ہزاروں سال قبل سالن کیسے پکایا جاتا تھا؟

میگزین رپورٹ  جمعرات 16 جنوری 2020
ماہرین چارہزاربرس پرانی تراکیب کی روشنی میں پرانے ذائقے کا حامل سالن پکانے کی کوشش کررہے ہیں

ماہرین چارہزاربرس پرانی تراکیب کی روشنی میں پرانے ذائقے کا حامل سالن پکانے کی کوشش کررہے ہیں

پکوانوں کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے والے مختلف ممالک کے سائنسدان، ذائقوں کے ماہرین اور پکوانوں کے قدیم ترین نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ آسان کام نہیں ہے کیونکہ سائنس دانوں کے ہاتھ لگنے والے ہزاروں برس پرانے نسخے بہت مختلف ہیں۔

مثال کے طور پر ’دنبے کا سٹو‘ پکانے کے لیے لکھا طریقہ محض اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی فہرست جیسا معلوم ہوتا ہے۔ ’گوشت استعمال ہوتا ہے۔ پانی تیار کیجیے۔ باریک دانوں والا نمک ڈالیے۔ سوکھا جْو ڈالیے۔ پیاز اور تھوڑا دودھ۔، پیاز اور لہسن کچل کر ڈالیں۔‘ تاہم اس طریقہ کار کو لکھنے والے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ کون سی چیز کب ڈالنی ہے؟ اسے لکھنے والا تو چار ہزار برس قبل انتقال کر چکا ہے۔

چند بین الاقوامی محققین، پکوانوں کی تاریخ کے ماہرین اور کھانا پکانے کے نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے چار قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ اسی طرح تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے گوڑکو بارڑامووچ کہتے ہیں ’یہ اسی طرح ہے جیسے کسی پرانے گانے کو دوبارہ بنانا۔ کوئی ایک نوٹ پوری دھن بدل سکتا ہے۔‘

یہ ترکیبیں تختیوں پر لکھی ہیں جو ییل یونیورسٹی کے محکمہ آثار قدیمہ میں بابل کی تہذیب کی کلیکشن سے حاصل کی گئی ہیں، تاکہ ذائقے کے ذریعے اس تہذیب کو بہتر سمجھا جا سکے۔ ان میں سے تین تختیاں 1730 قبل مسیح کی ہیں اور چوتھی ایک ہزار برس بعد کی ہے۔ چاروں تختیوں کا تعلق قدیم عراقی تہذیب سے ہے جن میں بابلی اور آشوریی تہذیبیں شامل ہیں۔ یہ علاقے اب عراق، شام اور ترکی میں آتے ہیں۔

پہلی تین تختیوں میں سالن والے تقریباً 25 پکوانوں میں استعمال ہونے والی چیزوں کا ذکر ہے۔ دو اور تختیوں پر مزید دس سالن کا ذکر ہے، جن کے ساتھ انھیں پکانے کے طریقے اور پیش کرنے کے مشورے بھی شامل ہیں لیکن وہ اتنی خراب حالت میں ہیں کہ انھیں پڑھنا ممکن نہیں ہے۔

ماہرین کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تاریخ کے اوراق میں قید ان ترکیبوں کو جدید دور کے مصالحے استعمال کرتے ہوئے ایسے تیار کیا جائے کہ اصل ذائقہ برقرار رہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی فوڈ کیمسٹ پیا سورینسن کہتی ہیں ’یہ نسخے زیادہ تفصیلی نہیں ہیں، بمشکل چار لائینوں میں ترکیبیں بتائی گئی ہیں۔ یعنی بہت کچھ تصوراتی ہے۔‘

پکوان تیار کرنے میں یورادو گونزالس ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ گونزالس کہتے ہیں ’چار ہزار برس قبل استعمال ہونے والی چیزیں اور حال ہی میں کھانا پکانے میں استعمال ہونے والی چیزیں ایک جیسی ہیں۔ گوشت کا ٹکڑا تو گوشت کا ٹکڑا ہے۔ کھانا پکانے کی سائنس آج بھی ویسی ہی ہے جیسے تب تھی۔‘ پکوان تیار کرنے میں وہ اسی بنیادی سائنس کا سہارا لے رہے ہیں۔

انسانی ذائقوں کے بارے میں سائنسدانوں کی معلومات، ان میں استعمال ہونے والی اشیا کے بارے میں معلومات اور مصالحوں کی مقدار کو معقول اندازے سے ایک ساتھ استعمال کر کے ان پکوانوں کو اصل ذائقے سے قریب ترین میں تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سورنسن نے بتایا کہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی بنیاد پر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پکوان کوئی سوپ تھا یا کچھ اور۔ زیادہ تر معاملوں میں یہ سالن ہیں۔

محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دنبے کے سٹو کا ابتدائی روپ ہے، جو آج بھی عراق میں مقبول ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تختیوں پر لکھی سبھی ڈشز کسی خاص مقصد کے لیے تیار کی جانے والی ڈشز ہیں، مثال کے طور پر ان میں ایک ڈش ’پشروتم‘ ہے جو کہ ایسا سوپ ہے جو زکام سے متاثرہ افراد کو راحت پہنچا سکتا ہے۔

برڑامووچ نے بتایا کہ فہرست میں دو بیرونی ممالک کے پکوان بھی شامل ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا تو اب بھی ہوتا ہے۔ جیسے لزانیا اور ہومس جیسی کھانے کی چیزیں اب دنیا بھر میں مقبول ہیں اور مختلف انداز میں کھائی جاتی ہیں۔

برڑامووچ کہتے ہیں ’ان چار ہزار برس پرانی تختیوں سے ان پکوانوں کے متعلق ایک جھلک ملتی ہے۔ کچھ پکوان ان کے اپنے ہیں اور کچھ پردیسی ہیں۔ جو پردیسی پکوان ہیں وہ برے نہیں، صرف مختلف ہیں۔‘

تختی پر لکھی ایک ڈش ’ایلامائٹ‘ سالن ہے جسے تیار کرنے میں گوشت کے ساتھ خون بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایسا اسلامی اور یہودی مذہب میں ممنوع ہے، لیکن اس ڈش کا جنم موجودہ ایران میں ہوا تھا۔ اس میں سووہ بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کا ذکر تختیوں میں کہیں اور نہیں ملتا لیکن یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ عراقی پکوانوں میں سووہ کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ تاہم ایرانی پکوانوں میں سووہ کا استعمال بہت عام ہے۔ برڑامووچ کہتے ہیں کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پکوانوں کا تہذیبوں کے درمیان تبادلہ قدیم دور سے جاری ہے۔

اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس دور میں بھی مختلف تہذیبوں کے درمیان کاروبار اور دوسروں کے طور طریقوں کی قدر کا جذبہ موجود تھا۔ یہ بھی پتا لگتا ہے کہ اس دور کے خانسامے بھی کسی خاص دعوت میں اپنے ہنر کی نمائش کے بارے میں سنجیدہ تھے۔

عراقی پکوانوں کی ماہر نوال نصراللہ نے بتایا کہ ایک پکوان ’چکن پوٹ پائی‘ جیسا لگتا ہے۔ اس میں بھی روٹی نما بیس پر بابلی سوس میں لپٹے پرندے کے گوشت کے ٹکڑے ہوتے تھے۔

قرون وسطی اور عرب پکوانوں کی محقق نوال نے قدیم تختیوں پر لکھے کھانا پکانے کے طریقہ کار کا جدید طریقوں سے تعلق سمجھنے میں مدد کی ہے۔

نوال کہتی ہیں ’آج عرب ممالک میں، خاص طور پر عراق میں ہمیں اپنی ’سٹفڈ ڈشز‘ پر فخر ہے۔ میں اس بات سے بہت متاثر ہوئی کہ کس طرح قدیم ڈشز موجودہ دور تک پہنچنے میں کامیاب رہیں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں ‘بہت سی باتیں قدیم دور میں جیسی تھیں ویسی ہی آج بھی ہیں، جیسا کہ ہم صرف نمک اور کالی مرچ نہیں استعمال کرتے، بلکہ ہم کئی اور مصالحے ڈالتے ہیں تاکہ خوشبو بھی اچھی ہو۔ ہم انھیں ایک ساتھ بھی نہیں ڈالتے، بلکہ پکانے کے ساتھ آہستہ آہستہ ڈالتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم شوربے کو ہلکی آنچ پر پکنے دیتے ہیں۔‘

نوال کہتی ہیں کہ اس دور میں دنبے کا سٹو جو کے آٹے کے روٹی جیسے ٹکڑے پکا کر انھیں کسی سالن میں بھگو کر کھایا جاتا تھا۔ لیکن ایسا تو آج بھی کیا جاتا ہے روٹی یا بریڈ کی شکل میں۔

محقیقین اور کھانے کے ماہرین کی کئی ماہ کی محنت اور کئی بار ناکام ہونے کے بعد ایک لذیذ سالن تیار ہوا۔ ایک خاص پودے کی پتیوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ پتیاں سالن میں ہلکی سی کھٹاس پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوئیں لیکن اس کی زیادہ مقدار یا اسے صحیح موقع پر نہ ڈالنے سے ڈش بدمزہ بھی ہو سکتی ہے۔

نوال کو اس بات نے بھی حیران کیا کہ عراق میں آج کھانے پینے میں جو پکوان مشہور ہیں انھی کا کوئی روپ قدیم دور میں بھی پسند کیا جاتا تھا کیوں کہ وہاں آج بھی سالن اور چاول سب سے عام پکوان ہے۔

اس دور میں بھی کھانا پکانے کے چند اصول تھے جو کھانے کو نفیس بنانے کے لیے ضروری تھے۔ کسے پتہ کہ انھوں نے ان طریقوں کو کب اپنایا ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔