میاں محمد بخشؒ کی یاد میں (حصہ اول)

شکیل فاروقی  منگل 14 جنوری 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

زبان انسانوں کے مابین ابلاغ کا وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنی بات ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔گویا زبان رابطے کی وہ کڑی ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ جوڑتی ہے۔ لہٰذا دنیا بھرکی تمام زبانیں پل کا درجہ رکھتی ہیں، لیکن افسوس کہ ہم نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگا کر ان پلوں (bridges) کو رکاوٹوں (barriers) میں تبدیل کر دیا ہے۔

لسانی تنازعات ہماری اسی کج نظری اور کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہماری دنیا مختلف زبانوں کی صورت میں مہکتے ہوئے خوش نما گلہائے رنگا رنگ سے سجا ہوا ایک حسین گلدستہ ہے جس کے ہر پھول کی خوشبو سے یہ جہان جنت نشان مہک رہا ہے۔

ترجمہ ایک زبان کے مفہوم کو دوسری زبان کے سانچے میں ڈھال کر ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل کرنے کے فن یا ہنر کا نام ہے۔ اچھا ترجمہ وہ ہے کہ جو با محاورہ ہو اور مکھی پر مکھی مارنے کے مترادف نہ ہو۔ چنانچہ اچھے مترجم کے لیے ضروری ہے کہ اسے دونوں زبانوں پر پورا اور یکساں عبور حاصل ہو۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں سارا مزہ کرکرا ہو جانے کا خدشہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس اعتبار سے نظم کا ترجمہ کرنا زیادہ مشکل کام ہے۔ یہ امر نہایت خوش آیند ہے کہ آج کل غیر ملکی اور علاقائی زبانوں کے ترجمے منظر عام پر آ رہے ہیں اور خوب پسند کیے جا رہے ہیں۔

’’شرح کلام میاں محمد بخشؒ، سیف الملوک و بدی الجمال‘‘ قابل ذکر ہے جسے ابو الکاشف قادری نے پنجابی زبان سے اردو کے سانچے میں نہایت خوش اسلوبی اور کمال مہارت سے ڈھالا ہے۔ تحقیق و تدوین کا فریضہ محمد عثمان ماہی نے انجام دیا ہے اور اس خوبصورت کتاب کے ناشر ہیں ’’مشتاق بک کارنر‘‘ الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور۔

میاں محمد بخشؒ کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آپ پنجابی زبان کی شہرہ آفاق مثنوی ’’سفرالعشق‘‘ المعروف بہ ’’سیف الملوک‘‘ کے خالق ہیں جس کا موازنہ ملک محمد جائسی نامی ہندی زبان کے نابغہ روزگار درویش سخنور کی اثر انگیز ہندی مثنوی ’’پد ماوت ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ دونوں درویشوں کے قلوب عشق حقیقی سے سرشار اور معمور تھے اور دونوں ہی اصحاب کا مقصد حیات دین اسلام کو عوام تک پہنچانا اور غیر مسلموں کو عشقیہ داستانوں کی کشش کے ذریعے دائرہ اسلام میں لانا تھا۔ میاں محمد بخشؒ نے ’’سیف الملوک وبدیع الجمال‘‘ جب کہ ملک محمد جائسی نے ’’پد ماوتی ‘‘ کی عشقیہ داستان کو موضوع کلام بنایا ہے۔

میاں محمد بخشؒ کے والد ماجد حضرت میاں شمس الدینؒ بھی بلند پایہ بزرگ تھے۔ ان کے اپنے ہی شعر کے مطابق ان کی پیدائش چک ٹھاکرا نامی گاؤں میں پوٹھوہار کی ناہموار گھاٹیوں میں ہوئی جب کہ سن پیدائش 1830 ہے۔

میاں محمد بخشؒ نے تمام عمر تجرد کی زندگی گزاری اور اپنے آبا و اجداد کے ورثے سے دست بردار ہوکر دنیا داری سے بے نیازی اور کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں والی کہاوت آپ پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ چنانچہ جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو خلیفہ صاحبزادہ عبدالحکیم کی خدمت میں حاضری کے لیے لے کر گئیں تو اس درویش نے آپ کو ایک نظر دیکھ کر ہی آپ کی روحانیت کو تاڑ لیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس ہونہار بچے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے کیونکہ یہ بچہ بڑا ہوکر ایک جہان کو روشن کرے گا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف چھ سال کی تھی۔ صاحب نظر کی یہ پیش گوئی صد فیصد درست ثابت ہوئی۔ آپ کو سہوالی شریف میں حافظ محمد علی صاحب کی درس گاہ میں تعلیم و تربیت کے لیے داخل کرا دیا گیا جہاں سے آپ نے درجہ کمال حاصل کیا۔

ظاہری علوم سے فراغت کے بعد آپؒ کو باطنی علوم کی پیاس ستانے لگی تو آپ اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر ولی کامل کی تلاش میں نکل پڑے۔ دوران سفر آپ نے روزے رکھے، چلے کاٹے اور ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہے اور بے شمار ولیوں اور صوفیوں کی کفش برداری اور خدمت گزاری کی۔

بالآخر پیر سائیں غلام محمد کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا۔ بیعت کے فوراً بعد اپنے مرشد کے حکم پر آپ نے اپنے کندھے پر کمبل ڈالا اور پیدل سفر کشمیر پر روانہ ہوکر سری نگر کی راہ لی۔ ان دنوں سری نگر کا راستہ بڑا کٹھن اور دشوار تھا۔ مگر آپ راستے کی تمام صعوبتوں کا مردانگی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں بالآخر سری نگر پہنچ گئے جہاں آپ کو شیخ احمد ولیؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جس کے بعد شیخ کامل نے آپؒ کو دستار ولایت عطا کی۔

آپ کے والد کا وصال 1263 میں ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر 15 سال تھی۔ چار سال تک آپ اپنے والد صاحب کے کمرے میں ہی مقیم رہے اور 19 سال کی عمر میں آپ اس رہائش کو خیرباد کہہ کر احاطہ دربار میں مقیم ہوگئے جہاں آپ نے گھاس پھونس کا ایک چھپرا ڈال کر رہائش اختیار کر لی۔ ایک مرتبہ جنگل میں گھومنے پھرنے کے دوران آپ کی ملاقات ایک نورانی بزرگ سے ہوئی جنھوں نے ایک جڑی بوٹی توڑ کر آپ کی جانب بڑھاتے ہوئے فرمایا: ’’تم چاہو تو تمہارے ہاتھوں اس جڑی بوٹی سے سونا بنوا دوں۔‘‘

جواب میں میاں محمد بخش نے نہایت بے نیازی سے فرمایا ’’حضرت مجھے تو آپ وہ ترکیب بتائیں جس سے میرا قلب سونے سے بھی زیادہ چمک اٹھے۔‘‘ اس جواب کو سن کر وہ بزرگ خوب ہنسے اور پھر رخصت ہوگئے۔ یہ گویا آپ کا ایک امتحان تھا جس میں آپؒ کامیاب قرار پائے۔

جنگلوں اور ویرانوں میں مراقبے، چلہ کشی اور عبادت گزاری حضرت میاں محمد بخشؒ کا روزانہ کا مشغلہ اور معمول تھا۔ اس دوران کئی کئی روز فاقہ کشی کے عالم میں گزر جاتے تھے اور آپ کو بھوک پیاس کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ بس بڑی عجب قسم کی شان بے نیازی تھی۔ آپ اپنے دست مبارک سے جانوروں کو دانہ کھلا کر بہت خوش ہوتے تھے اور جانور بھی آپ سے بہت مانوس تھے۔ آپؒ کو اپنے بڑے بھائی بہلول بخش کی طرح شعر و شاعری سے بڑا گہرا شغف تھا۔

آپ مولانا عبدالرحمن جامی کی زلیخا بہت جھوم جھوم کر اور لہک لہک کر پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی شہرت کو سن کر سموال میں گوشہ نشین باکمال مجذوب حافظ ناصر صاحب نے آپ کو بلوا کر زلیخا سنانے کی فرمائش کی۔ جب آپ نے اپنے بڑے بھائی بہلول بخش کے ساتھ مل کر ترنم کے ساتھ زلیخا سنائی تو فرط جذبات سے حافظ ناصر صاحب پر اس قدر رقت طاری ہوگئی کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے اور ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پھر جب وہ وجد کی اس کیفیت سے باہر آگئے تو انھوں نے دونوں بھائیوں کو صدق دل سے یہ دعا دی کہ ’’جاؤ میاں صاحب زادو! تم دونوں پر ہی تمام علوم منکشف کردیے گئے ہیں۔‘‘ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔