بنگال ٹائیگرز بھیگی بلی نہ بنو

سلیم خالق  اتوار 12 جنوری 2020

بعض اوقات نام یا لقب کسی شخصیت یا ٹیم سے بالکل میل نہیں کھاتے، بنگلادیش کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، اسے بنگال ٹائیگرز کہا جاتا ہے مگر اس نے سوائے چند میچز کے کم ہی اپنے آپ کو ٹائٹل کا حقدار ثابت کیا، آف دی فیلڈ بھی ایسا ہی ہے، اب وہ پاکستان جانے سے ایسے ڈر رہے ہیں جیسے کسی جنگ میں شرکت کیلیے بھیجا جا رہا ہے۔

اتنے نخرے تو آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے نہیں ہوں گے جتنے بنگلادیشی دکھا رہے ہیں، انھیں ٹائیگرز بننا چاہیے بھیگی بلی نہیں، ہمارے ملک میں اب اتنی زیادہ کرکٹ ہو گئی اورمیچز کا بہترین انداز میں انعقاد ہوا،مہمان ٹیمیں ہمیشہ سیکیورٹی و ویگر انتظامات کی تعریف کرتے ہوئے واپس گئیں، کراؤڈ کا رویہ مثالی رہا، کوئی ایک معمولی سا بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، اس کے باوجود بنگلادیش کا یہ رویہ سمجھ سے باہر ہے،وہ خود کنفیور ہیں کہ کرنا کیا چاہتے ہیں، کبھی کچھ تو اگلے روز کچھ اور بیان سامنے آ جاتا ہے۔

ایک دن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب سیریز کا انعقاد ہو جائے گا تو پھر بعد میں امکان معدوم دکھائی دینے لگتا ہے، وقت تیزی سے گذرتے جا رہا ہے، بنگلادیش نے جمعرات تک حتمی جواب سے آگاہ کرنے کا کہا تھا مگر پھر مزید وقت مانگ لیا، حکومت سے اجازت کا بھی بار بار جواز دیا جا رہا ہے، اتنے دن گذر چکے اب تک ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ مجھے تو یہ دورہ ہوتا دشوار نظر آ رہا ہے، شاید بنگلادیشی بورڈ کو ’’اوپر‘‘ سے ہدایت ملی ہے کہ تاخیری حربے استعمال کرو تاکہ تنگ آ کر خود پاکستان ہی سیریز کے حوالے سے کوئی اعلان کر دے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھی نہیں کہ بنگلادیشی حکومت پر بھارت کا کتنا زیادہ اثرورسوخ ہے جو پاکستانی میدان آباد ہونے سے آگ بگولہ ہو رہا ہوگا،اس لیے وہ اب ہمارے ملک میں کرکٹ کی واپسی کی راہ میں روڑے تو اٹکائے گا ہی،ان کا بورڈ سپورٹ اسٹاف تو کبھی کھلاڑیوں کی عدم دلچسپی کا جواز دے رہا ہے،حالانکہ کوچ رسل ڈومینگو ٹور پر جانے کا واضح اعلان کر چکے، کھلاڑی کس منہ سے انکار کر سکیں گے۔

پی ایس ایل میں ڈالر آتے دیکھ کر تو دوڑے دوڑے چلے آنے کو تیار تھے،23 بنگلادیشی کرکٹرز نے رجسٹریشن بھی کرائی تھی مگر ان میں سے کسی کو منتخب نہیں کیا گیا، آئی پی ایل میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، البتہ میں پہلے بھی کہہ چکا کہ اگر یہ سیریز نہ ہو سکی تو ہمیں بڑا نقصان ہوگا، پی سی بی کو ملک میں کرکٹ کی واپسی کا ٹاسک ملا تھا وہ واپس لے جانے لگا،اگر بنگلادیشی کھلاڑی نہیں آئے تو ہم کیسے انگلش، آسٹریلوی یا کیوی کرکٹرز سے کہیں گے کہ یہاں آؤ، وہ جواز دے سکتے ہیں کہ جب آپ کے ہمسائے ملک کی ٹیم نہیں آئی تو ہم کیوں آئیں۔

ہمارا بورڈ تاخیر سے جاگا، سی ای او کا یہ کام تھا کہ وہ اس حوالے سے بنگلادیشی حکام سے بات کرتے مگر وسیم خان چھٹیاں منانے انگلینڈ چلے گئے، پھر اپنے اسٹاف کو ای میل کر کے بی سی بی سے رابطے کی ہدایت کرتے رہے، اس غیرسنجیدگی سے معاملہ مزید بگڑا،بعد میں چیئرمین احسان مانی کو میدان میں آنا پڑا اور فون پررابطہ کر کے مختلف آپشنز پربات کی،اب پی سی بی کی جانب سے بنگلادیش کی منت سماجت ہو رہی ہے کہ ایک ٹیسٹ ہی کھیل لو، یہ بھی ہمارے وقار کے خلاف ہے،آپ دوٹوک بات کریں کہ آنے کو تیار ہیں یا نہیں، انتظار کی سولی پر لٹکے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

بدقسمتی سے عالمی کرکٹ میں ہم تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، بھارت سے ہمارے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے مگر اس کے باوجود ذکا اشرف اور شہریارخان تک کے دور میں دونوں بورڈز میں تو دوستانہ مراسم تھے،گوکہ بھارت میں انتہاپسندی بڑھنے سے بعض ناخوشگوار واقعات ہوئے مگر پھر بھی پی سی بی نے روابط بحال رکھنے کی مکمل کوشش کی، اسی طرح اب اگر ہمارے افغانستان یا بنگلادیش سے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو کم از کم کرکٹ میں کوشش تو ممکن تھی، مگر ایسا نہیں کیا گیا، ہمارا بورڈ ڈپلومیسی میں فیل دکھائی دیتا ہے۔

وسیم خان کتنے دن آسٹریلیا میں رہ کر آئے، وہ اپنے ملک انگلینڈ کے کرکٹ حکام سے بھی مثالی تعلقات کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اب پھر’’بگ فور‘‘ بن چکا جس میں ان دونوں ممالک سمیت بھارت اور جنوبی افریقہ بھی شامل ہیں، یہ چاروں ملک کر زیادہ آمدنی کیلیے مختلف آپشنز پر کام کر رہے ہیں، ہمیں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے، دوستی صرف ہاتھ ملانے یا4،5سال بعد سیریز کے خواب دکھانے کو نہیں کہا جاتا، عملی اقدامات بھی کرتے ہوتے ہیں،باقی بچے سری لنکا، نیوزی لینڈ،ویسٹ انڈیز اور زمبابوے ان میں سے صرف سری لنکنز کو ہی ہم اپنا دوست قرار دے سکتے ہیں۔

یہ صورتحال پاکستان کرکٹ کیلیے بڑی تشویشناک ہے، بھارت کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے، آج اگر اس نے بنگلادیش کو ٹور سے روک لیا تو کل کسی اور ’’دوست‘‘ ملک کو بھی مالی فوائد کی لالچ دے کر نہیں جانے دے گا،افسوس پی سی بی کے متکبراور اناپسند افسران اس بارے میں نہیں سوچ رہے، وہ خود کا دھلا ثابت کرتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ کس طرح بعض آفیشلز کی جانب سے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور جونیئرز کو بھی استعمال کیا گیا، مگر جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہومیں کسی کی ذاتی چیزوں میں نہیں پڑتا،پی سی بی کو میڈیا ڈپارٹمنٹ کو بھی سنبھالنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش میں فرائض بھی درست انداز میں نہیں انجام دیے جا رہے، ریکارڈ بجٹ کو دوسروں کی نقالی میں پھونکا جانے لگا، بنگلادیش سے سیریز کی مثال لے لیں، وہاں روز اپنے میڈیا کو بورڈ چیف اپ ڈیٹ کرتے رہے، ہمارے یہاں سوائے ’’دوستوں‘‘ کے کسی کو کچھ بتایا ہی نہیں جاتا، خیر ابھی ان کا وقت ہے انجوائے کرلیں، دیکھتے ہیں بنگلادیش سے سیریز کا کیا بنتا ہے، ہمارے لیے اس کا انعقاد بہت ضروری ہے، اس کیلیے بورڈ کو ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں، امید ہے ملک میں کرکٹ کی واپسی کے سفر کو ریورس گیئر نہیں لگے گا اور ہمارے میدان ایسے ہی آباد رہیں گے۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔