سقے سِکے نظام کالانعام اور کھالیں

سعد اللہ جان برق  جمعـء 17 جنوری 2020
barq@email.com

[email protected]

جب سے ہمارا تعلق (جائز بھی اور ناجائز بھی) اس کم بخت دل سخت دل کو لخت لخت کرنے والے ’’سکے‘‘ سے رہا ہے۔ ہم اس سوچ میں مبتلا ہیں، حیران ہیں، پریشان ہیں کہ آخر اس ’’سکے‘‘ کا لفظ کہاں سے آیا ہے، اس کے ماں باپ بھائی بہن اور اگلے پچھلے کون ہیں۔ اور آخر یہ ’’سکہ‘‘ کیوں ہے، ہکا یابکا یا کچھ اور کیوں نہیں ہے۔

اردو زبان بھی وہ ’’پیٹو‘‘ بھینس ہے کہ جہاں بھی کچھ ملتا ہے نگل لیتی ہے بلکہ نگل لیتی ہے، جگالی بعد میں کرتی ہے اس لیے ایک محقق وہ بھی نہایت ہی معتبر باخبر اور نامور ’’اداروں‘‘ کا ثقہ اور مستند ہونے کے ناتے ہمیں پتہ لگانا چاہیے کہ آخر لفظ ’’سکے‘‘ کے ماں باپ کون ہیں۔ قرب و جوار کی زبانوں کو چھانا تو صرف پشتو میں ایک لفظ ’’سیکہ‘‘ ملا جو ’’سیسے‘‘ کو کہتے ہیں لیکن ’’سکے‘‘ نہ کبھی سیسے کے بنے ہیں نہ بن سکتے ہیں۔

ایک اور لفظ سیکہ کے معنی کسی شخص کے رعب داب اور ذاتی وقار و دبدبے کو کہتے ہیں جیسے فلاں بڑا سیکے والا آدمی ہے۔ رہ جاتا ہے عربی کا ’’ثقہ‘‘ (وزن دار) یہ کچھ کچھ ’’سکے‘‘ سے قربت رکھتا ہے لیکن کچھ زیادہ جچتا نہیں۔ آخر ہم نے تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کر کے اس سکہ پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ تب اچانک گوہر مقصود ہاتھ لگ گیا۔

تاریخ میں ایک نظام ’’سقے‘‘ کا سراغ ملا جس نے مغل بادشاہ ہمایوں کو مستقل ڈوبنے سے بچا کر اس پر تو احسان کیا تھا لیکن ساری خلق خدا کی مستقل پریشانی کا سامان کر دیا تھا۔ بدلے میں اسے ڈیڑھ دن یا سوا دن یا پونے دو دن حکومت کرنے کا موقع دیا گیا اور اس نے اپنی ’’مشک‘‘ جو کسی بے زبان جانور کی کھال سے بنی تھی، اس کا احترام بصد اکرام اندر عوام بحال کرتے ہوئے چمڑے کے ’’سکے‘‘ ایجاد کر لیے تھے اور آیندہ کے لیے تمام انعاموں اور کالانعاموں کی کھالوں اور چمڑے کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

یہ بات ہماری تحقیق کے ترازو پر ہر لحاظ سے پوری اترتی تھی کیونکہ ’’سکے‘‘ چاہے کسی بھی چیز کے بنے ہوں سونے پیتل چاندی لوہے تانبے یا کاغذ کے، ان کا اصل سرچشمہ انعاموں اور کالانعاموں کی کھال ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’نظام سقہ‘‘ اس عالم کا سب سے بڑا موجد تھا۔ کمال کا آدمی بلکہ ’’سقہ‘‘ تھا جو بجا طور پر جینئس موجد اعظم اور دانشور کبیر کہلانے کا مستحق ہے ۔کیا کمال کا ’’آئیڈیا‘‘ حکومتوں کو دے گیا ہے۔

میکاولی اور چانکیہ کا تو بس نام ہی نام ہے ،کام تو نظام واجب الاحترام نے دکھایا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی دل کو لگتی ہے کہ ’’سقہ‘‘ خاندان ہمیشہ سے بڑا ’’سقہ‘‘ خاندان رہاہے، شعر و ادب کی دنیا میں کسی بھی زبان کا شعر و ادب اٹھایے آپ کو ’’ساقی‘‘ کا تذکرہ بلکہ تعریف ضرور ملے گی، بڑے بڑے شعراء کبراء اور روسا و امراء اس کے آگے ہاتھ جوڑے نظرآئیں گے اور تو اور کہ یزید جیسا نامعقول اور گمراہ شخص بھی یہ کہتا ہوا نظرآتاہے کہ

آدر کاساً و ناولیاالا یا ایھا ساقی

جسے حافظ شیراز بھی نہ صرف فالو کرتا ہے بلکہ اپنے دیوان کا آغاز اس سے کرتا ہے لیکن تھوڑا سا الٹ پلٹ کر:

الایا ایھا الساقی آدر کاساً و ناولیا

کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا

مطلب یہ کہ سقا، سقاوت سقاوہ سقہ وغیرہ انتہائی اہمیت کا اور جد بہ جد اہم ترین ہستیوں کا خاندان رہا ہے جس کے شاہ بھی محتاج ہیں اور گدا بھی۔ گدا گر ہیں:

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

یہ سب کچھ اپنی جگہ ساقی بھی سقہ بھی اور سقا بھی۔ لیکن اپنی کوتاہ بینی کا اعتراف تو ہم نے ابھی کیا ہی نہیں۔ ایک طرح گویا وہ بات ہو گئی کہ ’’لڑکابغل میں اور ڈھنڈورہ شہر میں‘‘۔

’’نظام‘‘ بھی ہمارے سامنے تھا، سکے سقے بھی اور چمڑے کے ’’سکے‘‘ بھی اور ہم یہاں وہاں ڈھونڈ رہے تھے۔ خواہ مخواہ اپنے ٹٹوئے تحقیق کو دوڑا رہے تھے اور اپنے ڈگری دینے والے اداروں اور اکیڈمیوں کو رسوا کر رہے ہیں۔ یہ سامنے جو اخباروں میں اشتہاروں اینکروں تھنکروں میں دانا دانشوروں میں یہاں وہاں جہاں جہاں نہ جانے کہاں کہاں یہ جو نظام نظام اور سکہ سکہ کہا جا رہا ہے، یہ کیا ہے وہی نظام وہی سقے اور وہی سکے ہی تو ہیں بلکہ وہ کالانعام بھی جن کی کھالوں سے دھڑا دھڑ ’’سکے‘‘ بنائے اور چلائے جا رہے ہیں بلکہ ہماری عقل پر اتنے پتھر پڑے تھے، یہ جوہر ’’موسم کھال‘‘ میں یہاں وہاں کھالیں کھالوں کے مستحق کھالوں کے حقدار نظر آتے ہیں تویہ سب کچھ بھی تو اس نظام اور سقوں سکوں کی بدولت ہے۔

قربانی خدا کے لیے اور کھال شفقت فلاں کے لیے۔ ہم نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ آخر قربانی میں تو ’’گوشت‘‘ بھی ہوتا ہے جو بظاہر کھالوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی لوگ صرف کھالیں ہی کھالیں مانگ رہے ہیں ۔کیوں؟۔ یہ تو اب سمجھ میں آیا کہ گوشت تو ایک وقتی استعمال کی چیز ہے لیکن ’’کھال‘‘ تو آل ان آل یعنی سکوں کی ٹکسال ہوتی ہے، یہ بھی ہم سے نہ دیکھا جا سکا۔ حکومت نے مہنگائی اور سرکاری محکموں کو یہ بڑی بڑی چھریاں دے کر کالانعاموں پر چھوڑنے کا یہ فول پروف ’’نظام‘‘ کیوں بنایا ہوا ہے۔

سکے، سقے نظام اور کالانعام۔ نتیجہ ’’دام‘‘ بلکہ ’’عام‘‘ کے ’’عام‘‘ اور کھالوں کے دام۔ لوگ کہتے ہیں اور بالکل غلط کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں یہ جو قرض بلکہ سود کی ’’مے‘‘ پی پی کر اور پلا پلا کر اچھا نہیں کر رہی ہیں لیکن سرا سر غلط کہہ رہے ہیں جن کے پاس اتنے زیادہ کالانعام ہوں اور ان کی کھالیں عام ہوں مدام ہوں اور ناتمام ہوں ان کو کیا ڈرنا۔ عربوں کے تیل کے کنوئیں خشک ہو سکتے ہیں، ملایشیا کاپام آئل ختم ہو سکتا ہے، چین جاپان کی صنعتیں ختم ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کا فروٹ سڑ سکتا ہے لیکن اپنے ہاں کھالیں کھالوں کے سقے اور سقوں کے سکے کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ نظام کالانعام سقے اور سکے زندہ باد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔