پاکستان آنےکےبعد کئی بُلند پایہ ادیب اورشاعرگُم ہوگئے

اقبال خورشید  پير 3 ستمبر 2012
نصیر کوٹی کا شعری مجموعہ ’’لذتِ آزار‘‘ کے عنوان سے 82ء میں منصۂ شہود پر آیا۔   فوٹو : ایکسپریس

نصیر کوٹی کا شعری مجموعہ ’’لذتِ آزار‘‘ کے عنوان سے 82ء میں منصۂ شہود پر آیا۔ فوٹو : ایکسپریس

یہ مہذب ماحول میں آنکھ کھولنے والے ایک ایسے تخلیق کار کی کہانی ہے، جس نے بے گھری، بے قیمتی کے آلام جھیلے، پر ناسازگار حالات کے سامنے سپر نہیں ڈالی۔ ادب کو حرز جاں بنائے رکھا، لذتِ آزار کو سینے سے لگائے رکھا، اِسے ہی جینے کا سہارا اور وسیلہ بنایا۔

نصیر کوٹی کا شمار اردو کے سینئر شعرا میں ہوتا ہے۔ خالص ادبی ماحول سے اکتسابِ علم کرنے والے اِس ماہر فن کی خداداد صلاحیتوں سے استفادہ کرنے والوں کی فہرست طویل ہے۔ گوکہ وہ استاد کہلانا پسند نہیں کرتے، لیکن استادی شاگردی کا روایتی طریق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جو کوئی تربیت کی غرض سے رابطہ کرتا ہے، اُس کی راہ نمائی کرتے ہیں۔

جہاں تک اُن کی اپنی تربیت کا تعلق ہے، اُنھوں نے بہار کوٹی جیسے جید استاد سے استفادہ کیا، مگر ناقدین متفق ہیں کہ اُنھوں نے پیروی اور تقلید سے اجتناب برتا۔ اپنی الگ راہ بنائی۔ غزل اُن کا میدان ہے، البتہ ہائیکو کا بھی تجربہ کیا، اور اِس صنف کا مستقبل، جاپان کے تیز رفتار مشینی معاشرے کے باوجود، اُنھیں روشن نظر آتا ہے۔ اُن کے مطابق دنیا بھر میں قائم جاپانی سفارت خانے اِس تعلق سے مثبت خطوط پر کام کررہے ہیں۔ اردو میں بھی اِس صنف کے امکانات کا ذکر کرتے ہیں۔

نصیر کوٹی کا شعری مجموعہ ’’لذتِ آزار‘‘ کے عنوان سے 82ء میں منصۂ شہود پر آیا۔ کتاب میں احسان دانش، پروفیسر منظور حسین شور، اسلم فرخی اور دیگر کے، اُن کے فن سے متعلق تاثرات شامل تھے۔ 96ء میں اِس کا دوسرا، اضافہ شدہ ایڈیشن آیا، جس کا دیباچہ فرمان فتح پوری نے لکھا۔ ’’سیلِ تجلی‘‘ کے عنوان سے 2002 میں اُن کی نعتوں کا مجموعہ شایع ہوا۔ تازہ مجموعہ ’’لذتِ آزار‘‘ کے پہلے اور دوسرے ایڈیشنز کے انتخاب اور تازہ غزلوں پر مشتمل ہوگا۔

دھیمے لہجے، شستہ زبان میں گفت گو کرنے والے نصیر کوٹی عاجزی و انکساری کا پیکر ہیں۔ سادگی پسند انسان ہیں۔ دعووں سے اجتناب برتتے ہیں۔ ستایشی کلمات ہنس کر ٹال جاتے ہیں۔ کتابوں سے دوستی گہری ہے۔ اُنھیں بڑے اہتمام سے رکھتے ہیں۔ شیلف میں ترتیب وار لگی کتابوں کی ایک جامع فہرست بنا رکھی ہے، یوں مطلوبہ کتاب تلاش میں کرنے میں دقت پیش نہیں آتی۔

ادب شناسی اور علم دوستی کے لیے معروف قصبہ، کوٹ اُن کا آبائی وطن ہے۔ اِسی تعلق سے خود کو ’’کوٹی‘‘ لکھتے ہیں۔ کوٹ اترپردیش کے ضلعے، فتح پور ہسوہ میں واقع ہے۔ اِس قصبے، اور اِس کے مضافات میں کھوکھر پٹھان برسوں سے آباد ہیں۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں یہاں کے باسیوں نے غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ معروف شاعر اور سیاسی کارکن، راحت کوٹی کا تعلق اِسی مردم خیز علاقے سے تھا۔

اُن کا پورا نام نصیر اﷲ خاں ہے۔ اُنھوں نے ایک زمیں دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اردگرد بسنے والوں کی اکثریت زراعت کے پیشے سے نتھی تھی، البتہ اُن کے والد، سمیع اﷲ خاں محکمۂ پولیس سے وابستہ تھے۔ وہ حیدرآباد دکن کے ایس ایچ او رہے۔ چُوں کہ والد حیدرآباد میں تعینات تھے، اِس لیے بچپن میں اُن سے کم ہی ملاقات ہوتی تھی۔ مگر جب کبھی ملے، اُنھیں انتہائی شفیق پایا۔

پانچ بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ پیدایش کا ٹھیک سن تو یاد نہیں، لیکن سرکاری کاغذات میں ’’بڑوں‘‘ نے 1936 درج کروایا۔ اسکول کے زمانے میں وہ فٹ بال اور گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ بہ قول اُن کے، کرکٹ کا اُس وقت زیادہ رواج نہیں تھا۔ شرارتیں بھی خوب کیں، کھیتوں سے ککڑی اور خربوزے چُرائے۔ چُوں کہ اساتذہ کی نظروں میں آئے بغیر یہ سرگرمی انجام دی جاتی تھی، اِس لیے سزا کی نوبت شاذ شاذ ہی آتی۔ مڈل تک تعلیم کوٹ سے حاصل کی۔ اِس عرصے میں ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ بتاتے ہیں، بیش تر اساتذہ ہندو تھے، تاہم اُن کا رویہ انتہائی غیر متعصب تھا، مزاج میں شفقت کا عُنصر نمایاں تھا۔

یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں، اُن کا خاندان مسلم لیگی تھا۔ کوٹ میں چھوٹے پیمانے پر جلسے جلوس ہوا کرتے، چند میں اُنھوں نے بھی شرکت کی، لیکن کبھی سیاست سے لگائو نہیں رہا۔ آغاز کا دُور آبائی قصبے میں گزرا۔ تقسیم کے بعد خاندان نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد ریاست ’’پولیس ایکشن‘‘ کی زد میں آگئی۔ سقوط حیدرآباد کے سمے جو خون خرابا ہوا، اُس کی تلخ یادیں ذہن پر نقش ہیں۔ کچھ دن تو وہیں بیتے۔ پھر بہنوئی، شفیق کوٹی نے اُنھیں پاکستان بلوالیا۔ سنجیدہ شاعر کی حیثیت سے شناخت رکھنے والے شفیق کوٹی، سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔ ہندوستان میں وہ فوڈز ڈیپارٹمنٹ سے منسلک رہے، تقسیم کے بعد کراچی میں ذمے داریاں سنبھالیں۔
کچھ عرصے بعد نصیر کوٹی کے والدین بھی پاکستان آگئے۔

ابتدائی شب و روز شہرقائد میں گزرے۔ شفیق کوٹی کا تبادلہ لاہور ہوا، تو وہ اُنھیں ساتھ لے گئے۔ بے جڑی کے المیے سے نکلنے کے بعد نصیر صاحب دوبارہ تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے۔ پرائیویٹ میٹرک کیا۔ خواجہ دل محمد مرحوم کی سرپرستی میں شایع ہونے والے ’’تہذیب و ادب، لاہور‘‘ کے مدیر رہے۔ پرچہ سال ڈیڑھ سال چلا۔ اُس کی بندش کے بعد وہ 61ء میں کراچی لوٹ آئے۔ یہیں فاضل اردو کا امتحان دے کر انگریزی کا پرچہ دیا، اور انٹر کا مرحلہ طے کر لیا۔

کوٹ کے زمانے میں تو زمیں داری تھی، حیدرآباد دکن میں بھی مالی مسائل کی بابت سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ البتہ پاکستان آنے کے بعد معاشی معاملات کی فکر لاحق ہوئی۔ اُسی زمانے میں اسکول اساتذہ کی اسامیوں کا اعلان ہوا۔ وہ بھی انتخابی مراحل سے گزرے۔ بہ طور استاد ہائی اسکول کے لیے کوالیفائی کرتے تھے، لیکن حساب کے مضمون میں اپنی کم زوری سے واقف تھے، سو ہائی اسکول ٹریننگ کے بجائے، پرائمری کے استاد کی حیثیت سے تربیتی مراحل طے کرنے کو ترجیح دی۔

مزید پختگی کے لیے معروف ناول نگارہ اور ماہر تعلیم، وحیدہ نسیم سے حساب کا مضمون پڑھا۔ جان محمد حاجی ڈوسل کھڈا اسکول، لی مارکیٹ میں پہلی تعیناتی ہوئی۔ تن خواہ 35 روپے ماہ وار تھی۔ کہتے ہیں، چھوٹا بھائی بھی ملازم لگ گیا تھا، پھر ارزانی کا زمانہ تھا، سو کم میں بھی گزارہ ہوجاتا۔ اُسی عرصے میں اُنھوں نے نیوکراچی کا رخ کیا۔ آج وہیں مقیم ہیں۔ اُن کے تدریسی سفر کا اختتام 94ء میں ہوا، جب وہ گورنمنٹ پرائمری اسکول، سرسید ٹائون، نارتھ کراچی سے بہ طور ہیڈماسٹر ریٹائر ہوئے۔

تین عشروں سے زاید عرصے تک شعبۂ تدریس سے وابستہ رہنے والے نصیر کوٹی کے مطابق اُن کے زمانے میں، حال کی نسبت تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ چُوں کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ عام نہیں تھے، اِس لیے طلبا کی توجہ کم ہی منتشر ہوتی۔ تہذیبی و اخلاقی اعتبار سے بھی، اُن کے بہ قول آج کے اور ماضی کے طلبا میں بہت فرق ہے۔ اِس ضمن میں ایک واقعہ بھی سناتے ہیں،’’ایک صاحب مشق سخن کے لیے آتے ہیں۔ اُس روز بسوں کی ہڑتال تھی۔ وہ ناگن چورنگی سے ٹیکسی کرکے آئے۔

اتفاق سے ٹیکسی ڈرائیور میرا شاگرد تھا۔ جب اُسے پتا چلا کہ وہ مجھ سے ملنے آرہے ہیں، اُس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ جب اُنھوں نے ضد کی، تو اُس نے کہا ’آپ اِسی ٹیکسی میں بیٹھ جائیں، میں آپ کو ناگن چھوڑ دیتا ہوں، وہاں سے کوئی بھی ٹیکسی کرکے آجایے گا!‘ وہ لاجواب ہوگئے۔ جب ٹیکسی ڈرائیور سے اُس کا نام پوچھا، تو اُس نے جواب دیا، میں نے نام کے لیے یہ کام نہیں کیا۔ ایک استاد کے لیے اِس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے!‘‘
شعری سفر کی بات کی جائے، تو ذوق و ذہن کی تربیت کے لیے روز اول ہی سے علم دوست ماحول میسر رہا۔

بچپن، لڑکپن اور جوانی تک اُن کے خاندان اور قصبے میں درجنوں ایسے شعرا تھے، جن کی صحبت نے نصیر کوٹی کے ذوق شعر گوئی کو مہمیز کیا۔ اور پھر یہ اندرون کا بھی معاملہ تھا کہ اُن کے نزدیک تخلیقی صلاحیت عطیۂ خداوندی ہے، انسان خود سے یہ قابلیت پیدا نہیں کرسکتا کہ یہ بہ درجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ ’’اگر اندر سے تحریک نہیں ملتی، تو چاہے آپ کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں، شعر و ادب کی جانب متوجہ نہیں ہوں گے!‘‘
اپنے شوق و ذوق کی بابت کہتے ہیں کہ آغاز ہی میں اُنھوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ فکری رجحان شاعری، خصوصاً غزل کی جانب ہے۔ اُن کے مطابق اگر انسان میں خودشناسی کا جذبہ نہ ہو، تو وہ بھٹکتا رہتا ہے۔

’’اگر ایک وقت میں آپ کئی راستے اختیار کرتے ہیں، تو نہ اِدھر کے رہتے ہیں، نہ اُدھر کے رہتے ہیں۔ جب یہ ادراک ہو جائے کہ قدرت نے آپ کے لیے کون سے راستہ چُنا ہے، تو اُسی پر چلنے میں عافیت ہے۔‘‘ 44-45 میں وہ شعر کہنے لگے تھے۔ چُوں کہ استفادے کی اہمیت کے معترف تھے، اِس لیے استاد کرنا لازم تھا۔ خوش قسمتی سے معروف شاعر اور استاد، بہار کوٹی کی سرپرستی میسر آگئی، جس نے اُن کی صلاحیتوں کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ کوٹ کے زمانے میں نصیر صاحب کی بہار کوٹی سے ایک آدھ ہی ملاقات ہوئی کہ پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سبب اُن کا زیادہ وقت اجمیر میں گزرتا تھا۔ اُس عرصے میں استاد اور شاگرد کے درمیان خط وکتابت کے ذریعے رابطہ رہا۔

ابتدائی برسوں میں ڈاک سے اصلاح لیتے رہے۔ چُوں کہ تقسیم کے بعد بہار صاحب بھی کراچی آگئے تھے، سو یہاں نصیر کوٹی نے براہ راست استاد سے استفادہ کیا۔ یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، بہار کوٹی صاحب انتہائی شفیق اور بامروت انسان تھے، وہ شاگرد کی صلاحیت دیکھتے ہوئے اُس کی تربیت کرتے۔ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ بہار کوٹی کے ایسے کئی شاگرد ہیں، جنھوں نے تخلیقی عمل کے دوران فن کے تقاضے پیش نظر رکھے، شعری میدان میں نام پیدا کیا۔

مشق سخن کا آغاز تو کوٹ ہی میں کر دیا تھا، حیدرآباد جانے کے بعد اِس سلسلے میں تیزی آئی۔ مشاعرے بھی پڑھے۔ وہاں سے نکلنے والے جراید ’’راہ بر دکن‘‘ اور ’’عظمت‘‘ میں اُن کا کلام شایع ہوا۔ پاکستان آنے کے بعد معاشی مسائل اور بے گھری کا کرب شعر و ادب سے دُور نہیں کر سکا۔ اُن کی غزلیں ’’افکار‘‘، ’’نگار‘‘، ’’فاران‘‘ کے علاوہ خواتین کے پرچوں ’’زیب النساء‘‘، ’’حرم‘‘ اور ’’نورونار‘‘ میں چھپتی رہیں۔ مشاعرے بھی پڑھتے رہے۔
بہار کوٹی کا انتقال زندگی کا ایک کرب ناک لمحہ تھا۔ یہ سانحہ 71ء میں پیش آیا، اُن کی تدفین پاپوش نگر کے قبرستان میں ہوئی۔

اپنے استاد کی بابت کہتے ہیں،’’المیہ یہ ہے کہ پاکستان آنے کے بعد کئی بلند پایہ ادیب اور شاعر گُم ہوگئے۔ سیماب اکبر آبادی، آرزو لکھنوی، پروفیسر منظور حسین شور سمیت ایسی کئی علمی و ادبی شخصیات تھیں، جن کا آج کوئی نام بھی نہیں جانتا۔ ہندوستان میں بہار کوٹی صاحب کی شہرت کا عالم یہ تھا کہ ہر بڑے ادبی پرچے میں اُن کا کلام شایع ہوتا، حکومتی سطح پر ہونے والے تمام مشاعروں میں اُنھیں مدعو کیا جاتا۔ البتہ یہاں آنے کے بعد صورت حال یک سر بدل گئی۔‘‘ بہار کوٹی کا ایک ہی مجموعہ ’’ذات و کائنات‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا۔

نصیر صاحب کے بہ قول،’’یہاں آنے کے بعد وہ دال روٹی اور بچوں کی پرورش کے معاملات میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اِس جانب توجہ نہیں دے سکے، بس اپنے تلامذہ ہی کا کلام سنوارنے میں لگے رہے۔‘‘ نصیرکوٹی کے مطابق ذرایع ابلاغ تک رسائی کے لیے جوڑ توڑ بہت ضروری ہے کہ اِس کے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ’’جوڑ توڑ کرنا اُنھیں گوارا نہیں تھا۔ یہی معاملہ اُن کے شاگرد کی حیثیت سے میرا ہے۔‘‘

نصیر کوٹی کے بہ قول، تقسیم سے قبل اردو کی ترویج میں پنجاب نے کلیدی کردار ادا کیا، لیکن اب وہاں ماضی جیسی رفتار نہیں رہی۔ اہل زبان کے کردار کو سراہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک یہی بنیاد رکھنے والے تھے، جس پر عمارت کھڑی ہوئی۔ اُن کے خیال میں آج بیرون ملک، خصوصاً امریکا میں اردو شاعری کے میدان میں زیادہ کام ہورہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی شاعری میں اُنھیں جمود نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں ہونے والے مشاعروں میں ترنم میں شعر پڑھنے کے بڑھتے رجحان سے مطمئن نہیں۔ کہتے ہیں، جن کا ترنم اچھا ہوتا ہے، وہ غزلیں کسی اور سے لکھوا کر پڑھ دیتے ہیں۔ وہ اردو شاعری میں ہونے والے پے درپے تجربات کو ریاضت سے فرار کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ اِس ضمن میں نثری نظم اور آزاد غزل کے تجربے کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔

اُن کے مطابق ایک حساس شاعر کے لیے خوشی کا لمحہ تلاش کرنا مشکل کام ہے۔ اہلیہ کی وفات کو زندگی کا سب سے کرب ناک لمحہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سانحہ دو برس قبل پیش آیا۔ بہار کوٹی کے انتقال سے بھی دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں۔

نصیر صاحب عام طور سے کرتے پاجامے میں نظر آتے ہیں۔ جب تک دانت سلامت تھے، گوشت سے رغبت تھی، اب دال پر گزارہ کرتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ اقبال اور جوش پسندیدہ شاعر ہیں۔ ترقی پسند شعرا میں شکیب جلالی کا نام لیتے ہیں۔ سلیم احمد، تابش دہلوی، محشر بدایونی بھی اچھے لگے۔ نیاز فتح پوری کو اردو کا بہترین نثر نگار تصور کرتے ہیں۔ موجودہ عہد میں فرمان فتح پوری کی نثری گرفت کے معترف ہیں۔ فکشن نگاروں میں نسیم حجازی کا نام لیتے ہیں۔ سیماب اکبر آبادی کی ’’راز عروض‘‘ پسندیدہ کتاب ہے۔ گائیکی کی بات ہو، تو نورجہاں اور مہدی حسن کی آواز اچھی لگی۔

فلمیں کم ہی دیکھیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ صحت کے مسائل پریشان ضرور رکھتے ہیں، لیکن وہ اُنھیں پیرانہ سالی کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ شادی کا سن یادداشت میں نہیں۔ بہ قول اُن کے، لگ بھگ چالیس برس قبل یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ خدا نے اُنھیں دو بیٹوں سے نوازا۔ شفق والد ہیں۔ دونوں ہی صاحب زادوں نے ان کے نقوش پا کا تعاقب کرتے ہوئے تدریس کا پیشہ اپنایا، البتہ اُن کے مانند شعروادب سے وابستہ نہیں ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔