شورش دوراں۔ ہم ساتھ تھے

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 16 جنوری 2020

’’شورشِ دوراں‘‘ اور ’’ہم ساتھ تھے‘‘ حمیدہ سالم کی دو کتابیں ہیں۔ ’’شورشِ دوراں‘‘ ان کی زندگی کی کہانی ہے اور’’ہم ساتھ تھے‘‘ ان کے دو بھائیوں پر لکھے ان کے مضامین اور ایک بہن سے متعلق ایک خط کا مجموعہ ہے۔ یہ کتابیں کبھی ہندوستان میں چھپتی تھیں اور اب راشد اشرف نے زندہ کتابوں کے اپنے سلسلے میں یہاں شایع کی ہیں۔

حمیدہ سالم ادب وتنقید کی دنیا میں معروف شخصیت نہیں ہیں لیکن جیساکہ خلیق انجم فرماتے ہیں ان کی یہ کتابیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں زبان اور اظہار پر پوری قدرت حاصل ہے اور وہ یقینا ہمارے بے شمار ادیبوں اور نقادوں سے بہتر لکھتی ہیں۔

حمیدہ سالم ’’شورشِ دوراں‘‘ کے حرف آغاز میں لکھتی ہیں ’’ مجھے حیرت ہے اپنی اس جرأت پرکہ آپ کو اپنی زندگی کی کہانی سنانے بیٹھ گئی۔ میں لاکھوں کروڑوں عورتوں میں ایک معمولی ذہانت ، معمولی سی شکل وصورت کی ہستی جس کا بچپن کھیل کود میں گزرا، بڑے ہونے پر پڑھائی لکھائی سے واسطہ پڑا۔ جوانی آئی شادی ہوئی۔ بال بچے ہوئے، ان کو پالا پوسا، سسرال اور میکے کی ذمے داریاں اٹھائیں۔

گھریلو زندگی کے مسائل کا بوجھ سنبھالا اور ساتھ ہی ساتھ کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا کام بھی انجام دیا۔ یہ کوئی ایسا کارنامہ نہیں جو قابل ذکر ہو، کوئی ایسا تیر نہیں مارا جو غیر معمولی ہو اور جس پر ناز ہو۔ لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ذہن میں یہ خواہشیں کروٹیں لیتی رہیں کہ ماضی کی یادوں میں آپ کو شریک کروں۔ اس لیے نہیں کہ ان یادوں کا تعلق میری ذات سے ہے۔ میری ذات کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان یادوں کی اہمیت یہ ہے کہ ان کا تعلق معاشرے اور ماحول کی تبدیلیوں سے ہے جو سماجی اور تہذیبی نکتہ نظر سے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔‘‘

حمیدہ سالم کے بچپن کا تعلق گاؤں، قصبہ اور شہر سے رہا۔ پیدائش ردولی میں ہوئی۔ باپ کی ملازمت لکھنو میں تھی اور ماں کا میکہ گاؤں میں تھا۔ لکھتی ہیں ’’ردولی کی زمینداری زندگی میں ہم لوگوں نے بچپن میں جو مزے اٹھائے ہیں اسے یاد کرکے تو سچ ہے آج بھی جی تڑپتا ہے ہم سب بہن بھائی یہیں پیدا ہوئے۔ یہ ہمارا وطن تھا۔ یہاں بڑی نفاست تھی، بڑا سلیقہ تھا، بڑی چمک دمک تھی۔‘‘

حمیدہ کی تعلیم کی ابتدا مسلم گرلز اسکول علی گڑھ سے ہوئی۔ تعلیم کا پہلا دور 1932 سے 1938 تک اسکول کا اور دوسرا 1942سے 1945تک کا یونیورسٹی کا۔ بیچ کے چار سال انھوں نے لکھنو کے آئی ٹی کالج میں گزارے۔ اپنی بچپن کی یادوں کی طرح حمیدہ نے اپنی اسکول کے دنوں کی یادوں کا بڑے جذبے سے ذکر کیا ہے، اس دور میں جن ٹیچروں سے انھوں نے پڑھا اور جن لڑکیوں سے ان کی دوستی ہوئی ان کو یاد کیا ہے۔ لکھتی ہیں ’’اپنی اس اسکول کی زندگی میں یہ تجربہ بھی ہو گیا کہ زندگی صرف معصوم خوشیوں اور معصوم شرارتوں کا ہی نام نہیں، کچھ ایسے دکھ بھی ہیں جن کا مداوا کوئی نہیں۔‘‘

اسکول سے میٹرک کر کے اور لکھنو میں آئی ٹی کالج سے بی اے کر کے حمیدہ ایم اے کرنے کے لیے علی گڑھ آ گئیں۔ اکنامکس میں ان کا داخلہ ہو گیا۔ مسلم یونیورسٹی کے اکنامکس کے شعبے میں داخلہ لینے والی یہ پہلی لڑکی تھیں۔ ان کی بڑی بہن صفیہ پہلے سے علی گڑھ میں تھیں۔ یہاں پردے کی بڑی پابندیاں تھیں۔ اس کے باوجود محبت کے دروازے کھلے تھے۔ یہیں ان کی ملاقات سالم سے ہوئی اور ذہنی قرب کے ساتھ جذباتی قرب بھی پیدا ہو گیا۔ لیکن جیسا کہ وہ لکھتی ہیں ان جذبات کا اظہار کبھی زبان سے، پرچہ بازیوں سے یا چوری چھپے ملاقاتوں سے نہیں ہوا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہو، نگاہیں جھک جاتی ہوں، یہ بات دوسری ہے۔ صفیہ کے توسط سے سالم سے ان کی ملاقات کلاس سے باہر ہو جاتی تھی۔ ریٹائر روم کے روشن دان سے کچھ گلاب کے پھول بھی گاہے بگاہے پھینک دیے جاتے تھے۔

’’شورشِ دوراں‘‘ میں ایک باب ’’ان مٹ نقوش‘‘ کے عنوان سے ہے۔ حمیدہ سالم لکھتی ہیں ’’یہ نقش اس گھر کے ہیں جس میں ہم بہن بھائی پیدا ہوئے۔ اس کنبے اور ماں باپ سے وابستہ یادوں کے ہیں جن کے زیر سایہ ہم نے پرورش پائی۔ ان بھائی بہنوں سے متعلق یادوں کے ہیں جنھوں نے ساتھ دیا بھی اور چھوڑا بھی۔ ان خوشیوں اور مسرتوں کے ہیں جو ہمارے حصے میں آئیں۔ ان غموں اور تکلیفوں کے ہیں جو ہماری قسمت میں تھیں۔‘‘

حمیدہ اپنے ابا کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ سنجیدہ اور متین قسم کے انسان تھے۔ علمی اور ادبی باتوں سے دلچسپی تھی۔ صوفیانہ رجحان رکھتے تھے۔ ماں ان پڑھ مگر تیز اور دنیاداری کے مسائل سے نمٹنے کا پورا سلیقہ رکھتی تھیں۔ خواہ گھرکے اندر کے مسائل ہوں یا باہر کے، وہ سیاہ و سفید کی مالک تھیں۔ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ایک بہن تھیں آپا، دوسرے نمبر پر جگن بھیا تھے یعنی اسرار الحق مجاز۔ ان کے بعد ایک بھائی انصار الحق، چوتھا نمبر صفیہ کا اور پانچویں یہ خود تھیں۔ حمیدہ کہتی ہیں میرے کنبے کا ذکر نامکمل رہ جائے گا اگر میں اپنے بھانجے یعنی بڑی بہن آپا کے بیٹے اِبو کا ذکر نہ کروں۔ ہماری عمر میں تھوڑا ہی فاصلہ تھا۔ ہم دونوں نے اپنے کو بھائی بہن ہی سمجھا اور ساتھ رہے۔

حمیدہ سالم علی گڑھ سے تعلیم مکمل کر کے نکلیں۔ لکھنو میں کرامت حسین کالج میں لیکچرار ہو گئیں۔ دس سال وہاں کام کیا۔ پانچ سال شادی سے پہلے پانچ سال بعد میں۔ انھوں نے 1945 میں کالج جوائن کیا تھا۔ آنے والے چند سال ملک اور ان کی زندگی کے لیے بہت ہی اہم ثابت ہوئے۔ 1947 میں ملک آزاد ہو گیا اور مسلمانوں نے پاکستان کا جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت بن گیا۔

اگلے سال سالم کے گھر والوں کی طرف سے حمیدہ کے لیے پیام آ گیا۔ وہی سالم جو ایم اے میں ان کے کلاس فیلو اور ان کے دوست تھے۔ حمیدہ کی ماں کی نگاہیں بہت تیز تھیں۔ وہ ان کی پسند سے واقف تھیں۔ بہن بھائیوں سے مشورہ لیا گیا اور رشتہ قبول کر لیا گیا۔ عزیزوں، رشتے داروں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ اس انتخاب میں ان کا کوئی دخل ہے۔

حمیدہ لکھتی ہیں ’’سالم علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے نمایاں اسٹوڈنٹس میں سے تھے۔ ذہین، پڑھائی میں بہت اچھے، وسیع المطالعہ کے شوقین۔ میری نظر میں اس وقت ایک خاموش، سنجیدہ اور شرمیلی شخصیت کے مالک۔ لیکن دھیرے دھیرے ان کی ایمانداری اور صاف گوئی نے ان کی زبان کو ایسی دھار دینی شروع کی کہ پوچھیے نہیں۔ کبھی کبھی تو دل آزاری کا لحاظ بھی نظر انداز ہو جاتا۔

حمیدہ کے لیے ہی نہیں ہر لڑکی کے لیے شادی سے بڑھ کر کوئی اور انقلابی قدم نہیں ہو سکتا۔ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نئے ماحول سے یگانگت پیدا کرنا، غیروں کو اپنانا، نئے رشتوں کو نبھانا، اجنبی ماحول سے ہم آہنگی پیدا کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔

وہ لکھتی ہیں ’’میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ شادی کے بعد ساتھ رہ کر دو زندگیوں کے نقشوں کو لائنوں کے پیچ و خم میں تبدیل کر کے ایک نقشے میں ڈھالنے میں اور کسی کو محض دوست کی حیثیت سے جاننے میں بہت بڑا فرق ہے۔‘‘

حمیدہ سالم کی شادی کے بعد کی زندگی کیسی گزری، کہاں کہاں رہے، کن کن جگہوں پر گئے، کیسے حالات سے واسطہ پڑا۔ کہاں کہاں نوکری کی، بچے ہوئے، ان کو بڑھتے، پھولتے پھلتے دیکھا۔ یہ ’’شورشِ دوراں‘‘ کے صفحات پڑھنے والوں کے منتظر ہیں۔

حمیدہ سالم کی دوسری کتاب ’’ہم ساتھ تھے‘‘ مجاز، انصار ہروانی اور صفیہ جان نثار اختر کے شخصی خاکے ہیں۔ ان تینوں نے شہرت حاصل کی۔ مجاز اور صفیہ جانثار اختر نے اردو شعر و ادب میں نام پیدا کیا لیکن انصار ہروانی جو بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے، ادب اور شاعری کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ انھیں کم عمری ہی سے سیاست میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ لڑکپن سے ترقی پسند اور آزاد خیال تھے۔ بالآخر وہ اور مجاز دونوں شراب نوشی کا شکار ہو گئے تھے۔

حمیدہ لکھتی ہیں ’’لگتا ہے کاتب تقدیر نے میرے ان دونوں بھائیوں کی تقدیریں ایک ہی قلم اور ایک ہی روشنائی سے لکھی تھیں۔ ابھرے، چمکے اور بجھ گئے۔ ایسا کیوں ہوا اور کیونکر ہوا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘

صفیہ کی پرورش ایک روایتی جاگیردار خاندان میں ہوئی تھی لیکن وہ غیر معمولی ذہین خاتون ہی نہیں بلکہ حیرت انگیز حد تک روشن خیال، ترقی پسند اور آزاد خیال تھیں وہ باقاعدہ ادیب نہیں تھیں لیکن ان کے خطوط کا مجموعہ ’’زیر لب‘‘ اور ان کی کتاب ’’حرف آشنا‘‘ اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہے۔

خلیق انجم کہتے ہیں ’’صفیہ نے راہ وفا پر جانے کتنی ٹھوکریں کھائیں، کتنی چوٹیں اٹھائیں لیکن کبھی ہمت نہ ہاری۔ وہ ہمیشہ تازہ دم رہیں۔ ان کے عزم، حوصلے، توانائی اور دوراندیشی کا ثبوت اردو کے مشہور اور ممتاز شاعر جاوید اختر ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔