24 کروڑ عوام کا تاریخی احتجاج

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 17 جنوری 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جوکئی مذاہب ، رنگ ، نسل، زبان اور قومیتوں میں بٹا ہوا ہے اور یہ تقسیم بہت گہری ہے، اسے حکمران طبقات اور اشرافیہ اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر اور گہری ہی نہیں بلکہ متعصب بھی بنا دی گئی ہے۔

ویسے تو بھارت میں مذہب کے حوالے سے تعصبات بھارت کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی موجود ہیں لیکن موجودہ حکومت کے سربراہ نریندر مودی جب سے برسر اقتدار آئے ہیں ،کھلے عام ہندو توا کا پرچارکر کے عوام کے ذہنوں کو مسموم کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں مودی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف شہریت بل کے نام پر سیاسی استحصال کا ایک چکر چلا دیا۔ شہریت بل مودی کی بد نامی اور تباہی کا ذریعہ بن گیا۔

سارے بھارت میں اس معاندانہ بل کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا، بھارتی عوام خاص طور پر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام قابل مبارکباد ہیں کہ اس متعصبانہ بل کے خلاف احتجاج میں مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو گئے۔ دلی کی جواہر لال یونیورسٹی کے طلبا نے تو اس متعصبانہ بل کے خلاف دھرنا دے دیا اور دھرنے پر بیٹھنے والے طلبا سے اظہار یکجہتی کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے جس میں معروف فلمسٹار بھی شامل ہیں جواہر لال نہرو یونیورسٹی پہنچ کر دھرنا ہڑتال پر بیٹھے ہوئے طلبا سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔

مودی کے نامنصفانہ بل کے خلاف بھارت کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کی گئی، جس میں 24 کروڑ بھارتی عوام نے بلاتفریق مذہب و ملت شرکت کی۔ یہ دنیا کی تاریخ کی ایک بڑی ہڑتال ہے اور اس کی اہمیت و انفرادیت یہ ہے کہ اس ہڑتال میں ہر مذہب و ملت ، ہر زبان، ہر نسل کے لوگ شامل ہیں جب کہ شہریت بل مسلمانوں کے خلاف لایا گیا ہے۔

یہ ہڑتال نہیں بلکہ بھارتی عوام کی یکجہتی کا ایسا شاہکار ہے جس کی دنیا بھر میں مثال نہیں مل سکتی۔ بی جے پی اور مودی بھارت کو ایک کٹر ہندو ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس فاشسٹ انتہا پسند ہندو اقدام کے جواب میں بھارت کے 24 کروڑ عوام نے ہڑتال کر کے مودی کی سازش کو ناکام بنا کر دنیا کو یہ بتا دیا کہ بھارت ایک ہندو ریاست نہیں بلکہ ایک سیکولر ملک ہے۔

شہریت بل کے خلاف 24 کروڑ عوام کا احتجاج کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے، اب بھارت میں رہنے والے سیکولر حلقوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس ہڑتال کے محرکات کو مضبوط و مستحکم بنا کر ایک مضبوط سیکولر بھارت کو دنیا بھر میں متعارف کرائیں، بھارت کے مذہبی انتہا پسندوں کے سرغنے نریندر مودی کی انسان دشمن سازش کے 24 کروڑ عوام نے پرخچے اڑا دیے۔

مودی ٹولہ اپنی سازش کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر بدحواس بھی ہے مایوس بھی ہے۔تقسیم ہند کے موقع پر 1947میں مودی ذہنیت کے حامیوں نے لاکھوں بے گناہوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کر کے برصغیرکی دو بڑی قوموں کے درمیان جو نفرت کے پہاڑ کھڑے کر دیے تھے، انھیں ترقی پسند انسان دوست اہل قلم نے زمین دوز کر کے تقسیم کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش بلکہ کامیاب کوشش کی تھی، لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں نے اس بجھتی آگ کو ہوا دے کر انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی کوششیں کرتے رہے اور کسی حد تک اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب بھی رہے، لیکن انسان دوستی اور بھائی چارے کی فکر ہمیشہ نفرت کی سیاست پر غالب آتی رہی اور آیندہ بھی یہی ہوتا رہے گا۔

ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں،جو سائنس ٹیکنالوجی جدید علوم اور تحقیق کی صدی ہے۔ انسان چاند پر ہو آیا ہے، اب مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ انسانی کاوشوں نے ہر شعبہ زندگی کو جدید تحقیق اور اس کے ناقابل یقین ثمرات سے منور کر دیا ہے لیکن ایک طرف نریندر مودی اس دنیا کو جہنم بنانے کی سازش کر رہا ہے تو دوسری طرف ٹرمپ ہر طرف جنگوں کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے لیکن یہ اور اس قسم کے لوگ فطرتاً چونکہ انسان دشمن ہیں لہٰذا انھیں ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

مودی نے شہریت بل کے نام پر نفرتوں کی جو آگ جلائی ہے، اب وہ آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی ہے۔ شہریت بل ایک نفرتوں کا پلندہ ہے، جس کے خلاف آسام سے دہلی تک عوام سڑکوں پر کھڑے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے دہلی کی نہرو یونیورسٹی کے طلبا پیش پیش ہیں۔ طلبا دہلی میں لانگ مارچ کر رہے تھے کہ پولیس نے طلبا پر سخت لاٹھی چارج کیا۔ آسام میں بھارت، سری لنکا ٹی 20 میچ کے دوران میدان حکومت مخالف نعروں سے گونج اٹھا۔ عوام نے اس موقعے پر کشمیر کی آزادی کے پوسٹر بھی لہرائے۔ ایوان صدر کی طرف جانے والے طلبا پر سخت لاٹھی چارج کیا جس سے کئی طلبا زخمی ہوئے۔

حکومت کی اس بربریت کے خلاف مشہور فلمسٹاروں سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اکابرین نے نہرو یونیورسٹی آ کر طلبا سے اظہار یکجہتی کیا۔ شہریت بل کی آگ اب پورے بھارت میں پھیل چکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تعصبات کے مخالفین باہر نکل آئیں اور شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مل کر بھارت میں سر اٹھاتی مذہبی انتہا پسندی کا سرکچلنے کی کوشش کریں۔ یہ بھارت کے مستقبل کا سوال ہے ایک طرف متعصب مذہبی انتہا پسند ہیں دوسری طرف ترقی پسند عوام ہیں جو بھارت کو بھارتی عوام کے لیے ایک غیر متعصب سیکولر ملک بنانا چاہتے ہیں۔

آر ایس ایس کی تاریخ اور جنم مذہبی انتہا پسندی سے مسموم ہے بھارت کے عوام مذہبی تعصبات سے دور ہیں اور ایک سیکولر معاشرے کی تشکیل کے خواہش مند ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت میں مسلمان ہندو لڑکیوں سے رشتے جوڑتے ہیں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہندو نوجوان لڑکے مذہبی تفاوت سے بالاتر ہو کر زندگی کے ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ طریقہ کار بھارت پاکستان جیسے ملکوں میں قابل اعتراض ہو لیکن ساری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ معاشروں میں یہ نہ حیرت کی بات ہے نہ قابل اعتراض۔ بھارت اور پاکستان کا شمار چونکہ پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے لہٰذا یہاں اس قسم کے تعصبات نہ حیرت انگیز ہیں نہ پریشان کن۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے جائیں گے۔

انسان خواہ اس کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو آدم کی اولاد ہے، اس حوالے سے دنیا بھر کے انسان بھائی بھائی ہیں، بھائیوں کے بیچ میں تعصبات کی دراڑیں ڈالنے والے نفرتوں کے بیج بونے والے کبھی نہ انسان ہو سکتے ہیں نہ انسان دوست۔ بھارت ایک نازک مقام پر کھڑا ہے جہاں سے وہ ایک بھائی چارے پر مبنی کلچر کو اپنانا چاہتا ہے ایسے وقت مودی مہاراج شہریت بل جیسی نفرتیں پیدا کرنے والے اقدامات کرتے ہیں تو پھر انھیں 24 کروڑ ’’انسانوں‘‘ کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔