بھارتی تیور اور ہمارے کرنے کے کام

شاہد سردار  اتوار 12 جنوری 2020

دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ سمجھا جانے والا بھارت نریندر مودی کے دوسرے دورحکومت میں غاصبانہ سوچ ، جنگی جنون اور نفرت انگیز نسل پرستی کا علم بردار بن کر علاقائی اور عالمی امن کے لیے جتنے سنگین خطرے کی حیثیت اختیارکرچکا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اور یہ بھی غلط نہیں ہوگا تحریر کرنا کہ نریندر مودی فرعون، ہلاکو، نمرود اور ہٹلرکے پیروکارکی حیثیت سے عالمی افق پر براجمان ہے بڑی طاقتیں اور مال و دولت سے لدی عرب ریاستوں کا بھی وہ بوجوہ آنکھ کا تارہ بنا ہوا ہے۔

کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ مظالم کی داستان کو اگر ایک طرف رکھ کر حالیہ بھارت کی تصویر دیکھی جائے جو ساری کی ساری مودی کی بنائی ہوئی ہے تو پتا چلتا ہے کہ بھارتی حکومت جس بد نیتی سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے وضع کردہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملک کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرتی جا رہی ہے، اس کے خلاف پوری دنیا بالخصوص اسلامی ملکوں میں غم و غصے اور اضطراب کی شدید لہر میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔

اقوام عالم پر گہری نگاہ رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارت عالمی قوانین کے تحت مسلمانوں کے تحفظ کا پابند ہے۔ یہ قوانین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق کی بلاتفریق ضمانت دیتے ہیں۔ ان کے خلاف اقدامات تناؤکا باعث اور امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں سبھی ذی شعور اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ مودی سرکار نے پہلے مقبوضہ کشمیرکو بھارت میں مدغم کرنے کا غیر آئینی قدم اٹھایا جس کا مقصد وہاں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ہندوؤں کو بسانا ہے۔ اس کے بعد خود بھارت میں بھی مسلمانوں کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ سے قانون منظور کرا لیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم اس قانون کی آڑ میں چاہتے تھے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں کا بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے اسے دنیا میں بدنام کریں مگر بھارتی اپوزیشن اور خود اقلیتوں نے ان کی چال ناکام بنا دی۔ اس وجہ سے پورے بھارت میں اس قانون کے خلاف خوں ریز ہنگامے پھوٹ پڑے اور لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر اس حوالے سے نکلے، غیر ملکی فورم پر بھی اس کا خوب احتجاج نما پرچار ہوا۔ بھارتی فوج اور پولیس اپنی طاقت اور اختیار سے حقیقت کو وقتی طور پر دبا یا چھپا لیتے آئے ہیں۔ لیکن بھارت کے حکمران اور اس کی کابینہ کا ظالمانہ غاصبانہ رویہ آخر دنیا کے اقوام کو کیوں کر غیض و غضب کا حامل نہیں بنا رہا اور وہ اس حوالے سے اپنا موثر کردارکیوں ادا نہیں کر رہے؟بالخصوص سلامتی کونسل یا یو این اے یا دیگر غیر ملکی این جی اوز بھارت کے اس آمرانہ اقدام کی مخالفت میں یکجا ہوکر اٹھ کھڑی ہونے میں کیوں تاخیر یا صرف نظر کر رہی ہیں؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ غربت ، بیماری اور پسماندگی ختم کرنے کے عالمی ادارے سرگرم ہیں اور ملکوں کے مابین تنازعات طے کرنے کی خاطر عالمی عدالت انصاف بھی قائم ہے۔ اس کے علاوہ علوم و فنون انسانی وسائل اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی ان گنت ایجنسیاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن ان تمام انتظامات کے باوجود انسان اور انسانیت کا خون بہت ارزاں کردیا گیا ہے اور انسانوں کے عدم تحفظ کا احساس سوہان روح بنا ہوا ہے۔

بھارت میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ’’شہریت قانون‘‘ کے خلاف ہر لمحہ بڑھتے شدید احتجاج کو روکنے میں کسی طرح کامیاب نہیں ہو پا رہے اور بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت کے انداز و اطوار سے پتا چلتا ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے پاکستان سے کسی نہ کسی پیمانے پر جلد محاذ آرائی کی تیاری کی جا رہی ہے جب کہ یہ امر واضح ہے کہ سرحد پار سے کسی بھی جارحیت کا ارتکاب کیا گیا تو پاکستان کے پاس منہ توڑ جواب دینے اور ہر ممکنہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا خواہ اس کے نتیجے میں جنگ کا دائرہ کسی بھی حد تک پھیل جائے۔

ویسے بھی آج عالمی فضا میں ایک تغیر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک بحران کے بعد دوسرا بڑا بحران جنم لے رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دستور اور قانون کی بالادستی کے بجائے طاقت کی حکمرانی اور عقل کی نارسائی بتائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اداروں کے تصادم کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ عام شہری مہنگائی، بے روزگاری اور پھیلی ہوئی ناامیدی سے بے حد پریشان ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید مخاصمت نے صورتحال مزید بگاڑ دی ہے۔

سامنے کی حقیقت سب پر آشکار ہے کہ بھارت ہر دور میں پاکستان سے بگاڑنے میں لگا رہا ہے اور اسے زک پہنچانے کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتا۔ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی بھی وہ اسی لیے برسوں سے کرتا چلا آرہا ہے تاکہ وہ کھلم کھلا جنگ کرسکے لیکن ایک ہم ہیں ہم مذمتوں اور قراردادوں کو پیش کرنے اور سفارت کار کو بلا کر احتجاج کرنے کے سوا اورکچھ نہیں کر پا رہے۔ کشمیر کے حوالے سے دیکھ لیں اور وطن عزیز کی سرحدی خلاف ورزیوں سے پہنچنے والے جانی و مالی نقصان کی طرف دیکھ لیں۔ گو جنگی غلطیوں سے ہماری تاریخ بھی خالی نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ انسانی تاریخ کے آغاز سے جو واقعہ انسانوں کو سب سے زیادہ متاثرکرتا آیا ہے، وہ جنگ ہے۔ اکثر قوموں کی تاریخ ہی جنگ کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی خوشی، ان کے غم، ان کے ہیرو اور ان کے ولن جنگ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جنگ سے انسانوں کی نسلیں اور ان کی جائیدادیں یا زمین تک صدیوں عبرت کا نشان بنی رہتی ہیں۔ اسی لیے جنگ کو مسئلے کا حل کبھی نہیں سمجھا جاتا۔

افسوس کے ساتھ اس تلخ سچائی کو بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ 1962 میں ہماری قومی طاقت کوکشمیر پر قبضہ کرنے کا موقع ملا تھا مگر ہمارے ارباب اختیار سوتے رہ گئے۔ اقوام اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ ملنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں اور جب وہ ایسا نہیں کرتیں تو ان کا حال ہمارے جیسا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان بھارت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکار ضرور رہے ہیں لیکن اس کے لیے ایک ایسے پاکستان کی موجودگی بہرطور ضروری ہے جو نہ صرف فوجی اعتبار سے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو بلکہ جو بحیثیت قوم بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط و مستحکم ہو، الزام و دشنام اور انتقام کی سیاست سے پاک ہو، جس میں احتساب کا عمل سیاسی مداخلت سے پوری طرح آزاد ہو اور جس کے ادارے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں الجھے ہوئے نہ ہوں، اور ایسے پاکستان کی طرف پیش قدمی یقینی طور پر سب سے زیادہ حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔