نریندر مودی کے ’موذی قانون‘ کے خلاف ’خواتین خانہ‘ ڈٹ گئیں!

رضوان طاہر مبین  منگل 14 جنوری 2020
ایک ماہ سے سڑک پر دھرنا دی ہوئی خواتین جدوجہد کا ایک نیا باب رقم کر رہی ہیں

ایک ماہ سے سڑک پر دھرنا دی ہوئی خواتین جدوجہد کا ایک نیا باب رقم کر رہی ہیں

برصغیر کی بار بار اجڑ جانے والی ’مانگ‘ دلّی میں 118 سال کی شدید ترین سردی پڑ رہی ہے۔۔۔ رات گئے درجہ حرارت تین، چار ڈگری تک گر جاتا ہے۔

اس لہو جما دینے والے جاڑے میں جَمنا ندی کی قریبی بستی ’شاہین باغ‘ میں ایک شامیانے تلے ’جاگ‘ ہو رہی ہے۔۔۔ منچ سجا ہوا ہے، کچھ روشنی کا بھی انتظام ہے، کبھی ہاتھوں میں تھامے ہوئے موبائل کی ’ٹارچ‘ بھی امید کی ایک علامت بن کر کچھ اندھیرے کو شکست دیتی ہے۔۔۔ ایک بانسری پر اقبال کی مشہور نظم ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔۔۔‘‘ کی ’طرز‘ چھِڑی ہوئی ہے، جو سرد سناٹے میں بہت دور تک پھیلی جاتی ہے۔۔۔ مجمع اس سے آواز ملاتا ہے۔۔۔

کبھی ’شاعر عوام‘ حبیب جالب کی نظم ’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘ ترنم سے پڑھی جاتی ہے۔ تالیوں کے شور سے آدھی رات کو ’پریشان چہروں پر ذرا دیر کو مسکراہٹیں پھیل جاتی ہیں۔۔۔ کبھی کوئی دَف پر ایک ردھم کے ساتھ اپنے مطالبے رواں کرتا جاتا ہے۔۔۔ حکم راں جماعت ’بی جے پی‘ پر بھپتی کستا ہے، نریندر مودی کو شرم دلاتا ہے اور کبھی  کم سن بچے مائیک ہاتھ میں تھامے کر ’ہم لے کے رہیں گے، آزادی!‘ کی صدا لگا کر حوصلہ دلاتے ہیں، اور پھر رات کے اس پہر دوبارہ جاڑے کا اداس کر دینے والا سناٹا آکاش تک غالب آجاتا ہے۔۔۔ شامیانے تلے حوا کی بیٹیوں کی مسکراتی آنکھیں پھر کئی طرح کے اندیشوں اور وسوسوں میں ڈوبی چلی جاتی ہیں۔۔۔

یہ ’مودی سرکار‘ کے نئے ’قانونِ شہریت‘ سیٹیزن ایمنڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف دلّی کی مسلمان خواتین کا دھرنا ہے، جس کے تحت تمام شہریوں کو اپنے ’ہندوستانی‘ ہونے کے پرانے دستاویزی ثبوت دینے ہوں گے۔۔۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ مت کے پیروکاروں کو یہ دستاویزی چھوٹ حاصل ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش کے اِن مذاہب کے پیروکاروں کو ہندوستان میں بسنے کی دعوت دی گئی ہے، جب کہ اگر کوئی مسلمان خود کو ’ہندوستانی‘ ثابت نہ کر سکا، تو نہ صرف شہریت سے محروم ہوگا بلکہ کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا!

’شاہین باغ‘ کا یہ دھرنا 15دسمبر 2019ء کو ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ پر پولیس کے وحشیانہ حملے کے بعد منظم ہوا۔۔۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ وہ خواتین خانہ ہیں، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کبھی گھر سے باہر ہی نہیں نکلتیں۔۔۔ لیکن آج شہریت چھِن جانے اور ’حراستی مرکز‘ میں قید ہونے کے خوف نے انہیں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔۔۔ سب اپنے گھروں سے بچھونے اور رضائیاں لائی ہیں۔۔۔ ان کے ساتھ اسکول جانے والے بچے بھی ہیں اور چند یوم کے شیر خوار بھی۔۔۔ سر پر شامیانہ ضرور تنا ہوا ہے، قناتیں بھی ایستادہ ہیں، لیکن یہ سردی روکنے میں ناکام ہے۔۔۔

ننھی بچیوں سے لے کر ضعیف خواتین کا جذبہ اور شعور نقطہ عروج پر ہے۔۔۔ ایک ہی نعرہ ہے، کہ مر جائیں گے، لیکن قانون واپس کرائے بغیر گھر نہیں جائیں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان خواتین کا نہ کوئی قائد ہے اور نہ کوئی قیادت۔۔۔! کسی بھی سیاسی جماعت کے نہ آنے کو وہ کم زوری کے بہ جائے طاقت سمجھتی ہیں اور کانگریس اور ’بی جے پی‘ کو مسلمانوں کا کھلا دشمن قرار دیتی ہیں! مَنچ سے پکارنے والی خاتون اسے ’بے چہرہ‘ احتجاج قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ دھرنا صرف اِن عورتوں کے جذبے سے ہی جاری ہے۔

5 جنوری 2020ء کو جب ’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی‘ میں سیکڑوں نقاب پوش ڈنڈا بردار افراد نے مودی مخالف طلبہ پر حملہ کیا، تو اس کے بعد خدشات پیدا ہوگئے کہ کہیں ’شاہین باغ‘ کے خواتین کے دھرنے پر بھی کوئی مارا ماری نہ ہو جائے۔۔۔ ’شاہین باغ‘ پر 1919ء کے ’جلیاں والا باغ‘ جیسے خوں ریز سانحے کے اندیشے کے باوجود خواتین جان ہتھیلی پر لیے اُسی طرح ڈٹی رہیں۔

بہت سی مائیں اپنے گھر گرہستی سے نمٹ کر یہاں چلی آتی ہیں اور پھر آدھی رات تک یہاں بیٹھی رہتی ہیں۔۔۔ صحافی جب ان سے پوچھتے ہیں کہ ایسی ٹھنڈ میں ہم تو ایک کونے میں دبکے رہیں، مگر آپ یہاں سڑک پر بیٹھی ہوئی ہیں، تو وہ خم ٹھونک کر کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے یہاں آئی ہیں، تاکہ کل انہیں بتا سکیں کہ ہم نے تمہارے لیے آواز اٹھائی تھی۔‘ تہمینہ نامی ایک خاتون کہتی ہیں کہ ’اگر میں نے آج کچھ نہیں کیا، تو کل اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گی؟‘ ایک اور خاتون بولیں کہ ان کی 90 سالہ والدہ اور 20 دن کا بھانجا بھی اپنی ماں کے ساتھ اس دھرنے میں موجود ہے۔ ممتاز ہندوستانی صحافی روش کمار کہتے ہیں کہ بہت زمانے کے بعد شاہین باغ کے دھرنے نے ہندوستان کی روایت اور تاریخ کو بدلا ہے۔

’شاہین باغ‘ میں گذشتہ ایک ماہ سے سڑک پر پڑاؤ ڈالی ہوئی یہ خواتین کہتی ہیں کہ ہم کبھی کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے، ہم نے بہت برداشت کیا ہے، گھر کے اندر رہتے ہیں، تو کم زور سمجھا جاتا ہے، اب ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اب ایک دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے کا احساس آگیا ہے۔ باپردہ خواتین کا باہر آنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ مجبور ہیں، ہم لوگ تو اتنے پردے میں رہنے والے تھے کہ کسی غیر مرد کے سائے سے بھی پرے رہتے تھے، لیکن ’جامعہ ملیہ‘ میں ہم نے دیکھا کہ ہماری بیٹیاں گرلز ہاسٹل میں بھی محفوظ نہیں، تو ہم باہر آئے، یہ ماؤں کا دھرنا ہے۔ ہم گولی بھی کھائیں گے، لیکن گھر نہیں جائیں گے۔ ایک برقع پوش خاتون بتاتی ہیں کہ وہ روزانہ صبح یہاں آتی ہیں، پھر دوپہر کو بچوں کو کھانا کھلانے جاتی ہیں اور پھر واپس یہاں آجاتی ہیں۔ شیر خوار بچے کو گود میں اٹھائی ہوئی ’گلشن‘ یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہو جاتی ہیں کہ ’آج ہمیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ہم بھارت کے شہری ہیں، ہمارا بہت دل ٹوٹا ہوا ہے، میرے پاس تو سب ثبوت ہیں، لیکن اور کتنے ہوں گے جن کے پاس کاغذ نہیں ہوں گے!‘

جب ان خواتین سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ سڑک پر آمدورفت میں رکاوٹ ڈال کر وہ عوام کو تکلیف دے رہی ہیں، تو وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمارا مقصد کسی کو تکلیف پہچانا نہیں، مگر ہمارے سامنے اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔۔۔‘‘ جب کہ ایک خاتون بولیں کہ ’’سڑک بند ہونے سے مشکل دکھائی دے رہی ہے، لیکن جو ہمارے لیے آنے والی کٹھنائی وہ نہیں دیکھ رہے۔‘‘ ایک اور خاتون بولیں کہ ’’اگر سڑک بند کرنے سے کسی کو پریشانی ہے تو وہ مودی تک یہ خبر پہنچائے!‘‘

’ہند نیوز‘ سے وابستہ ربا انصاری رات ایک بجے وہاں پہنچیں، تو درجہ حرارت سات ڈگری تھا، اس ٹھٹھرتے جاڑے میں بھی خواتین آخری دم تک لڑنے کا عزم ظاہر کرتی رہیں۔ ایک خاتون پوچھتی ہیں کہ کیا ہم اب تک اس دیس کے نہیں تھے؟ ہم تو بچپن سے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ گاتے آئے ہیں۔ اگر ہماری یہ شہریت مشکوک تھی، تو حکومت نے ووٹ بھی تو اسی شہریت کی بنیاد پر لیے تھے۔ ایک مسلمان خاتون بتاتی ہیں کہ انہوں نے ’بی جے پی‘ کو ووٹ دیا، لیکن آج احساس ہو رہا ہے کہ یہ ہمارے خلاف ہیں! مودی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں بولے، جب بولے پولیس کا ہی دفاع کیا، جس نے ہم پر لاٹھیاں برسائیں، کشمیر میں جو ہوتا ہے وہ ہم نے پہلی بار دیکھا، آج ہمیں بھارت کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔

آہنی عزم کی حامل لدیدہ اور عائشہ
ہندوستان میں متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف طالبات کا جوش اور ولولہ پہلے دن سے ہی نمایاں ہے۔ 15 دسمبر 2019ء کو جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاجی طلبہ لاٹھیوں اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے ’نیو فرینڈز کالونی‘ کے گھروں میں پناہ لینے کو دوڑے، یہ ایک طالب علم، جب کہ چار، پانچ طالبات تھیں، تنہا طالب علم کو پولیس نے دبوچا اور گھسیٹ کر باہر سڑک پر لے آئی اور اس پر تابڑ توڑ ڈنڈے برسانے شروع کر دیے۔۔۔ ایسے میں کیرالہ سے تعلق رکھنے والی آہنی عزم کی حامل طالبات لدیدہ فرزانہ اور عائشہ رینا ڈھال بن کر ان کرخت لاٹھیوں کے آگے آگئیں اور انہوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا اور انہیں پس پَا ہونے پر مجبور کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس واقعے کی ویڈیو ملک بھر میں پھیل گئی۔۔۔ اگلے روز ممتاز صحافی برکھا دَت لدیدہ اور عائشہ سے ملنے پہنچیں اور ان سے پوچھا کہ کیا ایسا کرتے ہوئے انہیں ڈر نہیں لگا؟ تو وہ بولیں کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتی ہیں اور وہ تو ’ہندو توا‘ کے عظیم خوف سے لڑ رہے ہیں تو ڈر کیسا؟

سوا سالہ بچی ’چمپک‘ نے بھی 14 دن عتاب جھیلا
مودی سرکار کی انتہا پسندانہ سوچ کی قیمت بنیا باغ (یوپی) کی ننھی بچی ’چمپک‘ نے بھی ادا کی۔ ہوا یوں کہ 19 دسمبر 2019ء کو چمپک کی ماں ایکتا شیکر کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا اور مختلف الزامات عائد کر کے 14 دن مقید رکھا گیا۔ ایکتا شیکر اور ان کے شوہر روی شیکر کو کانگریس کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے میں شرکت پر گرفتار کیا گیا۔ روی شنکر ابھی زیر حراست ہیں، جب کہ ان کی بیوی ایکتا کو 14 دن بعد ضمانت مل سکی۔۔۔ یہ 14 دن اِن کی سوا سال کی بیٹی ’چمپک‘ نے شدید اذیت میں گزارے، اس کی معصوم نگاہیں ہر لمحہ اپنے ماں باپ کو کھوجتی رہیں، وہ انہیں پکارتی اور راتوں کو نیند میں ڈر کر اٹھ جاتی، دوسری طرف ایکتا شیکر کہتی ہیں انہیں اندازہ نہیں تھا کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ جیل میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب وہ اپنی بچی کو یاد کرکے نہ روئی ہوں۔

ہم پر لاٹھی چلانا آسان نہیں، طالبات اسٹیفن کالج
خواتین کی جدوجہد کی بازگشت میں ایک نئی آواز دلی کے مشہور زمانہ مشنری کالج سینٹ اسٹیفن کالج کی بھی شامل ہوگئی ہے۔ عموماً شانت رہنے والے کالج میں زیر تعلیم طالبات نے 8 جنوری کو ’جے این یو‘ اور ’جامعہ ملیہ‘ کے طلبہ سے اظہار یک جہتی کیا، وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہم نہیں بولیں گے، تو کون بولے گا؟ اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ طلبہ کو کانگریس یا بائیں بازو کے لوگ حکومت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں، تو ’اسٹیفن کالج‘ میں تو کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، یہاں کا احتجاج ثابت کرتا ہے کہ درحقیقت حکومتی اقدام غلط ہیں۔ ہمارے پاس ایک ’ایلیٹ اسپیس‘ ہے، اس لیے ہم پر لاٹھی چلانا آسان نہیں! صحافی روش کمار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ کی طرح اسٹیفن کالج میں لاٹھی چلا کر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، یہاں اعلیٰ افسران کے بچے پڑھتے ہیں، اگر وہ سر پر پٹی باندھے ہوئے گھر پہنچے تو پھر بات بڑھے گی۔‘

’’یہ میرا سر کاٹیں گے، تو کاٹ دیں۔۔۔!‘‘
’شاہین باغ‘ میں جہاں امور خانہ داری سے منسلک خواتین کو باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے، وہیں کئی ضعیف العمر خواتین بھی سراپا احتجاج ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’ہم تو مر جائیں گے، ہمارے بچے کہاں جائیں گے؟‘ کسی نوجوان کی طرح تیزی سے دونوں بازو لہرا کر نعرے لگانے والی 90 سالہ اسما خاتون کہتی ہیں کہ یہ مودی سے پوچھیے کہ ہمیں کیوں سڑک پر بٹھایا ہوا ہے۔ انسان کے ساتھ دکھ سکھ ہے، گھر بدلتا ہے، اب جس کے پاس کاغذ نہیں، وہ کہاں سے لائے؟ میں آزادی کے وقت 15برس کی تھی، اس لیے نہیں لڑ سکی، لیکن اب لڑوں گی، جب تک حق نہیں ملے گا، یہیں بیٹھی رہوں گی۔

یہ میرا سر کاٹیں گے تو کاٹ دیں! 82 برس کی بلقیس کا کہنا ہے کہ ’’ایک دن تو مرنا ہی ہے، جب تک یہ دھرنا چلے گا، ہم وہاں سے کہیں نہیں جانے کے!‘‘ 75 سالہ سروری بیگم بولیں کہ ’’بہت سے لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، کوئی غریب مزدور ہے، تو وہ کہاں سے دستاویز دے گا؟ ہم ہندوستان میں پیدا ہوئے اور یہیں مریں گے، ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے۔‘‘

پہلے لڑے تھے گوروں سے، اب لڑیں گے چوروں سے!
’شاہین باغ‘ پر لگے ہوئے شامیانے میں دھرنا کہنے کو تو ’خواتین خانہ‘ کا ہے، لیکن چاہے کسی اسکارف والی خاتون سے بات کیجیے یا مکمل برقع میں ملبوس خاتون سے۔ وہ اپنی تحریک کے اغراض ومقاصد سے مکمل طور پر آگاہ دکھائی دیتی ہے۔ یہی نہیں اسکول جانے والے بچوں کی گفتگو میں بھی پورے سیاسی شعور کی خبر ملتی ہے۔ ایک بچی بتاتی ہے کہ وہ اپنی امی، خالہ اور بڑی بہن کے ساتھ یہاں آئی ہے اور وہ سیٹیزن ایمنڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کر رہی ہے، کیوں کہ یہ ہندوستانی آئین کے خلاف ہے، یہ لوگوں کو تقسیم کرتا ہے، جب کہ آئین میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘ ایک جگہ آٹھ، نو سال کے بچے نعرے لگا رہے ہیں ’پہلے لڑے تھے گوروں سے، اب لڑیں گے چوروں سے‘ وہ کہتے ہیں کہ جب تک بھارتی حکومت قانون واپس نہیں لے گی، وہ وہیں بیٹھے رہیں گے۔

پولیس نے ہمیں کہا جناح کے پِلّوں پاکستان جائو! :طالبات
شہریت کے متنازع قانون کے خلاف جدوجہد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ سے شروع ہوئی، جس میں روز اول سے طالبات شانہ بشانہ دکھائی دیں۔۔۔ لاٹھی اور آنسو گیس کھا کر بھی کہیں وہ ڈنڈا بردار پولیس اہل کاروں کو پھول دیتی نظر آئیں، تو کہیں انہیں گرفتار کرنا چاہا، تو انہوں نے ’قومی ترانہ‘ پڑھنا شروع کر دیا۔ ان طالبات نے 15 دسمبر 2019ء کو جامعہ ملیہ کی لائبریری اور گرلز ہاسٹل میں پولیس کی ’دہشت گردی‘ کو بھی جھیلا، اس طرح کہ انہیں دیواریں پھاند کر اپنی جان بچانا پڑی۔ طالبات بتاتی ہیں کہ پولیس نے ان پر لاٹھیاں برساتے ہوئے کہا کہ ’جناح کے پلو پاکستان جائو۔۔۔! تم ہندوستانی نہیں ہو، یہاں کا نمک کھا کر نمک حرامی کرتے ہو۔‘ ’شاہین باغ‘ کے دھرنے میں بھی اس کی بازگشت رہی کہ مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’آپ پاکستانی ہیں!‘‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 60 فی صد نشستیں مسلمان طلبہ کے لیے مخصوص ہیں، لیکن یہاں زیر تعلیم ہندو طلبہ بھی اپنے مسلمان طلبہ کے ہم آواز دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے شعبہ ’اِبلاغ عامہ‘ کی طالبہ سری جن چائولہ ’پولیس گردی‘ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شہریت کے قانون کو مسلمان مخالف قرار دیتی ہیں۔۔۔ ’ہندی‘ آنرز کی طالبہ چندا یادیو بھی اِس احتجاج میں پیش پیش رہیں۔

دپیکا پڈوکون سب پر بازی لے گئیں!
متنازع قانون کے خلاف جہاں ہندوستان کی خواتین مزاحمت کا ایک باب رقم کر رہی ہیں، وہیں فلمی دنیا سے بھی صنف نازک نے ہی اپنے حصے کا دیا جلایا ہے۔ 7 جنوری 2019ء کو نام وَر اداکارہ دپیکا پڈوکون تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی‘ (جے این یو) کے طلبہ سے اظہار یک جہتی کرنے پہنچ گئیں اور وہاں پانچ جنوری کو مسلح جتھے کے حملے میں زخمی اسٹوڈنٹ یونین کی صدر اویشی گھوش سے ملیں۔ وہ وہاں اس وقت پہنچیں، جب ’جے این یو‘ اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر ڈاکٹر کنہیا کمار خطاب کر رہے تھے۔ ’جے این یو‘ میں اگرچہ فیسوں میں اضافے پر احتجاج پہلے سے جاری تھا، لیکن اب اس میں ’سی اے اے‘ مخالفت کار نگ بھی شامل ہو چکا ہے۔

ایک ٹی وی پروگرام میں ہندوستان میں سیاسی جدوجہد کرنے والے طلبہ کے حوالے سے دپیکا کہتی ہیں کہ ’’نوجوانوںکو سڑک پر دیکھ کر میں بہت فخر محسوس کرتی ہوں، کہ ہم ڈرتے نہیں ہیں، اپنے ملک کے بارے میں سوچ رہے ہیں، زندگی اور سماج میں بدلائو کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔‘‘ ایک طرف اعتدال پسند حلقے متنازع قانون کے خلاف چُپ سادھے رہنے پر بھارتی فلمی ستاروں پر تنقید کر رہے ہیں، تو وہیں اب دپیکا پڈوکون انتہا پسندوں کے نشانے پر آگئی ہیں اور اب بڑے پیمانے پر ان کی نئی فلم ’چھپاک‘ کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ اس بائیکاٹ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، لیکن دپیکا پڈوکون اپنے اس قدم کے ذریعے تمام ہم عصروں پر بازی لے گئی ہیں۔ یہی نہیں کیرئیر کے درمیان یہ قدم اٹھا کر وہ اپنا دور تمام کرچکنے والے پرانے ’دیوقامتوں‘ پر بھی واضح سبقت لے گئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔