ووٹ کی عزت کیسی؟

محمد سعید آرائیں  منگل 14 جنوری 2020

پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے کا اختیار پہلے بھی وزیر اعظم کے پاس تھا۔ آرمی چیف کی توسیع اور توسیع نہ دینا آئینی اقدام ہے۔ وزیر اعظم اگر محسوس کریں کہ آرمی چیف کی توسیع ضروری ہے تو وہ دے سکتے ہیں اس لیے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے سے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا کیا تعلق؟

ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں علی محمد خان نے جب یہ کہا تو موجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ یہ فیصلہ مثبت ہوا ہے جو دونوں بھائیوں کا متفقہ فیصلہ ہے ۔

وزیر مملکت علی محمد خان کی یہ بات درست ہے کہ آرمی چیف کے تقرر و توسیع کا معاملہ وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہے جو وزیر اعظم نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری ماضی میں استعمال کرچکے ہیں مگر اس دوران یہ معاملہ سیاسی طور پر اٹھا نہ اعلیٰ عدالت میں گیا اور اب سپریم کورٹ نے بھی وزیر اعظم کے اختیار میں کوئی مداخلت نہیں کی البتہ اس سلسلے میں قانون میں جو سقم تھا اس کی نشاندہی سپریم کورٹ نے ضرور کی۔

اس ترمیم کی حمایت نہ کرنے والے جماعت اسلامی ، جے یو آئی اور بلوچستان کی تو دو پارٹیوں کی مخالفت ان کا آئینی حق تھا جو انھوں نے استعمال کیا ۔ مزید اہم فیصلوں تک ممکن ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات برقرار اور خوشگوار رہیں جوکہ رہنے بھی چاہئیں۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ ضروری بھی ہے تاکہ سیاسی رنجشیں کم رکھی جاسکیں۔آیندہ آنے والے قومی مسائل بھی حکومت اور اپوزیشن کو مل کر حل کرنے چاہییں ،ایک دوسرے پر بے جا تنقید اور روڑے اٹکانے سے جہاں حکومت کے مسائل میں اضافہ ہوگا وہاں ملکی مسائل بھی بڑھتے جائیں گے۔

پاکستان آرمی اپنے ڈسپلن اور اصولوں اور اپنے سربراہ کی ہدایات کی پابند فوج ہے جس کی کوشش رہی ہے کہ وہ سیاست سے دور اور اپنے دفاعی فرائض کی ادائیگی تک محدود رہے ۔ ملک میں مردم شماری بھی فوجی جوانوں کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوتی۔ امن و امان کے لیے ضمنی انتخابات کے حساس پولنگ اسٹیشنوں پر تعیناتی کے لیے فوج خود نہیں آتی طلب کی جاتی ہے۔

زلزلے، بارشوں، سیلاب ہی نہیں بلکہ عمارتیں گر جانے پر عوام کی مدد کے لیے فوجیوں سے مدد حاصل کی جاتی ہے۔ ہر بار ملک میں ایمرجنسی اور ہنگامی ضرورت پر پاک فوج کی خدمات حاصل کی جاتی رہی ہیں جو جائز اور ضروری بھی ہیں کیونکہ سول ادارے وہاں ناکام رہتے ہیں اور ہر شعبے میں مدد کی مہارت صرف پاک فوج کے پاس ہے۔ پاک فوج کئی سالوں سے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے میں مصروف عمل ہے اور اس پر کافی حد تک قابو بھی پا لیا گیا ہے۔

جس میں فوج کا بڑا جانی نقصان ہوا ہے اور اس کے جوانوں اور افسروں کی شہادتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔فوج نے ملک کی بقا کے لیے جس مہارت اور جرات سے کام کیا ہے وہ سول اداروں کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ ہمارے ہاں سول ادارے اتنے مضبوط نہیں ہوئے کہ کسی انتہائی مشکل وقت میں مسائل پر قابو پا سکیں۔ ملک میں سیاستدانوں کی اولین ترجیح ملک و قوم کی ترقی و فلاح و بہبود نہیں بلکہ حصول اقتدار کے لیے جمہوریت رہی ہے کیونکہ جمہوریت کے بغیر سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو اقتدار ملنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے جمہوریت جمہوریت الاپنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں کیونکہ اقتدار کے بغیر وہ عوام کی خدمت کرنا ہی نہیں چاہتے اور عوام کی خدمت کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹے، بے بنیاد، ناممکن مگر خوش نما دعوے اور وعدے کیے جاتے رہے ہیں۔

مہنگائی، بے روزگار، بدامنی، اپنے گھروں محرومی، گراں فروشی، ساری عمر مزدوری اور کاشتکاری کی محنت کے باوجود میسر غربت، علاج کی سہولتوں کے فقدان اور تعلیم مہنگی ہونے کے باعث اپنے بچوں کو معمولی تعلیم بھی نہ دلانے والے غریبوں اور سفری و دیگر سہولیات سے محروم لوگوں کو ایسے پرکشش اعلانات بہت خوش کن لگتے ہیں اور وہ سیاستدانوں سے مسلسل فریب کھانے کے بعد بھی سیاسی دعوؤں پر یقین کرلیتے ہیں کہ شاید اب وعدے پورے ہوجائیں اور خود کو امیر سے امیر ترین بنانے والے سیاسی رہنماؤں کو غریبوں کا خیال بھی آجائے مگر اب تک ایسا ہوا نہیں اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اقتدار کی تین تین باریاں لے کر بھی عوام کی حالت بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ عام انتخابات میں سیاسی رہنماؤں کے وعدوں پر یقین کرنا بھی عوام کی مجبوری رہی ہے کہ وہ ہر سنہری خواب دکھانے والے کی باتوں میں نہ آئیں تو کیا کریں اور کہاں جائیں ۔

پچاس سال قبل بنائی جانے والی پیپلز پارٹی کی چار حکومتوں نے عوام کو روٹی، کپڑا و مکان نہیں دیا۔ نواز شریف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کا وعدہ پورا کیا۔ ملک میں موٹرویز، میٹرو بسیں چلوائیں اور ڈیڑھ سال میں موجودہ پی ٹی آئی حکومت لاہور میں اورنج ٹرین اور پشاور میں میٹرو نہ بنوا سکی تو باقی ساڑھے تین سالوں میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کیسے بنوائے گی؟ حکومت کے یکطرفہ احتساب مگر مال برآمدگی برائے نام پر اور مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کیے جانے اور وزیر اعظم کی طرف سے کوئی وعدہ پورا نہ ہونے پر عوام سخت پریشان اور مایوسی کا شکار ہیں۔حکومت اگر اپنے وعدے پورا کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کے لیے ٹھوس پلاننگ کرنا چاہیے صرف تقریروں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

وفاقی وزیر علی محمد کا کہنا واقعی درست ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم سے ووٹ کو عزت دینے کے سیاسی نعرے کا کیا تعلق۔ فوج قومی ادارہ ہے جس کے سربراہوں کا تقرر سیاسی مسئلہ نہیں ہے جس پر سیاست چمکانا یا کسی کا کریڈٹ لینا بھی بہت غلط ہے۔ جس پارٹی نے جو چاہا وہی کیا اور اہم مسئلہ حل ہو گیا۔ ووٹ کی عزت کسی ادارے کی نہیں عوام کی ذمے داری ہے اور سیاسی پارٹیاں خود ووٹ کی عزت پامال کریں۔ دباؤ پر ووٹ دیں اور غربت میں ووٹ فروخت ہوں ووٹنگ کا نتیجہ مختلف نکلے تو ووٹ کی عزت تو پہلے ہی سوالیہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔