نواز لیگ اور امن مذاکرات

طلعت حسین  اتوار 10 نومبر 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کی کارکردگی بار بار ہونے والی فوجی مداخلت کی وجہ سے خراب رہی ہے۔ جب کسی  نظام کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی توڑ دیا جاتا ہے تو اُس کے مفید نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت ناتواں ہو جاتی ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں فوجی مداخلتوں کا شکار ہونے والی ہر حکومت نے اپنے پائوں پر کلہاڑیاں بھی خوب چلائیں۔ اور جس حکومت کو فوجی مداخلت کے بغیر پانچ سال مکمل کرنے کا موقعہ ملا اُس نے اپنی تباہی اور بُر ا اندازِ حکمرانی اپنانے کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔ پیپلز پارٹی کے بہت سے ایسے عقلمند سیاستدان اب بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات کے نتائج انھوں نے اپنے ہاتھوں سے تحریر کیے۔ وہ تو بینظیر بھٹو کی ناحق موت کا صدقہ تھا کہ زرداری صاحب کا نظام چاروں شانے چت نہیں ہو گیا ورنہ گیلانی، پرویزاور زرداری کی تکون پانچ سال میں پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر بہت سے گھائو دینے میںکامیاب رہی۔

نواز لیگ کی حکومت اگرچہ بھاری مینڈیٹ کے چھاتے تلے آرام سے بیٹھی ہے۔ مگر سیاسی خودسوزی کے جراثیم اُس میں بھی  بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اِس وقت خود ساختہ مسائل کی فہرست میں اول درجے پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا معاملہ ہے۔ ظاہرا ً نواز لیگ مشکل میں نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس نے تحریک انصاف کے امن مذاکرات پر اپنائے جانے والے موقف کے بہت سے سیاسی نقصانات بڑ ے سلیقے سے زائل کیے ہیں۔ عمران خان کی جماعت کا خیال تھا کہ اگر وہ ڈرون حملوں اور تحریک طالبان سے با ت چیت کو ایک  مطالبے میں تبدیل کر دے تو نواز لیگ کو مشکل میں مبتلا کر دے گی۔ اُ ن کا مفروضہ یہ تھا کہ نواز شریف حکومت میں ہونے کے ساتھ ساتھ امریکا کے قریب رہنے پر مائل ہیں لہٰذا وہ ان دونوں پیچیدہ معاملات پر اپنی پالیسی واضح نہیں کریںگے۔ جس سے تحریک انصاف کو نواز لیگ پر زبردست تنقید کرنے کا اور خود کو ملک میں پھیلے ہوئے جذبات کی واحد نمایندہ جماعت قرار دینے کا موقعہ ملے گا۔ نواز لیگ نے بیانات کے ذریعے اس امکان کو پیدا نہیں ہونے دیا۔ چوہدری نثار علی اور عمران خان امن مذاکرات کے بار ے میں ایک سی زبان بولتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ ابھی تک نواز لیگ نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے مکمل مماثلت رکھتا ہے۔

مگر نواز لیگ کے لیے یہی مماثلت درد ِسر بننے والی ہے۔ اس کی ایک وجہ اس کا حکومت میں ہونا ہے۔ حزب اختلاف کے پاس یہ آ سائش موجود ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا مطالبہ کر دے جو قابل عمل نہ ہو۔ حکومتیں جو پالیسی بنانے کی ذمے داری اُ ٹھائے ہوتی ہیں عملیت پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ کیسا نقطہ نظر، مشہور یا عوامی؟ اور کیا چیز حقیقت میں کی جا سکتی ہے؟ حکومتوں کو ان دونوں پہلووں پر نظر رکھتے ہوئے پالیسی مرتب کرنی ہوتی ہے۔ نواز شریف اور چوہدری نثار علی دونوں ان تما م بریفینگز میں موجود تھے جس میں شمالی وزیرستان میں ہونے والی دہشتگردی کی کارروائیوں پر تفصیلی معلومات فراہم کی گئیں۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان کئی ایسی ملاقاتیں ہوئیں جن میں فا ٹا کی اِس ایجنسی میں عسکری کارروائی کے ذریعے تحریک طالبان کو آخر ی یا بڑا دھچکا پہنچانے کے لیے مختلف لائحہ عمل زیر بحث آئے ۔یہ ملاقاتیں ’’ جن میں سے چند ایک باضابطہ ریکارڈ کا حصہ ہے ‘‘ نواز لیگ کی طرف سے مذاکرات کی پیشگی ناکامی کو مانتے ہوئے دوسرے یا متبادل پالیسی پر مرکوز رہیں ۔کسی روز یہ حقیقت بھی سامنے آجائے گی کہ کل جماعتی کانفرنس بلوانے میں نواز لیگ کی اپنی دلچسپی کتنی تھی۔

بعض حلقوں کے مطابق نواز لیگ کے مرکزی رہنما بڑی مشکل سے ایک ایسی نشست کے اہتمام پر راضی ہوئے جس میں اتفاق رائے کو وہ پہلے ہی سے غیر اہم سمجھ رہے تھے۔ حتیٰ کہ جب کل جماعتی کانفرنس نے بات چیت کے لیے ایک عمومی نقشہ تیار بھی کرلیا تو بھی موجودہ حکومت خود کو ذہنی طور پر شمالی وزیرستا ن میں آپر یشن کے لیے تیار کرنے کا ارادہ باندھ چکی تھی۔ حکومت کی مذاکرات کے آپشن میں عدم دلچسپی ہی تھی کہ جس کو بھانپتے ہوئے عمران خان نے حکیم اللہ محسود کی موت سے پہلے تنقید کا سیلاب بہایا اور یہ کہ نواز لیگ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ اس طرح ڈرون حملے کے بعد نواز لیگ کی طرف سے آنے والے بیانات اُ ن تمام منصوبہ بندی کے بالکل خلاف ہیں جو یہ حکومت شمالی وزیرستان کے خطر ے سے نپٹنے کے لیے عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کر رہی تھی۔ اس دورا ن وزیراعظم نواز شریف کو پشاور میں دہشت گر دی کے حالیہ واقعا ت سے متعلق چند خو فناک معلومات بھی فراہم کر دی گئیں۔

ان کے مطابق مومند ایجنسی میں موجود تحریک طالبان کے نمایندگان نے قصہ خوانی بازار اور چرچ پر حملہ کیا جن میں124افراد ہلاک اور 180افراد زخمی ہوئے۔ وزیراعظم پاکستان کو دی جا نے والی اطلاعات میں خیبر پختونخوا کے ایک مدرسے کو بطور پناہ گاہ استعمال کرنے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ چرچ حملے میں ملوث ایک شخص جس نے ریمورٹ کنٹرول کا بٹن د با یا اس کا اقبالی بیان بھی شواہد کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یعنی پاکستان کے وزیراعظم کو یہ علم ہے کہ تحر یک طالبان کی مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد کی کارروائیاں کیا  ہیں۔ان معلومات کے حصول کے بعد وزیراعظم کو بات چیت کے عمل کی ممکنہ ناکامی کے پیش نظر قوم کو اعتماد میں لینا تھا۔ اور یہ بتانا تھا کہ یہاں پر ہونے والے خون خرابے پر اُن کی حکومت کیا کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ مگر سیاسی مصالحت آڑ ے آگئی، تحریک انصاف کے ساتھ عوامی نقطہ نظر اپنانے کا میچ پڑگیا اور نواز لیگ نے بھی ان مذ اکرات کی کامیابی کے دعوے دہرانے شروع کردیے جن کی اصل حقیقت سے وہ آگاہی رکھتی تھی ۔

اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی جما عت مذ اکرات کرنے اور 21تاریخ کو ڈرون حملوں کے خلاف بطور احتجاج نیٹو رسد کے رستے بند کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ایک تو شاید اس وجہ سے کہ عمران خان اپنی دانش مندی سے مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُن کی جماعت کا موقف سو فیصد درست ہے۔ دوسر ی وجہ یہ بھی ہے کہ جن نعروں اور وعدوں کے ساتھ انھوں نے انتخابات لڑے تھے اُن پر عمل درآمد کا موقعہ اب آیا ہے وہ اِس کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گے۔ مگر نواز لیگ یہ رستہ بہت دیر تک نہیں اپنا سکے گی۔ تحریک طالبان کی کارروائیوں کے شواہد  ناقابل تردید ہیں۔ وزیراعظم امریکا میں تحریک طالبان سے متعلق مختلف جگہوں پر تمام ’’ آ پشنز‘‘ کے استعمال کے واضح اشارے دے کر آئے ہیں۔ان کی اپنی جماعت میں بعض ایسے دھڑ ے موجود ہیں جو بات چیت اور مذاکرات کے معاملے پر د یئے گئے ردعمل سے انتہائی غیر مطمئن ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج کی طرف سے وزیرستان میں کارروائی کی تیاری بھی مکمل ہے۔ اگلے چند دنوں میں وزیراعظم پاکستان کو یا تو طالبان کے ساتھ مکمل طور پر اور حتمی سنجیدگی سے بغل گیر ہونا ہوگا یا پھر اُس پالیسی کو منطقی انجام کی طرف پہنچانا ہوگا جس پر وہ شروع دن سے کام کر رہے تھے۔ اِ س وقت نواز لیگ کی ایک ٹانگ امن مذاکرات کی کشتی میں ہے اور دوسری ٹانگ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاری کی کشتی میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔