لنڈا بازار، سفید پوش افراد کا بھرم

راضیہ سید  جمعرات 16 جنوری 2020
پاکستان بھی بڑی تعداد میں لنڈا کے ملبوسات اور دیگر اشیا درآمد کرتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان بھی بڑی تعداد میں لنڈا کے ملبوسات اور دیگر اشیا درآمد کرتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی جہاں خشک میوہ جات کی مانگ بڑھ جاتی ہے، وہیں لنڈا بازار میں ہر طبقے کے افراد کی آمد میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔

لنڈا بازار میں خریداری کو اگر سفید پوش افراد کا بھرم قائم رکھنے کی ایک کوشش کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنا پر امیر امیر ترین اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔ سو اپنی عزت نفس کا بھرم قائم رکھنے اور موسمی اثرات سے اپنے آپ کو بچانے کےلیے غریب خواتین حضرات لنڈا بازار کا رخ کرتے ہیں۔ بلکہ آج کل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اخراجات کی بھرمار نے غربا کے ساتھ متوسط اور کسی حد تک امیر طبقوں کو بھی لنڈا بازار میں خریداری پر مجبور کردیا ہے۔ اب امیر طبقہ بھی لنڈا کے مہنگے اسٹالوں پر خریداری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ لنڈے کے کاروبار کو بہت ترقی مل رہی ہے۔ پاکستان بھی بڑی تعداد میں لنڈا کے ملبوسات اور دیگر اشیا درآمد کرتا ہے۔ اسی طرح امریکا میں لنڈے کا کاروبار وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ لنڈے کی اشیا برآمد کرتا ہے۔

برطانیہ میں ہر سال لوگ اپنے استعمال شدہ ملبوسات خیرات میں دیتے ہیں اور قابل غور یہ بھی ہے کہ خیرات میں دیے جانے والے کپڑوں کے بارے میں ان لوگوں کو بالکل علم نہیں ہوتا کہ یہ پس ماندہ ممالک میں قیمتا فروخت کیے جائیں گے۔

لنڈے کے ملبوسات، پردے، بیڈ شیٹس، موزے، ٹوپیاں اور سوئٹر ان سب کی تجارت میں اب بہت منافع ہونے لگا ہے کہ صرف دو ارب اسی کروڑ پاؤنڈز کی تجارت تو برطانیہ سے سالانہ ہوتی ہے۔

برطانیہ میں صارفین ہر سال دس لاکھ ٹن سے زیادہ وزن کے کپڑے ضائع کردیتے ہیں یا ان کا استعمال ترک کردیتے ہیں۔ جن ممالک سے یہ مال خریدا جاتا ہے ان میں امریکا، انگولا، برطانیہ، گوئٹے مالا، کینیڈا، چلی اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات 7.3 فیصد سے 10.2 فیصد تک کپڑوں کی تجارت کرتا ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو 2017 میں پاکستان نے 5.239 ملین ڈالر کے پرانے ملبوسات خریدے۔

آج کے دور میں لنڈا کے کپڑوں کو بھی بہت سستا سمجھنا مناسب نہیں ہے۔ ایک استعمال شدہ جیکٹ جو لندن اور چائنا سے آتی ہے اس کی قیمت 8000 روپے سے 2000 تک بھی تجاوز کرجاتی ہے۔

دنیا بھر میں جو ممالک لنڈے کا سامان خریدتے ہیں وہ صرف پہننے کے کام ہی نہیں آتا بلکہ ان میں سے بہت سا مال گارمنٹس فیکٹریوں کو بھی بھیجا جاتا ہے۔ ویسے تو پورے پاکستان میں لنڈا اچھا ملتا ہے، لیکن کچھ خاص جگہیں ایسی ہیں جہاں لوگ بہترین لنڈا کے ملبوسات اور جیکٹوں کی خریداری کےلیے جاتے ہیں۔

پاکپتن میں دارالامان روڈ پر بہت بڑا لنڈا بازار ہے، یہاں صرف اسی سڑک پر 20 کے قریب لنڈا کی دکانیں موجود ہیں۔ راولپنڈی میں ریلوے اسٹیشن کے پاس بہت مناسب داموں میں نئی اشیا دستیاب ہیں، جبکہ جامع مسجد روڈ بھی اس حوالے سے مشہور ہے۔ لاہور میں گرین ٹائون، انارکلی، وحدت روڈ، شاہدرہ، اچھرا بازار اور صدر بازار میں لنڈا کی بھرمار ہے۔ لنڈا بازار میں فروخت ہونے والی اشیا باقاعدہ کارٹن میں خریدی جاتی ہیں۔ جرسی کا کارٹن ساڑھے چار سے نو ہزار تک، جیکٹ دس سے پچیس ہزار، دستانے اور موزوں کا کارٹن دس سے پندرہ ہزار میں خریدا جاتا ہے۔

عوام کی بڑی تعداد کا لنڈا بازاروں کا رخ کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو مہنگائی کی وجہ سے یہ گرم ملبوسات اصل قیمت پر بہت مہنگے داموں ملتے ہیں۔ لنڈا بازار میں ورائٹی بہت ہے، نوازائیدہ بچوں سے لے کر بڑوں کی تمام تر ضروریات کی اشیا یہاں دستیاب ہیں۔ لنڈا کی چیزوں میں فیشن بہت زیادہ ہے۔ اسٹائل اور جدت کا جواب نہیں، جس کی وجہ سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں۔ تاہم لنڈا کی اشیا خریدتے ہوئے چند باتوں کا ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔

پہلے تو یہ اشیا خریدنے کےلیے دن کا انتخاب کریں تاکہ روشنی میں آپ کو اچھا پیس مل سکے۔ یعنی رنگ کا فرق یا بنائی میں کوئی خرابی نہ ہو۔ جبکہ رات یا شام میں خریدنے سے دکان دار آپ کو باآسانی بے وقوف بناسکتے ہیں۔ خریداری کے وقت اپنی جسامت اور قد کاٹھ کو بھی مدنظر رکھیں۔

لنڈے کے ملبوسات کبھی ایک دکان سے نہیں بلکہ بازار میں پھر کر بھاؤ تاؤ کرکے لیں کیونکہ ہوسکتا ہے دوسری جگہ سے آپ کو زیادہ اچھے اور کم قیمت پر ملبوسات مل جائیں۔ ایسے سوئیٹر اور موزے وغیرہ مت خریدیں جن کے ریشے ریشمی ہوں کیونکہ اس طرح آپ خارش اور دیگر جلدی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

جب آپ خریداری مکمل کرلیں تو کوشش کیجیے کہ گھر جا کر سرف کے محلول سے ان ملبوسات کو دھوئیں اور پھر ڈیٹول ملے پانی سے بھی کھنگالیں تاکہ اگر ان میں کوئی جراثیم ہوں تو وہ نکل سکیں، اور ان کپڑوں کو تیز دھوپ میں سکھائیں۔

ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ایسے ملبوسات بالکل مت خریدیں جو براہ راست آپ کے بدن کے ساتھ مس ہورہے ہوں کیونکہ اس سے بیماریوں کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانے کے بعد اگر آپ لنڈا بازار کا رخ کرتے ہیں تو نہ صرف آپ خوش رہتے ہیں بلکہ آپ کی جیب بھی مطمئن رہتی ہے۔ اس لیے شرمندگی نہ محسوس کریں اور لنڈا بازار سے اپنے بجٹ کے مطابق خریداری کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔