- درجہ بندی کرنے کرنے کیلئے یوٹیوبر نے تمام امریکی ایئرلائنز کا سفر کرڈالا
- امریکی طبی اداروں میں نسلی امتیازی سلوک عام ہوتا جارہا ہے، رپورٹ
- عمران خان کا چیف جسٹس کو خط ، پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا مطالبہ
- پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی، شوہر کو تین ماہ قید کا حکم
- پشاور میں معمولی تکرار پر ایلیٹ فورس کا سب انسپکٹر قتل
- پنجاب میں 52 غیر رجسٹرڈ شیلٹر ہومز موجود، یتیم بچوں کا مستقبل سوالیہ نشان
- مودی کی انتخابی مہم کو دھچکا، ایلون مسک کا دورہ بھارت ملتوی
- بلوچستان کابینہ نے سرکاری سطح پر گندم خریداری کی منظوری دیدی
- ہتھیار کنٹرول کے دعویدارخود کئی ممالک کو ملٹری ٹیکنالوجی فراہمی میں استثنا دے چکے ہیں، پاکستان
- بشریٰ بی بی کا عدالتی حکم پر شفا انٹرنیشنل اسپتال میں طبی معائنہ
- ویمن ون ڈے سیریز؛ پاک ویسٹ انڈیز ٹیموں کا کراچی میں ٹریننگ سیشن
- محکمہ صحت پختونخوا نے بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کی اجازت مانگ لی
- پختونخوا میں طوفانی بارشوں سے ہلاکتیں 48 ہوگئیں، 70 زخمی
- امریکا کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں، وزیر خارجہ
- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
بیکٹیریا کو’کچل کر‘ مارنے والے مقناطیسی ذرات
سڈنی: بیکٹیریا اور جراثیم انسانیت کے لیے بڑے ہلاکت خیز خطرات بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا ادویاتی اسلحہ خانہ ان کے سامنے بے اثر ہوچکا ہے اور تگڑے ہوتے ہوئے بیکٹیریا کے سامنے نئی اینٹی بایوٹکس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے لیکن نئی اینٹی بایوٹکس کی تیاری کے لیے بہت وقت، سرمایہ اور محنت درکار ہے۔
آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے حقیقت میں بیکٹیریا پر حملہ کرکے انہیں چیرپھاڑ کرنے پر تحقیق کی ہے۔ اس کے لیے سائنس دانوں نے مقناطیسی اور دھاتی مائع کے نینو ذرات (پارٹیکلز) بنائے ہیں۔ جب ایسے ذرات کو ہلکے مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو مائع دھات کے نینو قطرے اپنی شکل بدل لیتے ہیں اور ان کی کنارے نوک دار ہوجاتے ہیں۔ اب یہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ کسی نیزے کی طرح بیکٹیریا میں پیوست ہوکر اسے پنکچر کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔
تجربہ گاہ میں اسے بیکٹیریا کے باریک چادر (بایو فلم) پرآزمایا گیا تو صرف 90 منٹ میں ذرات نے اسے تباہ کرکے 99 فیصد بیکٹیریا کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس سے تمام اقسام کے بیکٹیریا مرگئے اور انسانی خلیات (سیلز) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
تحقیق کے مرکزی مصنف آرون ایلبورن کہتے ہیں کہ بیکٹیریا کیمیائی عمل کے سامنے مضبوط ہورہے ہیں اور ان پر حملہ کرکے مارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔
سائنس دان آرون نے کہا کہ ’ہم نےمائع دھاتوں کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ بیکٹیریا کی بایوفلم کو پھاڑ کر انہیں مزید بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اگر اس میں مزید کامیابی ملتی ہے تو اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت کی باتیں قصہ پارینہ ہوجائیں گی‘۔
اس تکنیک کو اسپرے میں بدل کر طبی پیوند اور آلات کو بیکٹیریا سے محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ کامیابی کی صورت میں فنگل انفیکشن، بدن سے کولیسٹرول کاٹنے اور خود کینسر کے خاتمے میں کامیابی مل سکے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔