- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
یہ اسکول میں پڑھنے والی لڑکی نہیں، 42 سالہ آدمی ہے!
ٹوکیو: یادش بخیر، ابنِ انشاء مرحوم نے ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ میں چینیوں کے عمر چور ہونے کے بارے میں لکھا تھا کہ اچھے خاصے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود، چین کے بزرگ بھی اپنی اصل عمر کے مقابلے میں بہت چھوٹے، بلکہ نوجوان نظر آتے ہیں۔ جاپان سے آنے والی یہ خبر دیکھ کر ہمیں بے اختیار انشاء جی مرحوم کے ساتھ ساتھ ڈسٹن ہوفمین کی ’’ٹوٹسی‘‘ اور معین اختر مرحوم کا ’’روزی‘‘ بھی یاد آگئے۔
اگر آپ صرف اس خبر کے ساتھ دی گئی تصویر کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے تو یہی سمجھیں گے کہ یہ اسکول میں پڑھنے والی کوئی چھوٹی سی بچی ہے۔ لیکن آپ غلط ہیں!
دراصل یہ 42 سالہ ’’شادی شدہ‘‘ جاپانی ’’صاحب‘‘ ہیں جو خود کو ’’تانی تاکوما‘‘ کہلواتے ہیں۔ یہ صاحب 1977ء میں پیدا ہوئے اور شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اداکاری، صداکاری، گلوکاری اور موسیقی کے میدان میں آگئے۔ البتہ جب وہ 34 سال کے ہوئے تو انہوں نے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا: باقی کی تمام زندگی کےلیے ایک کمسن لڑکی کا روپ دھار لیا جائے۔
تب سے لے کر آج تک چاہے وہ کسی اشتہار میں کام کریں، کسی اسٹیج ڈرامے میں پرفارم کریں، کسی فلم میں جلوہ گر ہوں یا پھر سازندوں کی قطار میں بیٹھ کر کوئی دھن ہی کیوں نہ بجائیں، وہ ہمیشہ اسکول میں پڑھنے والی ایک کمسن لڑکی کے بھیس میں رہتے ہیں۔
اپنی اصل عمر سے کہیں کم اور مرد کے بجائے لڑکی نظر آنے کا انہیں بہت فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ڈراموں اور اشتہارات میں انہیں بڑی آسانی سے (صرف اپنے ظاہری خدوخال کی بنیاد پر) کام مل جاتا ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگوں پر ان کی اصلیت کھل چکی ہے لیکن حقیقی زندگی میں وہ کمسن لڑکی کا کردار اس خوبی سے نباہ رہے ہیں کہ لوگوں نے انہیں ’’کمسن اور باصلاحیت جاپانی لڑکی‘‘ کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔