امید و نا امیدی

خرم علی راؤ  اتوار 12 جنوری 2020

پہلے امید کے حوالے سے ایک مشہور یونانی دیو مالائی روایت دیکھیں، یونانی مائتھالوجی کے مطابق کہتے ہیں کہ جب آسمانی دیوتاؤں نے سزا کے طور پر پینڈورا نامی دیوی کو کسی خطا کی پاداش میں آسمانی دنیا سے زمین پر بھیجا تھا تو ایک باکس بھی اسے کبھی نہ کھولنے کی تاکید سے دیا تھا ، جسے ’’ پینڈورا باکس ‘‘ کہا گیا اور اس وقت کی دنیا بلاؤں اور دکھوں سے پاک بس خوشیوں اور نعمتوں کا گہوارہ تھی۔ پینڈورا نے زمین پر آکر وہ باکس کسی وجہ سے کھول دیا تو اس میں سے بیماریاں ، دکھ ، بلائیں اور مصائب نکل پڑے جوکہ اب تک روبہ عمل ہیں لیکن ان سب المیوں کے ساتھ اسی پینڈورا کے باکس سے ایک ایسی چیز نکلی جو انسانوں کے لیے ایک بے مثال تحفہ تھی اور ہے اور وہ تھی امید۔

آج کل وطن عزیز میں اک عجیب سا عالم ہے ، ایک کشمکش ہے ، ایک جنگ برپا ہے امید و نا امیدی کے درمیان۔ کبھی لگتا ہے کہ اب بہتری آتی چلی جائے گی۔ بہت ساری چیزیں بظاہر درست ہوتی نظر آرہی ہے ۔ بہت سارے اقدامات کا زور و شور سے اعلان بھی کیا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ عمل بھی ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی پاکستان کے حوالے سے امید افزا اعلان سامنے آ رہے ہیں جیسے کہ ایک غیر ملکی جریدے میں 2020 کے لیے پاکستان کو بہترین سیاحتی ملک قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ سی این ٹریولر نامی ایک غیر ملکی جریدے نے پاکستان کو 2020 کا بہترین سیاحتی مقام قرار دیا ہے۔ سی این ٹریولر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سر سبز میدانوں کے دامن میں پہاڑی سلسلے ہیں اور سیاحوں کو یہاں کا رخ ضرور کرنا چاہیے۔

کشمیر کا مسئلہ ستر برس سے اقوام متحدہ کی فائلوں میں دبا ہوا تھا اور عالمی سرد مہری کا شکار تھا۔ اس مسئلے کا بڑی سرگرمی سے دوبارہ جیسے زندہ ہو جانا اور عالمی توجہ حاصل کر لینا ، جیسے کہ اندرونی طور پر پاکستان کے حالات میں بہتری آنے کا مژدہ بار بار سنائی دینا ، جیسے کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو جانے کی نوید ، جیسے کہ بی آئی ایس پی پروگرام سے ثانیہ نشتر جوکہ سردار عبدالرب نشترکے معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہیں کی کوششوں سے تقریبا آٹھ لاکھ سے زیادہ ایسے افراد کا اخراج ہونا جو بڑے دھڑلے سے سن 2011 سے اس پروگرام سے وہ فوائد حاصل کر رہے تھے۔

بنیادی طور پر غریب غربا ، مساکین اور مستحقین کا اس پروگرام کے تحت حق بنتا ہے اور کہا یہ گیا ہے کہ ان میں اعلیٰ گریڈز کے سرکاری افسران بھی شامل ہیں ، قابل تحسین بات ہے کہ یہ قدم اٹھایا گیا لیکن اگر یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ ایسے غریبوں اور مستحقین کا حق کھانے والے سرکاری افسران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی بھی ہوئی کہ نہیں تو ذرا مزید تشفی ہو جاتی اور اس تشہیر سے مستقبل میں ایسی دیدہ دلیری دکھانے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو جاتی۔

پر امید علامات میں اور بھی کئی سرکاری اقدامات اور اعلانات ہیں جن سے عوام الناس جن کا ویسے تو ستیاناس تقریبا ہو ہی چکا ہے، میڈیا کے ذریعے سے آگاہ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ بار بار ایک خوش کن مستقبل کے خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ چلو اپنی تو جیسے تیسے گزر ہی گئی لیکن آیندہ آنے والی نسلیں شاید ایک زیادہ بہتر ، خوشحال اور امکانات سے بھرپور پاکستان دیکھیں جہاں ہر شعبے میں میرٹ کی حکمرانی ہو اور ریاست واقعتا غریب ، پسے ہوئے اور محروم طبقات کے لیے ماں جیسا کردار ادا کرنے میں مزید مخلصانہ کارگردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ تو وہی امید موجودہ ملکی صورتحال میں بھی اپنے دھنک رنگ لیے جلوہ نما ہے اور تسلی سی ہوتی ہے کہ سب اچھا ہونے والا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی باتیں ، حالات اور واقعات ایسے بھی رونما ہو رہے ہیں جو نا امیدی کو ہوا دے رہے ہیں ، مایوسی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں اور لوگوں کی امیدوں کو توڑ رہے ہیں۔ مثلا اخبارات میں چھپنے والی وہ خبریں جن میں لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر نہ صرف خود کشی کر رہے ہیں بلکہ اپنے پیاروں اپنی اولادوں کو بھی ساتھ ساتھ زہر پلا کر مار رہے ہیں۔

مثلا ابھی چند دن پہلے کراچی میں گدھا گاڑی چلانے والا علی حسن جس کی جیب سے وزیر اعظم کے نام دو اپیل نما درد ناک خط بھی ملے ہیں اس کا بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنا ، بلاشبہ یہ ایک ایسا ہولناک انسانی المیہ ہے کہ جس پر جتنا بھی دکھ اور تاسف ظاہرکیا جائے کم ہے، کراچی میں ، لاہور میں ، پشاور اورکوئٹہ میں تو ایسے واقعات بڑے شہر ہونے کی وجہ سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹ بھی ہو جاتے ہیں اور توجہ بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن دور دراز کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کے جہنم میں جلتے لوگ کس کس طرح اپنی جانے دے رہے ہیں کیسے ایک ماں اپنے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ مار کر اپنے تئیں دنیا کے دکھوں سے خود کو نجات دلا رہی ہے۔

اس کا علم صرف سوشل میڈیا کی پوسٹوں یا سینہ گزٹ سے ہی تھوڑا بہت ہو پاتا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری جو موجودہ حکومت کے وزرا کی غیر سنجیدہ کارکردگی کی وجہ سے بلاشبہ ہولناک شکل اختیار کرتے جا رہی ہیں، کے ساتھ ساتھ ایک بے حسی کا عمومی رویہ اور ایک عوامی مسائل سے زبانی نہیں عملی طور پر لاتعلقی سی محسوس ہونے کا رویہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ ادھر کرپشن نے سرکاری محکموں کا بھٹہ ہی بھٹا دیا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ بیشتر سرکاری اداروں میں الا ماشا اللہ چپراسی سے لے کر ادارے کے سربراہ تک سب ہی حصہ بقدر جثہ کے مصداق سرکاری خزانے کو کس کس طرح اور کس کس سطح پر نقصان پہنچا رہے ہیں، ایسی خبریں بھی نا امیدی کے بادلوں کو اور گہرا کر دیتی ہیں جیسے کہ سابق وفاقی وزیر اور ماہر معیشت زبیر خان نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ ایک نیا کام ہوا ہے کہ کچھ سرمایہ داروں نے تقریبا ایک ارب ڈالر پاکستان میں رکھوایا ہوا ہے جس پر انھیں بارہ سے تیرہ فیصد تک پرافٹ یا سود ادا کیا جارہا ہے ۔

یعنی ان سرمایہ داروں یا کمپنیوں نے امریکا میں مروجہ پونے دو یا دو فیصد کی شرح سے ایک ارب ڈالر وہاں کہیں سے اٹھایا ہے اور پاکستان میں رکھ کر گھر بیٹھے اس پر نو یا دس فیصد منافع لے رہی ہیں اور جب کبھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو پاکستان کی گردن دبوچنا ہوگی تو وہ کمپنیاں فورا اس ایک ارب ڈالر کو نکال لیں گی جس سے ڈالر کی قیمت پھر چڑھے گی۔ اب اگر یہ سب سچ ہے تو یہ ایک بین الاقوامی مالیاتی کھیل جسے اگر فراڈ سے تعبیر کیا جائے تو کہنا غلط نہیں ہوگا قومی خزانے کو کتنا نقصان دے رہا ہوگا یہ سب سامنے کی بات ہے لیکن متعلقہ ادارے اور وزارتیں شاید میٹھی نیند سو رہی ہیں۔

اور بھی ایسے بے شمار واقعات و اقدامات ہیں جو نا امیدی کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں اور یوں محسوس ہورہا ہے سوائے لفاظی اور خوش آیند اعلانات کے حکومت کچھ بھی نہیں کر رہی ہے یا کر نہیں پا رہی ہے۔ تو امید افزاء اقدامات سے پیدا ہونے والی اطمینان بخش کیفیات اور نا امید کر دینے والی خبروں سے امڈنے والی نا امیدی کی جنگ فی الوقت اپنے عروج پر ہے اور اگر اس جنگ میں امید کو خاکم بدہن اگر شکست ہوگئی تو پھر اس کے اثرات کتنے خوفناک ہوسکتے ہیں وہ ہر سلیم العقل سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے جیسا کہ کہا جا رہا ہے اور اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ رواں سال نچلے اور غریب طبقے کی فلاح و بہبود کا سال ہوگا تو اشد ضرورت اس امرکی ہے کہ ان اعلانات کا عملی اطلاق فوری طور پر غریب و پریشان حال عوام کو اب نظر آنا شروع ہوجانا چاہیے۔ بقول غالب

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔