پاک چین دوسرا آزادانہ تجارتی معاہدہ مفید ثابت ہوگا؟

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 13 جنوری 2020
ایف ٹی ایز کو مفید بنانے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے
 (فوٹو: فائل)

ایف ٹی ایز کو مفید بنانے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے (فوٹو: فائل)

 اسلام آباد:  پاکستان اور چین  نے آزادانہ تجارت کے معاہدے( ایف ٹی اے) کے  فیز ٹو پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد یکم جنوری 2020 سے اس کا اطلاق ہوگیا ہے۔

فیز ون  15 سال قبل آپریشنل ہوا تھا۔ چین، امریکا کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی برآمداتی منڈی ہے۔ پاکستان  8 فیصد برآمدات چین کو اور17 فیصد امریکا کو کرتا ہے۔ چین کو پاکستانی برآمدات صرف  چند اجناس مثلاً کپاس اور چاول تک محدود ہیں۔ ان اجناس کا برآمدات میں حصہ 75 فیصد ہے۔ پاکستان سب  سے زیادہ 29 فیصد برآمدات بھی چین سے کرتا ہے۔  ایف ٹی اے کے بعد دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم 2005 میں 2.2  ارب ڈالر سے بڑھ کر 2019 میں 15.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

چین کو پاکستانی کی برآمدات 2006-07 میں 575  ملین ڈالر سے بڑھ کر 2017-18 میں 1.74  ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔  دونوں ممالک کے درمیان  دو طرفہ تجارتی توازن چین کے حق میں ہے  کیوں کہ چین کو پاکستانی کی برآمدات کم اور وہاں سے درآمدات زیادہ ہیں۔  مالی سال 2018-19  میں  چین  کے ساتھ تجارتی  خسارہ کم ہوکر 10.89 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا جو پاکستان کے مجموعی تجارتی خسارے کا 34.22 فیصد ہے۔  مشیر تجارت اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد کے مطابق رواں سال ایف ٹی اے ٹو سے برآمداتی حجم میں 500 ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔