کریلے میں کینسر کو روکنے والے طاقت ور اجزا کی موجودگی ثابت

ویب ڈیسک  پير 13 جنوری 2020
کریلے کے اجزا کو کشید کرکے چوہوں پر آزمایا گیا تو ان میں سرطان کا پھیلاؤ سست پڑا اور رسولیوں کی افزائش بہت کم ہوگئی (فوٹو: فائل)

کریلے کے اجزا کو کشید کرکے چوہوں پر آزمایا گیا تو ان میں سرطان کا پھیلاؤ سست پڑا اور رسولیوں کی افزائش بہت کم ہوگئی (فوٹو: فائل)

میسوری، امریکہ: کریلا کئی سوسال قبل چین سے پاکستان اور بھارت پہنچا اور اب بھی اسے بطور سبزی یا گوشت میں ملا کر کھایا جاتا ہے، کریلے کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس میں سرطان کو روکنے والے طاقتور اجزا موجود ہیں۔

آیو ویدرک اور طبِ یونانی میں کریلے کو ذیابیطس سمیت کئی ادویات کے علاج میں برسوں سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اب میسوری کی سینٹ لوئی یونیورسٹی کی پروفیسر رتنا رے اور ان کے ساتھیوں نے کریلے کے مفردات (ایکسٹریکٹس) کشید کرکے انہیں کینسر کے مریض چوہوں پر آزمایا تو ان میں سرطان کا پھیلاؤ سست پڑا اور رسولیوں کی افزائش بھی بہت کم ہوگئی۔

اس طرح کڑوے کریلے کا ایک طبی فائدہ سامنے آیا ہے جو کینسر کے علاج میں مدد دے سکتا ہے۔ اس کے بعد پروفیسر رتنا  نے چھاتی، پروسٹیٹ، سر اور گردن کے کینسر کے خلیات حاصل کیے اور ان میں کریلے کے اجزا شامل کیے تو سرطانی خلیات کی تقسیم بند ہوگئی اور سرطان کا پھیلاؤ بہت حد تک رک گیا۔

چوہوں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ کریلا زبان کے کینسر کے معالجے میں بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگراس تحقیق اور کریلے کے اجزا کی پوری کارکردگی سمجھ میں آجاتی ہے تو اس سے بہتر علاج کی راہ ہموار ہوگی۔

ہم جانتے ہیں کہ سادہ شکر اور چکنائی کے سالمات کینسر کے مقام پر جا کر سرطان کو مزید بڑھاتے ہیں۔ کریلے کےاجزا ان دونوں کا راستہ روکتے ہیں اور اس طرح سرطانی خلیات کم ہوجاتے ہیں اور بعض خلیات کو مرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

پروفیسر رتنا کے مطابق جب کریلے کو مختلف جانوروں پر آزمایا گیا تو سرطانی رسولیوں کی جسامت میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اب اگلے مرحلے میں کریلے کے یہ اجزا انسانوں پر آزمائے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔