اللہ کا چوتھا بندہ

جاوید چوہدری  اتوار 12 جنوری 2020
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میں نے 22 سال کی عمر میں کام شروع کر دیا تھا‘ میں ایک ماہانہ میگزین میں کام کرتا تھا‘ میرا پہلا باس بہت دلچسپ انسان تھا‘وہ ایڈیٹر تھا اور ہم تین نوجوان اس کے ماتحت تھے۔

میں اپنے باس کے بہت قریب ہوتا تھا‘ وہ میرے ساتھ گپ بھی لگاتا تھا‘ چائے بھی پیتا تھا‘ فلمیں بھی دیکھتا تھا‘ واک بھی کرتا تھا‘ کھانا بھی کھاتا تھا اور اکثر اوقات رات کے وقت میرے کمرے میں فرش پر سو بھی جاتا تھا‘ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب تھے‘ وہ میرے کپڑے اور میں اس کے کپڑے پہن لیتا تھا‘ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ’’ڈرٹی جوکس‘‘بھی شیئر کرتے تھے۔

ہمارا دوسرا ساتھی انتہائی نالائق تھا‘ وہ کچھ کر سکتا تھا اور نہ کرتا تھا‘ اس کی واحد خوبی چاپلوسی تھی‘ وہ بے انتہا خوشامدی تھا‘ وہ سارا سارا دن باس کی واہ واہ کرتا رہتا تھا‘ وہ اس کے جوتے تک پالش کر دیتا تھا‘ باس اس سے بہت تنگ تھا‘ وہ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا رہتا تھا لیکن وہ ایسا کاری گر انسان تھا کہ وہ اپنا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتا تھا جب کہ ہمارا تیسرا ساتھی انتہائی بور انسان تھا‘ وہ صرف کام سے غرض رکھتا تھا‘ وقت پر دفتر آتا تھا‘ کسی سے فالتو گفتگو نہیں کرتا تھا‘ لنچ بھی میز پر فائلوں کے درمیان کرتا تھا‘ چائے بھی نہیں پیتا تھا اور آپ یہ جان کر حیران ہوں گے وہ دفتری اوقات میں واش روم بھی نہیں جاتا تھا۔

ہم اسے ببل گم کہتے تھے‘ کیوں کہتے تھے؟ کیوں کہ وہ صبح نو بجے آ کر ببل گم کی طرح کرسی کے ساتھ چپک جاتا تھا اور شام پانچ بجے چھٹی کے وقت اٹھتا تھا‘ وہ ہمیشہ اپنا کام ختم کر کے گھر جاتا تھا‘ اس کی میز پر کوئی کام نہیں ہوتا تھا‘ وہ آندھی‘ طوفان‘ سردی‘ بارش‘ گرمی حتیٰ کہ کرفیو کے دن بھی وقت پر دفتر آ جاتا تھا‘ وہ باس سے معاوضہ بڑھانے کا مطالبہ بھی نہیں کرتا تھا‘ وہ باس کے ساتھ فری بھی نہیں ہوتا تھا اور وہ باس کے لطیفے بھی نہیں سنتا تھا‘ باس میرے دونوں ساتھیوں سے تنگ تھا‘ وہ میرے ساتھ ان کی غیبتیں کرتا رہتا تھا۔

سال گزر گیا‘ ہماری پروموشن کا وقت آ گیا‘ مجھے یقین تھا میں باس کے قریب ہوں‘ یہ میرا دوست ہے‘ یہ مجھے ضرور پروموٹ کردے گا‘ مجھے یہ بھی یقین تھا باس دوسرے دونوں ملازموں کو نوکری سے بھی نکال دے گا لیکن پھر باس نے ایک عجیب حرکت کی‘ اس نے کنٹریکٹ کے خاتمے کے دن ہم تینوں کو ایک ایک لیٹر دے دیا‘ میں نے خوشی کے ساتھ‘ بڑا اکڑ کر لیٹر کھولا اور میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘ میرے باس نے میرا کنٹریکٹ ختم کر دیا تھا‘ لیٹر میں لکھا تھا کمپنی کو مزید میری سروسزدرکار نہیں ہیں‘ میں کل سے دفتر نہ آئوں‘ ہمارا دوسرا کولیگ بھی دکھ کے عالم میں میری طرف دیکھ رہا تھا‘ باس نے اسے بھی نکال دیا تھا۔

میں نے پریشانی میں تیسرے کولیگ کی طرف دیکھا‘ وہ میری طرف ہی دیکھ رہا تھا‘ اس نے اپنا لیٹر مجھے پکڑا دیا‘ میں اس کا لیٹر دیکھ کر حیران رہ گیا‘ باس نے نہ صرف اسے دو سال کا نیا کنٹریکٹ دے دیا تھا بلکہ اس کی سیلری میں بھی تین گنا اضافہ کر دیا تھا‘ میری کھوپڑی میں آگ لگ گئی‘ میں باس کے پاس گیا اور لیٹر اس کی میز پر پھینک کر کہا ’’یہ کیا ہے‘‘۔

باس نے کان پر خارش کرتے ہوئے کہا ’’جاوید تم میرے بہت اچھے دوست ہو‘ میں تمہیں دل سے پسند کرتا ہوں‘ تم بہت اچھے دوست اور بڑی شان دار کمپنی ہو‘ میں تمہارے ساتھ جتنا انجوائے کرتا ہوں میں اتنا کسی دوست کے ساتھ خوش نہیں رہتا لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے تم جتنے اچھے دوست ہو تم اتنے اچھے ملازم نہیں ہو‘ تم نے سارا سال کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کیا‘ نہ تم وقت پر آئے اور نہ کوئی کام مکمل کیا‘ تم بہت اچھے دوست مگر بہت برے ملازم ہو‘ میں دوست کے ساتھ تمہارا باس بھی ہوں‘ مجھے کام بھی چاہیے‘ میری تمہاری دوستی ہمیشہ قائم رہے گی لیکن میں تمہارے ساتھ کام نہیں کر سکتا‘ کام میں صرف تمہارے بور کولیگ کے ساتھ ہی کر سکتا ہوں‘‘۔

میں نے باس کو برا بھلا کہا اور اس کے دفتر سے باہر نکل گیا‘ مجھے چند دن بعد پتہ چلا باس نے چاپلوس ملازم کو بھی دوبارہ کنٹریکٹ دے دیا تھا تاہم اس کی تنخواہ کم کر دی تھی۔ میں وہاں سے آ گیا لیکن مجھے ایک چیز سمجھ آ گئی‘ دنیا کے تمام باسز کام کے لیے باس بنتے ہیں اور انھیں ہر حال میں کام چاہیے ہوتا ہے‘ آپ ان کے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں آپ اگر کام نہیں کریں گے تو آپ نوکری سے نکال دیے جائیں گے‘ مجھے یہ بھی پتہ چلا دنیا میں دو قسم کے باس ہوتے ہیں‘ کامیاب باس اور ناکام باس‘ کامیاب باس کام کو ریلیشن پر فوقیت دیتے ہیں جب کہ ناکام باس ریلیشن کے لیے کام کو قربان کر دیتے ہیں۔

میں نے یہ بات پلے باندھ لی‘ مجھے پھر وقت نے آہستہ آہستہ ایک اور نکتہ بھی سکھا دیا‘ میں نے ایک دن اپنے آپ سے پوچھا‘ ہم انسان اگر اللہ تعالیٰ کو بھی افسر سمجھ لیں‘ بگ افسر‘ دنیا کا سب سے بڑا باس تو پھر سوال یہ ہے اللہ کیسا باس ہو گا‘ کام یاب یا ناکام؟ یقینا اللہ تعالیٰ دنیا کا کام یاب ترین باس ہو گا‘ کیوں؟ کیوں کہ آپ اس کی بنائی کائنات کو دیکھیے‘ یہ کائنات کس قدر پرفیکٹ‘ کتنی حیران کن ہے‘ ہمارے آسمان پر 200 ارب کہکشائیں ہیں‘ ایک درمیانے سائز کی کہکشاں میں چار سو ارب ستارے ہوتے ہیںاور ہم اگر اس کائنات کو دیکھنا چاہیں تو ہمیں 47 ارب لائیٹ ائیرز چاہیے ہوں گے اور ایک لائیٹ ائیر کتنا بڑا ہوتا ہے؟

یہ ہمارے ایک لاکھ 36 ہزار سال کے برابر ہوتا ہے لہٰذا آپ تصور کیجیے ہمیں یہ کائنات دیکھنے کے لیے کتنا عرصہ چاہیے ہو گا؟ دنیا میں اس وقت سات ارب لوگ ہیں‘ یہ سات ارب لوگ ایک جیسے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہیں‘ ہم سب لوگ ایک سسٹم میں بھی بندھے ہوئے ہیں اور یہ سسٹم کون چلا رہا ہے‘ یہ دنیا کا سب سے بڑا افسر یعنی اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے‘ اب اللہ اگر بگ باس ہے اور ہم فرض کر لیں اگراس کے پاس تین قسم کے ملازم ہیں‘ پہلی قسم کے ملازم صرف اللہ کے دوست ہیں‘ یہ میری طرح اللہ کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے‘ یہ پوری زندگی سبحان اللہ اور واہ واہ کے علاوہ تنکا بھی دہرا نہیں کرتے۔

دوسری قسم کے ملازم منت گروپ ہیں‘ یہ ہر وقت دعا کرتے رہتے ہیں‘ اللہ کی منت‘ اللہ کی خوشامد کرتے رہتے ہیں اور تیسری قسم کے ملازم سر نیچے کر کے صرف اور صرف کام کرتے رہتے ہیں‘ یہ اس کائنات کو کھوجتے رہتے ہیں‘ یہ اللہ کی زمین کو خوب صورت اور رہنے کے قابل بناتے رہتے ہیں‘ یہ اس کے بندوں کی مدد کرتے رہتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے بگ باس یعنی اللہ تعالیٰ کو اگر کسی کو پروموٹ کرنا پڑے تویہ کس کو کرے گا؟ یہ کس کی اے سی آر میں ایکسی لینٹ لکھے گا؟

یہ یقینا میرے پہلے باس کی طرح کام کرنے والے کو ایکسٹینشن دے گا‘ یہ اسے ہی ایکسی لینٹ لکھے گا چناں چہ خدا اگر بگ باس ہے اور ہم اس کے غلام‘ اس کے ملازم ہیں تو پھر اللہ کو راضی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ ہم کام کریں‘ سخت محنت کریں‘ ڈسپلن کا خیال رکھیں‘ اپنی سکِل امپروو کریں اور اپنی ذمے داری ایمان داری سے نبھائیں‘ ہم اللہ کے کرم کو پا جائیں گے اور دنیا کے ستر اسی فیصد گورے‘ سارے ترقی یافتہ ملک یہی کر رہے ہیں‘ یہ صرف اور صرف کام کر رہے ہیں۔

اللہ انھیں پسند نہیں کرتا لیکن اس نے اس کے باوجود انھیں سب کچھ دے رکھا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ اپنا کام پوری ایمان داری اور پوری ذمے داری کے ساتھ کر رہے ہیں چناں چہ اللہ انھیں ایکسٹینشن بھی دے رہا ہے اور ان کی اے سی آر بھی اچھی لکھ رہا ہے جب کہ ہم اس کے دوست ہوتے ہوئے بھی دنیا میں بھی جوتے کھا رہے ہیں اور ہم آخرت میں بھی کھائیں گے‘ پیچھے رہ گئے منت کرنے والے لوگ تو اللہ تعالیٰ ان کی تنخواہ ان کی مراعات کم کر کے انھیں برداشت کر رہا ہے‘ یہ کہتا ہے یہ لوگ ہیں بس یہ پڑے رہیں‘ میرا کیا جاتا ہے‘ یہ میرا کیا لے جاتے ہیں؟۔

آپ فیصلہ کر لیجیے آپ ان تینوں میں کون ہیں؟ اللہ کے دوست ہیں‘ اللہ کے اچھے غلام ہیں یا پھر اللہ کی منتیں کرنے والے فقیر ہیں‘ آپ جو بھی ہیں میں بس جاتے جاتے آپ کو ایک چوتھے بندے سے بھی متعارف کرانا چاہتا ہوں‘ یہ چوتھا بندہ ان تینوں کا کمبی نیشن ہوتا ہے‘ یہ ایمان داری کے ساتھ ان تھک کام کرتا ہے‘ کام کے بعد جی بھر کر اللہ کی منت کرتا ہے اور جو وقت باقی بچ جاتا ہے یہ اس میں اللہ کا دوست بن جاتا ہے‘ یہ اللہ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ وہ شخص ہے اللہ جس کی تلاش میں خود رہتا ہے‘ جس سے اللہ پوچھتا ہے ہاں بتا تیری رضا کیا ہے؟ اور مجھے بتا میں تمہیں زمینوں اور آسمانوں کے کن درجوں پر رکھوں۔ آپ اگر زندگی میں کچھ بننا چاہتے ہیں تو آپ یہ چوتھا بندہ بنیں‘ آپ جی بھر کر کام کریں‘ جی بھر کر دعائیں کریں اور دل کی آخری پرتوں تک اللہ کے دوست بن جائیں‘ اللہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت دونوں دروازے کھول دے گا‘ یہ چوتھا بندہ مرد مومن ہوتا ہے‘ یہ وہ مرد حق ہوتا ہے جس کے لیے نرگس بھی ہزار ہزار سال تک روتی رہتی ہے‘ یہ ہے اصل مرد مومن۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔