چار ہزار کی روٹی

طارق محمود میاں  ہفتہ 9 نومبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

ان دنوں جب بھی کسی فراڈ کی بات ہوتی ہے تو معاملہ پانچ سات ارب روپے سے شروع ہوتا ہے۔ لاکھوں اور کروڑوں کی دھاندلی کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔ نہ دھاندلی کو رپورٹ کرنے والے اور نہ سننے والے۔ اس کے باوجود میں آج اپنے قارئین سے فقط چند سو روپوں کے فراڈ پر توجہ دینے کی درخواست کروںگا۔ اس درخواست کی وجوہات دو ہیں، ایک یہ کہ یہ فراڈ میرے ساتھ ہوا ہے اور دوسرے یہ کہ اسے حکومت نے کیا ہے۔

میں نے ایسی کئی کہانیاں پڑھی ہیں جن میں کوئی شخص اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے مدتوں عدالتی جنگ لڑتا ہے اور پھر خود کو سچا ثابت کرکے سرخرو ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نے دو روپے زائد چارج کیے جانے پر مقدمہ کردیا۔ ہزاروں روپے وکیل کی فیس دی، وقت صرف کیا اور پھر مقدمہ جیت کے وہ دو روپے واپس لے کر دکھائے۔ اس قسم کا جہاد کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میرا موضوع وہ بل ہیں جو آپ لوگ بھی ہر ماہ وصول کرتے ہیں اور میری طرح چپکے سے ادا کردیتے ہیں۔ آئندہ بھی کرتے رہیںگے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے بل چیک کرنے اور نمٹانے کی ذمے داری چونکہ میں نے خود سنبھالی ہوئی ہے اس لیے نئے نئے انکشافات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مثلاً بجلی کے بلوں کی تفصیل آپ کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ ہر ماہ کے بل کا نرخ مختلف ہوتا ہے۔ اس کے بہانے سو ہوسکتے ہیں۔ آپ کے محلے والے جو بجلی چوری کرتے ہیں اس کی قیمت اور تیل کی عالمی قیمت کا فرق وغیرہ وغیرہ۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ پی ایچ ڈی بھی کرلیں تو بے کار جائے گی۔ میں نے بہت حساب کتاب کرکے دیکھا کچھ پلے نہیں پڑا۔

ترے وصال کی بستی، ترے کرم کا دیار

یہ پرگنے میری جاگیر میں نہیں آئے

آئیے آپ کو ایک اور بدگمانی میں مبتلا کرتا ہوں۔ ہوا یہ کہ میں شام کو ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ خواجہ آصف نے ڈرانا شروع کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا ریٹ بڑھانے کے ساتھ ہی ہم ہر بل پر مختلف درجات کا فائدہ پہنچانا بھی بند کررہے ہیں۔ پہلے اگر کسی کا بل 1000 یونٹ کا ہوتا تھا تو اسے 200 یونٹ تک سب سے کم ریٹ لگتا تھا پھر 300 یونٹ والا ریٹ اور اس کے بعد 500 اور 700 یونٹ والا ریٹ، اس کے بعد 1000 یونٹ سے اوپر سب سے زیادہ ریٹ لگتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب 1000 یونٹ کراس کرتے ہی نیچے والے تمام یونٹس پر 700 یونٹس والا ریٹ عائد ہوجائے گا۔ اسی طرح اس سے کم بلوں پر بھی صرف ایک نیچے والے درجے کا فائدہ ملے گا۔ اور بس۔ اس کی وجہ خواجہ آصف نے یہ بتائی کہ اس طرح لوگ بجلی کی بچت کریںگے اور اوپر والے درجے کے اندر رہنے کی کوشش کریں گے۔

یہ خوفناک خبر سنتے ہی میں جلدی سے باہر بھاگا اور جاکے بجلی کے میٹروں کی ریڈنگ نوٹ کی۔ اس روز 26 تاریخ تھی گزشتہ بل سے حساب ملایا تو اطمینان ہوا کہ حالات کنٹرول میں ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد اگلا بل موصول ہوا تو اس پر میٹر ریڈنگ کی تاریخ 29 تھی لیکن ریڈنگ، اس ریڈنگ سے جو میں نے 26 تاریخ کو لی تھی کوئی ایک سو یونٹ کم تھی گویا مجھے اس دفعہ تقریباً ڈیڑھ سو یونٹ کا بل کم بھیجا گیا ہے۔ یہ یونٹ جب اگلے بل میں شامل ہوںگے تو مجھے چند سو روپے فالتو دینا پڑیںگے۔ کیوںکہ اس ماہ سے نئے نرخ نافذ ہوں گے، یہی وہ فراڈ ہے جس کا ذکر میں نے آغاز میں کیا ہے۔

اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فراڈ کرکے بہت سی کمپنیاں بہت بڑا مال بنالیتی ہیں۔ اس فراڈ کی مالیت چونکہ کم ہوتی ہے اس لیے لوگ پرواہ بھی نہیں کرتے۔ میٹر کو ذرا سا تیز کردینا اور بلوں کو تاخیر سے بھیجنا تاکہ جرمانہ وصول ہو، یہ بھی ایسے ہی فراڈ ہیں۔ ایک اور بہت ہی باریک سا فراڈ بل کی رقم کو رائونڈ کرنے میں بھی کیا جاتا ہے۔ رقم ہمارے ہاں بھی رائونڈ کی جاتی ہے لیکن مجھے اس میں فراڈ کا عنصر دکھائی نہیں دیا۔ ویسے یہ فراڈ کی ایک بڑی دلچسپ قسم ہے۔ اسے ’’SALAMI SLICING‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی بل میں رقم کا آخری ہندسہ جب اعشاریہ میں چلا جاتا ہے یعنی ’’ایک‘‘ سے کم ہوجاتا ہے تو اسے غائب کرکے ایک علیحدہ اکائونٹ میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم چند پیسوں سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن جمع ہوتے ہوتے لاکھوں روپے بن جاتے ہیں۔ اسے ’’PENNEY SHAVING‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس قسم کے بہت سے فراڈ پکڑے گئے ہیں جن میں اس طرح کئی لوگوں نے انفرادی طور پر کئی ملین کا چونا لگایا ہے۔ میں نے اس قسم کی ایک کہانی بھی پڑھی تھی جس میں ایک شخص اپنی کمپنی کے سسٹم میں کمپیوٹر کی پروگرامنگ اس طرح کرتا ہے کہ ایک سینٹ سے کم کی رقم ہر بل میں سے علیحدہ ہوکے اس کے اپنے اکائونٹ میں منتقل ہوجاتی ہے، وہ رقم کے آخری ہندسے کو نچلی سطح پر رائونڈ کردیتا تھا۔ اس طرح وہ دھیرے دھیرے دو ملین ڈالر جمع کرلیتا ہے۔

ایک دلچسپ فراڈ ایک بار ٹیلی فون کے محکمے نے بھی میرے ساتھ کیا تھا۔ یہ خاصی پرانی بات ہے۔ ان دنوں غیر ممالک میں فون کرنے کے نرخ بہت زیادہ تھے۔ فون کا بل آیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں ایک طویل دورانیے کی سعودی عرب کی کال درج ہے۔ یہ کوئی ساڑھے تین ہزار روپے کی کال تھی۔ حالانکہ ہمارے ہاں سے سعودی عرب کبھی بھی فون نہیں کیا جاتا تھا۔ بیشتر کالز امریکا کی ہوتی تھیں اور مزے کی بات یہ تھی کہ اسی بل میں امریکا کی ایک ایسی کال بھی درج تھی جو اس دورانیہ میں ہوئی جب سعودی عرب کی کال ہورہی تھی۔ گویا دو کالز ایک ہی فون سے بیک وقت ہورہی تھی۔ یہ غلطی یا فراڈ کا ایک واضح ثبوت تھا لیکن افسوس کہ شکایت کرنے اور مہینوں پیشیاں بھگتنے کے بعد میں ہی ہمت ہارگیا۔

تین مہینے پہلے میرے ساتھ گیس کے محکمے نے بھی ہاتھ کردیا تھا۔ یہ فراڈ تھا یا نہیں اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جو ہوا وہ سن لیجیے۔ گیس کا نرخ بھی استعمال کے حساب سے مختلف درجات کے لیے الگ الگ ہے۔ آپ جس درجے میں داخل ہوجائیں، سارا بل اسی کے ریٹ سے بنتا ہے۔ آسانی کے لیے یوں سمجھیں کہ 300 یونٹ تک جو ریٹ ہے وہ 301 یونٹ ہوجانے پر تین گنا بڑھ جاتا ہے، گرمیوں میں ہمارا بل 2 ہزار روپے کے اندر رہتا ہے لیکن اس ماہ اس نے ایک اسپیشل جمپ لیا اور ٹھیک 301 یونٹ تک پہنچ گیا۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی لیکن 300 سے اوپر والا ایک یونٹ ہمیں چار ہزار روپے کا پڑا اور بل چھ ہزار روپے سے بڑھ گیا۔

میں اس روز کچن میں گیا اور باورچی کو کفایت شعاری پر ایک لیکچر دیا۔ اسے سمجھایا کہ چولہے دھیمے رکھو۔ فالتو مت جلائو اور بروقت بند کردیا کرو۔ دیکھو تمہاری ایک ذرا سی لاپرواہی سے صرف ایک یونٹ نے چار ہزار روپے فالتو خرچوادیے ہیں۔ یوں سمجھو کہ میٹر ریڈنگ والے روز تم نے جو آخری روٹی پکائی تھی وہ ہمیں چار ہزار روپے کی پڑی ہے۔

میں یہ کہہ کے چلا آیا، تھوڑی دیر کے بعد باورچی میرے کمرے میں آیا اور بولا ’’صاحب ایک بات بتائوں؟‘‘

میں نے کہا ’’ہاں بتائو‘‘

بولا ’’صاحب! جس دن میٹر ریڈر آیا تھا، اس دن سب گھر والے باہر گئے ہوئے تھے، صرف آپ گھر میں تھے اور اخبار کے لیے لکھ رہے تھے۔ وہ چار ہزار روپے کی روٹی آپ نے کھائی تھی‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔