ خول نہیں چڑھائے ہوئے تھے۔ لوگوں کی عزت، ان کا حسب نسب، خاندان، علم اور تہذیب ہوا کرتی تھی نہ کہ دولت۔ کسر نفسی اور انکسار اعلیٰ نسبی کی دلیل تھی۔ چھٹ بھیے اپنے منہ میاں مٹھو بنتے تھے تو صاف پہچانے جاتے تھے۔ بچوں کی شادیوں میں صرف شرافت، کردار اور خاندان کو اولیت دی جاتی تھی۔ جسے گھر کی بڑی بوڑھیاں ’’ہڈی بوٹی دیکھنا‘‘ کہتی تھیں۔ ظاہر دار بیگ جیسے لوگوں کی سماج میں کوئی عزت نہ تھی۔ اعلیٰ نسب انسان فقیر ہو کر بھی ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہنا کم ظرفی سمجھتا تھا۔ لیکن ننگے بدن پہ بنیان اور کرتے کے بغیر شیروانی پہننے والا لب و لہجے سے پہچان لیا جاتا تھا کہ خاندانی نجیب ہے۔ چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے غربت میں بھی الگ شان رکھتے تھے۔

خوش قسمتی سے بچپن میں ایک ایسے خاندان کو بہت قریب سے دیکھا ہے، جو ہجرت کے عذاب سے گزرے، جو محاورتاً دھنیا مرچوں کے باغ چھوڑ کر نہیں آئے تھے بلکہ سلطنتیں چھوڑ کر آئے تھے۔ کراچی میں برنس روڈ پہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اعلیٰ نسبی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ان سے میں نے قرآن مجید پڑھا اور پھر ایک دن والدہ کی زبانی حقیقت پتہ چلی تو آنکھوں میں آنسوئوں کے ساتھ دریائے حیرت میں غرق ہو گئی کہ وہ خوبصورت، حسین و جمیل چہرے جو ہاتھ لگانے سے میلے ہوں، ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا لیکن یہ لوگ مردانے کرتے سی کر گزارا کرتے تھے۔ یہی بدنصیب خاندان جنھیں نہ کلیم میں کچھ ملا نہ انھوں نے کوئی کلیم داخل کیا، میرے ایک افسانے ’’گلاب زخموں کے‘‘ کی تخلیق کی وجہ بنے۔

کسی حد تک ہماری عمر کے لوگ بھی خوش نصیب ہیں کہ انھوں نے ضیاء الحق سے پہلے کا زمانہ دیکھا ہے۔ فنون لطیفہ کے وہ ادارے اور وہ لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی ملک کے لیے سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ اور پھر ہم نے ضیاء الحق ڈکٹیٹر کے بعد کا زمانہ بھی دیکھا، جب اس سرزمین کو مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کے کفن میں لپیٹ کر ایک نئی تجارت کا آغاز کر دیا گیا، اسلام کی ظاہری وردی پہن کر کراچی، لاہور اور دیگر شہروں سے ان علاقوں کی صفائی کروا دی گئی جہاں راتیں جاگتی تھیں، لیکن افسوس کہ جنرل صاحب کی اس حرکت سے پورا شہر آلودگی سے بھر گیا۔ اب کسی بھی شہر میں کچھ نہیں پتہ کہ پڑوسی کون ہیں اور کیا کاروبار کرتے ہیں۔ جب گندے نالے سرے سے ختم کر دیے جائیں گے تو غلاظت کو جہاں جگہ ملے گی وہ وہیں جمع ہو جائے گی اور اب تک یہی ہو رہا ہے۔ ہر نئی بستی میں سب سے پہلے جو لوگ آ کر بستے ہیں وہ منٹو کے افسانوں کے کردار ہوتے ہیں اور اب دہشت گردوں کو ہیرو اور شہید کا رتبہ عطا کرنے والوں کی وجہ سے ہر نئے علاقے میں یہ زہریلے سانپ بھی بلوں میں گھس کر رہنے لگے ہیں۔

جہاں منشیات اور اسلحہ دونوں کو وافر مقدار میں پہنچانے کی ذمے داری بھی ان ہی کی ہے جو انھیں شہید قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کہ جو بے گناہوں کو مارے وہ شہید کیونکر ہو سکتا ہے…؟ کیا قوم ہیں ہم بھی کہ جس کے سر کی قیمت خود پاکستان میں لگ چکی ہو، جس نے ہزاروں فوجی جوانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا ہو، جس نے بے شمار پولیس اہلکاروں کی زندگیاں جان بوجھ کر ختم کی ہوں، وہ ڈرون حملوں میں مرتا ہے تو ہیرو کیسے بن جاتا ہے۔ ہر ذی ہوش اور صاحب علم انسان جو اپنے ہم وطنوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے امن چاہتا ہے وہ ایسے سنگدل اور بے رحم لوگوں کو انسان کہنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ کاش اقتدار کی خاطر منتخب نمائندے ان دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کرتے تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا…!!!

ہم تو پھر بھی اچھی یادوں کے امین ہیں کیونکہ ہم نے بھی وہ سر زمین، وہ شہر، وہ گلیاں اور وہ محلے دیکھے ہیں جہاں صرف انسانیت کا بول بالا تھا۔ ہماری یادوں میں ماضی کی اچھی فلمیں، کتابیں، موسیقی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ لیکن ہمارے بچوں کا ماضی تو ان سب سے بالکل خالی ہے۔ جب یہ بڑے ہوں گے تو انھیں کیا پتہ ہوگا کہ پاکستان میں کبھی بہت اچھی اور معیاری فلمیں بھی بنتی تھیں۔ روشن آرا بیگم، فریدہ خانم، استاد امانت علی، فتح علی، میڈم آزوری، ناہید صدیقی گھنشیام فیملی، نگہت چوہدری اور شیما کرمانی کون ہیں۔ خدا بھلا کرے الحمرا آرٹس کونسل لاہور کا کہ جس کی بدولت ناہید صدیقی جیسی باصلاحیت کلاسیکی فنکارہ کے زندہ وجود کا پتہ چلا۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو صرف جنازے اٹھنے کے بعد پروگراموں کا پیٹ بھرنے کے لیے مرنے والے فنکار کی زندگی کی چند جھلکیاں دکھا کر سمجھتے ہیں کہ ذمے داری پوری کر دی۔ آج کے بچے ریشماں، روحی بانو اور مہدی حسن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ نصرت فتح علی اور راحت فتح علی کو بھی بھارت جا کر ہی شناخت ملی کہ وہ فن کے قدر دان لوگ ہیں جنھیں وہ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی مثال کھسیانی بلی اور کھمبے والی ہے۔

ماضی کو یاد کرنے کے لیے اس کا زرخیز ہونا بہت ضروری ہے۔ بنجر یادیں زندہ نہیں رہتیں۔ ہمارے بچوں کو ڈرون حملوں، ہیروئن فروشی، مذہبی منافرت، خودکش بمباروں، گندی فلموں، انٹرنیٹ پر بیہودہ چیٹنگ، موبائل فونز کا غلط استعمال اور نشہ کرنے کی عادتوں کے علاوہ اور کیا یاد رہے گا۔ ان کی نظر میں صرف وہ عزت دار ہو گا اور ہے جس نے ناجائز طریقے سے دولت جمع کی ہو اور اس کے لیے حکمران جماعتوں کو منہ مانگی فیس ادا کی ہو۔ ہمارے بچوں کے ہیرو اغوا برائے تاوان کے ذریعے محلات تعمیر کرنے والے ہیں۔ وہ اپنا آئیڈیل محمد علی جناح کو نہیں بلکہ قبضہ مافیا کے سرغنہ کو سمجھتے ہیں۔

ہم ذہنی طور پر کیسی بانجھ نسل چھوڑ کر جائیں گے؟ جس کا ماضی صرف صوبائی و لسانی نفرتوں سے لبریز ہو گا، جو صرف دہشت گردوں اور مذہب کے نام پر قبضہ گروپ کو جانتی ہو گی، جو انسان کو صرف انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہندو، یہودی، عیسائی، سکھ اور قادیانی کے ناموں سے جانتی ہے۔ لیکن بیرون ملک وہ اپنے لیے صرف انسان کی حیثیت منوانے کی خواہش مند ہو۔ کیسا کھلا تضاد ہے۔ اپنے لیے میٹھا میٹھا حلوہ ایسا کہ منہ جل جائے اور دوسروں کو ایک لقمہ بھی دینے کے روادار نہیں…!! یہی ہیں ہمارے اسلام کے اور پاکستان کے دشمن جو اسلحہ اور منشیات کا بیوپار کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔