بنگلادیش کو پاکستان کے احسانات چکانے چاہئیں

پروفیسر اعجاز فاروقی  اتوار 12 جنوری 2020
بنگلادیش بے جا خوف ختم کریں اور یہاں آ کر پاکستانیوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں۔ فوٹو:فائل

بنگلادیش بے جا خوف ختم کریں اور یہاں آ کر پاکستانیوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں۔ فوٹو:فائل

ہمارے ملک میں طویل عرصے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں، ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی اس کی بیحد خوشی ہے۔

گذشتہ دنوں سری لنکا سے سیریز کا عمدگی سے انعقاد ہوااور سکیورٹی کے بہترین اقدامات کیے گئے تھے، عموماً میچ کے دن اردگرد کی سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، مگر اس بار اسٹیڈیم کے باہر مرکزی سڑک پر بھی ٹریفک رواں رہا، اس وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،اندر جانے میں بھی لوگوں کو اتنی مشکلات نہیں ہوئیں۔

سکیورٹی فول پروف رہی البتہ ساتھ میں اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ کوئی اس سے پریشان نہ ہو، جیسے جیسے ملک میں میچز کا انعقاد ہو رہا ہے اسی کے ساتھ انتظامی امور میں بھی بہتری آ رہی ہے، ہمیں کھلاڑیوں اور شائقین کو ایسا ہی ماحول فراہم کرنا ہے جس میں ان کی توجہ کا محور سکیورٹی نہیں بلکہ کرکٹ ہو، اس سے پہلے کے ٹورز میں مہمان کھلاڑیوں کو ہوٹل اور اسٹیڈیم تک ہی محدود رکھا جاتا تھا۔

دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے،ماضی میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ جو المناک واقعہ ہوا اس کے بعد ہمیں اب احتیاط کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے، اس بار مہمان کرکٹرز نے راولپنڈی کے بعد کراچی میں بھی بہترین وقت گذارا، میں نے تصاویر دیکھیں کہ کس طرح وہ شاپنگ مال میں شائقین کے ساتھ سیلفیز بنوا رہے تھے، کراچی کے مشہور مقام دو دریا کے ریسٹورنٹ میں سمندر کنارے ٹھنڈی ہواؤں میں کھانے کا سری لنکنز نے بہت زیادہ لطف اٹھایا ہو گا۔

اس ٹور سے پاکستان کا دنیا میں سافٹ امیج گیا، ملک میں مہمان ٹیموں کو فائیو اسٹار جیل میں قید رکھنے کا دشمنوں کا پروپیگنڈہ بھی دم توڑ گیا،یقینا اب دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں کو بھی یہاں آنے کی تحریک ملے گی، یہ سلسلہ اب اسی طرح جاری رہنا چاہیے، مجھے امید ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیمیں بھی پاکستان آئیں گی، البتہ ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ بنگلادیش کیوں دورے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے، ان کا سکیورٹی وفد پاکستان آیا اور اپنے بورڈ کو مثبت رپورٹ پیش کی، ویمنز اور جونیئر ٹیمیں بھی کامیاب ٹور کر کے واپس گئیں۔

ہمیں تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یقینی طور پر بنگلادیشی ٹیم یہاں آئے گی مگر اب عجیب و غریب بیانات سامنے آ رہے ہیں، صاف لگتا ہے کہ بی سی بی کنفیوژن کا شکار ہے، ایک دن کچھ تو اگلے روز کچھ اور کہا جاتا ہے، البتہ اب انکار کی ان کے پاس کوئی گنجائش نہیں، طویل ٹور کی یہ لوگ بات کرتے ہیں مگر پی ایس ایل بھی تو ایک ماہ سے زائد وقت جاری رہے گی اس کے ڈرافٹ میں کیوں 20 سے زائد بنگلادیشی کھلاڑیوں نے نام بھیجے تھے۔

میں نے اخبار میں ویسٹ انڈین اسٹار بیٹسمین کرس گیل کا بیان بھی پڑھا جنھوں نے پاکستان کو دنیا کے محفوظ ترین مقامات میں شامل کرتے ہوئے بنگلادیش کو دورے کا مشورہ دیا تھا،اتنے بڑے اسٹارز ایسی باتیں بغیر سوچے سمجھے تو نہیں کہیں گے،بی سی بی کو کوئی مثبت فیصلہ کرنا چاہیے، ہم نے ہمیشہ بنگلادیش کا ساتھ دیا، انھیں ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں بہت زیادہ مدد کی، سری لنکا پر بھی بہت احسانات کیے تھے جو انھوں نے چکا دیے۔

بنگلادیش کو بھی ایسا کرنا چاہیے، وہ بے جا خوف ختم کریں اور یہاں آ کر پاکستانیوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں، اگر دورے سے انکار کیا تو ٹیسٹ چیمپئن شپ کے قیمتی پوائنٹس سے بھی محروم ہونا پڑے گا، مگر ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے شائقین انٹرنیشنل کرکٹ نہیں دیکھ سکیں گے،مجھے امید ہے کہ اس حوالے سے ڈیڈ لاک کا جلد خاتمہ ہو جائے گا اور بنگلادیشی ٹیم سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آئے گی۔

اب کچھ پی ایس ایل کی بات کر لیتے ہیں، میں وزیر اعظم عمران خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنھوں نے اس بار مکمل ایڈیشن ملک میں ہی کرانے کا کہا، پاکستان سپر لیگ کا یو اے ای میں ہوناکبھی نہیں جچتا تھا، سکیورٹی اداروں کی انتھک محنت اور قربانیوں نے پاکستان کو اب محفوظ ملک بنا دیا ہے، اسی لیے بڑی تعداد میں غیرملکی کرکٹرز یہاں آ رہے ہیں، ایک ماہ سے زائد وقت تک شائقین مقابلے سے بھرپور کرکٹ سے لطف اندوز ہوں گے، اچھی بات یہ ہے کہ اس بار دو کے بجائے چار شہروں میں میچز کھیلے جائیں گے۔

پہلے شائقین شکوہ کرتے تھے کہ صرف لاہور اور کراچی میں ہی کرکٹ ہوتی ہے، اب اس فہرست میں راولپنڈی اور ملتان شامل ہو رہے ہیں، پھر یہ سلسلہ مزید بڑھے گا اور جہاں جہاں کرکٹ کا اچھا انفرااسٹرکچر موجود ہیں وہاں انٹرنیشنل میچز ہواکریں گے، اس سے نہ صرف شائقین کو مقابلے دیکھنے کا موقع ملے گا بلکہ کرکٹرز بھی اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں گے،میری دعا ہے کہ ملکی میدان ہمیشہ ایسے ہی آباد رہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔