بھارت کی بدنیتی پورے خطے کو تباہی سے دوچار کر سکتی ہے

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 19 جنوری 2020
اقتصادی نو آبادیاتی نظام کے تناظر میں بڑی عالمی قوتوں کے مفادات کا ٹکراؤ بدستور جاری ہے، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ

اقتصادی نو آبادیاتی نظام کے تناظر میں بڑی عالمی قوتوں کے مفادات کا ٹکراؤ بدستور جاری ہے، پاک بھارت عسکری تصادم کی تاریخ

(آخری قسط)

ہمارے ہاں25 سا ل مکمل ہونے پر سلورجوبلی، 50 سال مکمل ہونے پرگولڈن جوبلی، 75 سال مکمل ہو نے پر ڈائمنڈ جوبلی اور 100 سال مکمل ہونے پر پلاٹینیم جوبلی منائی جاتی ہے۔ آج پاکستان اور بھارت کو آزاد ہوئے 72 برس ہو چکے ہیں اور تین برس بعد پاکستان اور بھارت آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منائیں گے۔ بنگلہ دیش کو قائم ہوئے 48 سال ہو چکے ہیں اور دو سال بعد بنگلہ دیش اپنے قیام کی گو لڈن جوبلی   منائے گا اور  2019 میں افغانستان نے آزادی کی پلاٹینیم جوبلی منائی ۔

اِن چاروں ملکوں کا ذکر اس حوالے سے ایک ساتھ ضروری ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ چاروں ملک ایک خطے اور ملک کے طور پر مختلف سلطنتوں کے تحت رہے ہیں، کوہ ہمالیہ ، ساگر ماتا، سے بحیرہ ِعرب ،خلیج فارس، خلیج بنگال اور بحرِہند سے اس پورے خطے کے ماحولیاتی نظام مربوط ہیں اور اس فطرتی ماحولیاتی فضا نے تاریخی ارتقائی عمل کے ساتھ نسلی، لسانی، ثقافتی، تمدنی اور مذہبی اعتبار سے اس خطے میں ٹکراؤ بھی پیدا کئے اور بناؤ بھی پیدا کئے۔ یہاں رشید احمد صدیقی کے مشہور جملے کا حوالہ ضروری ہے کہ ، مغلیہ عہد نے ہندوستان کو تین چیزیں دیںاردو زبان، تاج محل اور غالب، بس یہاں اضافہ یہ ضروری ہے کہ وقت کے سمندر نے یہ تینوں چیزیں اگرچہ گوہر ِنایاب کی طرح اپنی موجوں سے مغلیہ دور میں ساحل پر اچھال دیں لیکن ان کی پرورش بلوچستان کی دس ہزار سالہ قدیم تہذیب مہرگڑھ، پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیبوں موہنجوداڑو ہڑپہ اور پھر ٹیکسلا اوراشوک اعظم سے ہوتی ہوئی اکبر اعظم ، شاہجہان اور غالب تک پہنچی۔

اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزوں کی آمد کے بعد جدید نظام ِ تعلیم سمیت صنعت، تجارت،دفاع، پارلیمانی سیاست اور طرزِ حکومت سمیت تمام شعبوں میں انگریزوں نے بھی اس خطے پرگہر ے اثرات مرتب کئے، یہ اثرات مثبت انداز کے بھی ہیں اور منفی انداز کے بھی، جہاں تک تعلق مثبت انداز کا ہے تو انگریز کی وجہ سے یہاں ریلوے لائنوں کا جال بچھایا گیا نہر ی نظام کو ڈیمز اور بیراج بنا کر جدید اور دنیا کا سب بڑا نہری نظام بنایا گیا، بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج غرض جدید زمانے سے ہندوستان کو ہم آہنگ کیا گیا اور منفی اثرات یہ کہ نہ صرف سیاسی نوآبادیاتی زمانے میں ہندوستان کو دونوں ہا تھوں سے لُوٹا گیا بلکہ اب تک اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے تحت اِن پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش اور افغانستان چاروں ملکوں سے سر مایہ مغرب منتقل ہوتا ہے اور بڑی قوتوں کے مفادات کا یہاں اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے تناظر میں ٹکر اؤ جاری ہے۔

10 دسمبر 2019 کو پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کو شائع کیا ہے جس میں افغان جنگ میں امریکہ کے جھوٹ کو خفیہ دستاویزات کے ملنے پر سامنے لا یا گیا ہے، اس جنگ سے متعلق غلط ڈیٹا اور اطلاعات پھیلائی گئیں، جنرل ڈگلس لیوٹ کے حوالے سے یہاں تک کہا گیا کہ وہ افغانستان کی بنیادی سوجھ بوجھ سے ہی عاری تھے، جنگجووں کے پے رول پر ہو نے کے انکشافات بھی کئے گئے، واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 28 نومبر 2019 کو خفیہ دورے پر افغانستان پہنچے اور اس کے بار ے میں اُس وقت پتہ چلا جب وہ یہاں تقریباً اٹھارہ گھنٹے قیام کے بعد روانہ ہو رہے تھے تو وائٹ ہاوس کے پریس سیکرٹری اسٹیفن   Stephanie نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا خفیہ دورہ ِ افغانستان Thanks giving تھینکس گیونگ کے دن کے موقع پر افغانستان میں متعین فوجیوں کو سپورٹ کر نے کے لیے تھا،انہوں نے طالبان سے بحالی امن کے مذاکرات بارے میں کہا کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے لیکن پھر تین چار دن بعد ہی مثبت اشارے بھی ملے، تھینکس گیون ڈے کو منانے کا سلسلہ صدر جارج واشنگٹن نے شروع کیا تھا، جو فصلوں کی کٹائی اور ریڈ انڈین کو اپنانے کے اعتبار سے بھی اہم قرار دیا جاتا ہے۔

یہ دن ہر سال نومبر کی آخری جمعرات کو منایا جاتا ہے اور صدر ٹرمپ بظاہر اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خفیہ طور پر افغانستان پہنچے اور پھر اُن سے خطاب کیا اِس موقع پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی خطاب کیا۔ دوسرے روز سوشل میڈیا پر اشرف غنی کی وہ تصویر عام تھی جس میں وہ جب صدر ٹرمپ سے ملا قات کے لیے بڈگرام پہنچے ہیں تو اپنے ہی وطن میں امریکی فوجیوں کو جامہ تلاشی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی آپریشن کو 18 سال ہو چکے ہیں جو امریکہ کی جانب سے کسی ملک میں کیا جانے والا طویل ترین آپریشن ہے اور اب امریکی عوام کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن ویتنام جیسی صورتحال ابھی تک نہیں ہے اس کی ایک بنیادی وجہ امریکہ کی سپر ٹیکنالوجی ہے جس کی وجہ سے امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں کم ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ امریکی فوجی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہیں اور یہاں اِن کی خودکشیوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کے اخراجات میں اربوں ڈالر سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں اب 1919 سے 2019 سو سال پورے ہو نے پرافغانستان کی پلاٹینیم جوبلی کے وقت امریکہ کے صدر نے افغانستان کا دورہ کیا ہے تو وہ افغانستان کی پلا ٹینیم جوبلی منانے نہیں آئے بلکہ امریکی فوجیوںکے ساتھ تھینکس گیونگ منانے آئے تھے، لیکن اللہ کرے کہ اب اگر کوئی امریکی صدر افغانستان کا دورہ کرے تو اُسے وہاں اپنے فوجیوں سے خطاب نہ کرنا پڑے، افغان صدر اُسے خوش آمدید کہے اور دونوں صدور کو اپنی جان کا خطرہ نہ ہو اور افغان امن کے ساتھ اپنے ملک کے مالک ہوں اور کوئی ملک اِن کے ملک میں مداخلت نہ کرے۔

جہاں تک تعلق پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا ہے تو یہ تینوں ملک 14،15 اگست 1947 تک ایک تھے اور اگر کانگریس 1916 کے قائد اعظم کے فارمولے کے تحت ہونے والے میثاق ِ لکھنو کو1928کی نہرورپورٹ سے یک طرفہ طور پر مسترد نہ کرتی تو مشترکہ ہند وستان ہندو مسلم اوّ ل اور دوئم اکثریت کی بنیاد پر اپنے مخصوص سیاسی سماجی ثقافتی تمدنی مذہبی حقائق کے تسلیم شدہ اصولوں کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کی صورت میں شائد دوسری عالمی جنگ سے پہلے ہی آزاد ہو چکا ہوتا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی ہندو قیادت نے اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کی دوسری اکثریت یعنی مسلمانوں کو مغلوب رکھ کر اُن کی مذہبی ، تہذیبی ثقافتی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ مسلمان ہندوستان کے جن علاقوں میں اکثریت میں تھے اُن پر مشتمل نئے اور آزاد ملک پاکستان کے لیے جدوجہد کر یں۔

آج جب بھارت اپنے آئین سے 370 آرٹیکل اور 35 کی دفعہ کو حدف کر چکا ہے اور کشمیر میں 150 دن سے زیادہ عرصے سے کرفیو نافذ ہے اور 10دسمبر 2019 کو بھارت میں شہریت کے حقوق کے اعتبار سے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سے صرف مسلمانوں کے لیے پابند ی عائد کی ہے تو قائد اعظم کی بات بالکل سچی ثابت ہو گئی ہے۔ جنہوں نے کہا تھا کہ آج قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے اپنی ساریعمر ہندؤں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے گزریں گی۔ پاکستان اور بھارت کی آزادی پر Freedom at midnight آزادی ء نیم شب کے نام سے فرانسیسی نژاد مصنفین لاری کلنز اور ڈومنک لایپرے کی نہایت مشہور کتاب ہے جس کے کئی زبانوں میں سینکڑوں ایڈ یشن شائع ہو چکے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ جناح کو مطالبہ پاکستان سے روکنے کی کوشش کرتے ہو ئے وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے کچھ کہا توقائد اعظم نے جواب دیا کہ اب ہندوستان کا مسئلہ مفاہمت سے بہت دور جا چکا ہے اب مسئلے کا حل ایک بار آپریشن ہے، وائسرائے پھر بولے کہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بہت خونریزی ہو گی تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ ایک بار آپریشن ہو جائے گا تو پھر ساری تکلیف دور ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ اس تقسیم کے وقت لارڈ ماوئنٹ بیٹن کی ریاست کشمیر کے بھارت سے الحاق پر دستخط کرنے کی جانبداری اور ریڈکلف کی بد دیانتی سے مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دینے کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ کے قریب افراد جان سے گئے تھے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں دونوں جانب سے ایک کروڑ افراد سے زیادہ نے ہجرت کی تھی۔ اُس وقت برصغیر یعنی بنگلہ دیش، پاکستان ، بھارت تینوں ملکوں کی کل آبادی چالیس کروڑ تھی، اور اگر آج جب پاک بھارت ڈائمنڈ جوبلی اور بنگلہ دیش گولڈن جوبلی کے نزدیک ہے توآبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت ہے، پانچویں نمبر پر پاکستان ہے اور آٹھویں نمبر بنگلہ دیش ہے اور اِن تینوں کی مجموعی آبادی،ایک ارب 75 کروڑ ہے جس میں سے تقریباً 58 کروڑ مسلمان ہیں، اور اس وقت بھارت میں سیکولر مزاج کانگریس کی حکومت بھی نہیں تو جو صورتحال اس وقت بھارت میں ہے وہ پورے برصغیر میں ہوتی اور اگر آج تقسیم ہند ہوتی تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنی خونریزی ہوتی اور اِن 72 برسوں میں مسلمانوں کا کیا حال ہو گیا ہوتا۔

1971 میں بنگلہ دیش بن گیا تو بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا ’’ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے‘‘ لیکن یہی سب سے بڑا تضاد ہے،کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام اور سیاسی پارٹی کی بنیاد پر دوقومی نظریے کی جد وجہد بنگال ہی سے شروع ہوئی تھی جب 1905 میں انگریزوں نے بنگال کو بڑی آباد ی اور بڑے رقبے کا صوبہ قرار دیتے ہوئے یہاں انتظامی معاملات بہتر کرنے کی غرض سے مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا تھا جس پر 1885 میں قائم ہو نے والی آل انڈیا کانگریس نے ملک گیر احتجاج شروع کیا۔ مشرقی بنگال 1947 تا1971 تک کا مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلہ دیش ہے۔

اُس وقت مشرقی بنگال کے قیام سے مسلمانوں کو فائدہ تھا یوں ہندو تنگ نظری کے ردعمل میں ڈھاکہ میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی جانب سے شکو ے اور شکایات میں ہماری سیاسی اقتصادی غلطیاں تھیں اور 1970میں ہونے والے عام انتخابات تو ہماری پارلیمانی جمہورت کے پہلے انتخابات تھے جس میں جس عجلت سے بھارت نے فوجی مداخلت کی اُس کی نظیر دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک نہیں ملتی، جہاں تک سوال مشرقی پاکستان کے بننے کا ہے تو حسین شہید سہروردی سمیت کئی بنگالی لیڈر 1947 میں یہ چاہتے تھے کہ بنگال تقسیم نہ ہو لیکن1941 کی مردم شماری میں مشترکہ بنگال کی کل آبادی 60306525 میں سے مسلمانوں کی آبادی 33005434 یعنی 54.73% تھی اور 1937 سے 1947 تک مشترکہ بنگال کے صوبائی وزراء اعظم الملٰی بنگالی ہی رہے تھے لیکن بنگال کو تقسیم کیا گیا۔

اُس وقت خود گاندھی اور نہرو نے اپنے سیکولر نظریات سے انحراف کرتے ہوئے ہندوازم کو مدنظر رکھا تھا اور بنگالی مسلم اور ہندو قوم پرستوں اور اشتراکی نظریات رکھنے والوں کے سامنے ہندو ازم کو ترجیح دی تھی۔ یہ  1905 کے بعد کانگریس کے نظریات کی تبدیلی تھی یا ہندو تنگ نظری ؟ اب جہاں تک دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں پھینکنے کی بات ہے تو نریندر مودی نے گذشتہ سال ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استقبالیہ خطاب کے بعد بڑے فخر سے ’’فرمایا‘‘ تھا کہ اگر بھارتی فوج دسمبر1971 میں پوری قوت سے پاکستان پر حملہ نہ کرتی تو بنگلہ دیش آزاد نہ ہوتا، انہوں نے مکتی باہنی کو ٹرینڈ کر نے کا بھی اعتراف کیا، پھر دسمبر1971 میں پاکستان کا بھارت سے کوئی تنازعہ بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ 1965 کی جنگ میں مقبوضہ کشمیر اور پنجاب اور سند ھ سرحد کے نزدیک بھارتی علاقے جن پر پا کستان نے قبضہ کیا تھا وہ بھی تاشقند کے معاہدے میں پاکستان نے واپس کر دیئے تھے اس کے باوجود 1971 میں جب پا کستان انتہا ئی سیاسی بحران کا شکار تھا تو بھارت نے مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ مغربی پا کستان پر بھی پوری قوت سے حملہ کیا تھا۔

یہاں دوقومی نظریے کے خلاف اگر اندرا گاندھی نے بات کی تو کیا بھارتی مغربی بنگال سے بنگالی نیشنل ازم کی کوئی تحریک اُٹھی جو بنگال کے دونوں حصوں کو مشترک کر کے ایک بنگلہ دیش بنا سکتی جو بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت کو دینِ اسلام چھوڑ کر بنگالی نیشنل ازم کی جانب راغب کر دیا اور اسلامی تشخیص کا یہی خوف ہے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد 80، 80 سال کے بوڑھوں کو 1971 میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی کی سزا دے چکی ہے، وہ بھی بنگالی تھے ۔

یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان کے حقوق کے اعتبار سے غلطیاں ہم سے سرزد ہوئیںاور بھارت نے بہت مکاری اور عیاری سے اُس موقع سے فائد ہ اٹھایا اور اس کے بعد پاکستا ن کو بھی کئی ایسے مواقع ملے مگر پاکستان کے رہنما ایسے مواقع سے جرات مندانہ انداز میں فا ئد ہ نہ اٹھا سکے۔ اب جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے تو 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستان ہی تھا جس نے بنگلہ دیش کو فوراً اس لیے تسلیم کیا کہ پاکستان اگر ایسا نہ کرتا تو بھارت اسے اپنی نو آبادی بنا کر استعمال کرتا۔ واضح رہے کہ اُس وقت تک اس مسئلے پر چین کی ویٹو پاور پا کستان کے ساتھ تھی۔

بنگلہ دیش 16 دسمبر2021 میں اپنے قیام کے 50 سال پو رے ہو نے پر گولڈن جوبلی منائے گا، وہ اپنے آئین کے مطابق جمہوریہ بنگلہ دیش ہے۔ مسلم اکثریت کی ایک سیکولر اسٹیٹ ایک ایسی ریاست جس نے 1906 میں مسلم لیگ کی بنیاد اس لیے رکھی تھی کہ بنگال کی تقسیم سے مسلم اکثریت کو جو سیاسی اقتصادی فا ئدہ پہنچ رہا تھا ہندو اکثریت اُس کے خلاف تھی اور اب اُسی ملک میں ہندو انتہا پسند حکومت نہ صرف کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت پر ظلم کے پہاڑ تو ڑ رہی ہے بلکہ 10 دسمبر 2019 کو بھارت نے بھارتی شہریت کے حصول کے لیے دنیا کے تمام ملکوں سے آنے والوں پر اگر شرط عائد کی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ مسلمان نہ ہو ں۔ بنگلہ دیش سے بھارت کے تعلقات شیخ حسینہ واجد کے دور میں بہت مثالی رہے ہیں مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب بھارت سے سرحدی تنازعات رہے اور اب بھی اگر چہ حسینہ واجد کی وجہ سے بنگلہ دیش حکومت کی کوشش یہی رہتی ہے کہ بھارت سے تعلقات بہت خو شگوار رہیں۔ اکتوبر 2019 کے آغاز میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے دہلی کا دور ہ کیا تھا مگر بھارت جو علاقے میں اپنی چوہدراہٹ کا ہمیشہ کھلم کھلا مظاہرہ کرتا ہے اس دورے کے فوراً بعد پھر بھارت نے ایسا ہی کیا۔

رائٹر کے نمائندے روما پال سوبراتا ناگ چوہدری کی 17 اکتوبر2019 کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی باڈر سکیورٹی فورس نے ایک بھارتی سپاہی کو ہلاک کر دیا، تنازعہ بھارتی مچھیروں کی وجہ سے ہوا تھا اور بنگلہ دیش کے مطابق بھارتی سرحدی فورس کے لوگ بنگلہ دیش کے اندر گھس آئے تھے تاکہ بنگلہ دیشی سرحد کے پار بنگلہ دیشی علاقے میں پکڑے گئے بھارتی مچھیروں کو چھڑا کر واپس لے جائیں۔ یہاں دریائے پدما پر بنگلہ دیش نے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش میں ایک خاموش ناراضگی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ اس کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ طویل مدت بعد بنگلہ دیش نے پا کستان سے خود تجارتی مراسم بحال کئے ہیں اور 30 نومبر 2019 کو پاکستان سے0 300 ٹن پیاز خریدا ہے اس واقعہ کے بعد بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کو وزیر داخلہ نے بتایا کہ گذشتہ دس برسوں میں بنگلہ دیش بھارتی سرحد پر 294 بنگلہ دیشی ہلاک ہوئے ہیں، اور ساتھ ہی مختلف واقعات کی تفصیلات بھی بیان کیں۔

اخبارات کے مطابق یہ ہلاکتیں بنگلہ دیش میں ایک جذباتی مسئلہ بن گیا ہے اور اس پر وہاں ہیومن رائٹس نے بھی تنقید کی ہے۔  وزیراعظم حسینہ نے بھی اس مسئلے کو تشویشناک کہا ہے۔ بنگلہ دیش کی بھارت سے سرحد 4000 کلومیٹر طویل ہے، 1971 کے بعد سے یہ سرحد بہت ہی کمزور رہی ہے، اس سرحد پر 190 مقامات ایسے ہیں جہاں سے سرحد عبور کر کے ایک دوسرے ملک میں داخل ہوا جاتا ہے، بھارت اور بنگلہ دیش میں سرحدی جھڑپ 16 سے20 اپریل 2001 میں ہوئی تھی جس میں 17 بھارتی اور دو بنگلہ دیشی ہلاک ہوئے تھے، سرحدی دیہات پادوا، پیردیوا وہ مقامات ہیں۔

جہاں 1971 میں بھارت نے مکتی باہنی کے لیے ٹریننگ سنٹرز قائم کیے تھے اور یہاں بنگلہ دیشیوں کی جانب سے علاقے کو متنازعہ کہا جاتا ہے، بھارت بنگلہ دیش سرحد سے مویشیوں کی سرحد ی تجارت پر بھی بھارت کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہے، بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات خراب نہیں ہیں اور اگر بھارت کی جانب سے دباؤ بڑھا بھی تو امکان یہی ہے کہ شیخ حسینہ واجد اِن تعلقات کو بگڑنے نہیں دیں گی اور بھارت کے دباؤ کو غالباً قبول بھی کر لیں گی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بنگلہ دیش کے قیام کو 48 برس بیت چکے ہیں 1989-90 میں میر ے دوست نجم الثاقب جو اس وقت برازیل میں پا کستان کے سفیر ہیں اُس وقت نئے نئے سی ایس ایس کر کے بطور جونیئر سفارت کار ڈھاکہ میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ہوئے تھے تو اُنہوں نے بتایا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے جس مقام پر لاکھوں افراد کے قتل کا پر وپیگنڈہ کیا تھا وہاں اتنے افراد بیک وقت کھڑے بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔

اب جہاںاس کا امکان ہے کہ بنگلہ دیش جب اپنی 50 سالہ گولڈن جوبلی منائے گا تو اُس وقت بھارت اور بنگلہ دیش کا بھرپور پر وپیگنڈہ پا کستان کے خلا ف ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی پچاس برس گزرنے کے بعد اور بھارت کی جانب سے مسلم دشمنی اور تعصب کا جس شدت سے اظہار کیا جا رہا ہے وہ بنگلہ دیش کی نئی نسل کے سامنے ہے اور بنگلہ دیش کی کل آبادی میں سے 75% آبادی اِسی نسل کی ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس دنیا میں آئی اور بہت سا پروپیگنڈہ اب سب کے سامنے کھل کر آگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب بھارت میں مسلمانوں کی جس انداز سے تذلیل ہوتی ہے وہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے سامنے ہے اور اس میں مغربی بنگال میں اگرچہ صورتحال کیمونسٹ پارٹی کے اثر کی وجہ سے قدرے مختلف ہے مگر اب یہاں کی ہندو بنگالی آبادی دو انتہا ؤں کے اعتبار سے تقسیم ہو رہی ہے جب کہ 2018 میں محتاط اندازوں کے مطابق بھارتی مغربی بنگال کی کل آبادی 98785114  تھی اور اس آبادی میں سے 27165906 مسلمان آبادی ہے یعنی یہاں مسلمان بنگالیوں کا تناسب اب بھی 27.5% ہے۔

اسی طرح اس کے ساتھ واقع صوبہ آسام ہے  جس کا رقبہ 240118 مربع کلومیٹر ہے جہاں ایک تو نسلی لحاظ سے بڑی آبادی بنگالی ہے پھر آسام کی کل آبادی 32652579 ہے جس میں سے 11173719 آبادی مسلمان ہے جو تناسب کے لحاظ سے کل آبادی کا  34.22%  ہے اس کے باوجود یہ کہ یہاں تقسیمِ ہند کے وقت آسام کے ضلع سلہٹ میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ریفرنڈم کروایا گیا اور اکثریت نے مشرقی پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دئیے، یہاں سماج پر مسلم اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسام میں 1946 میں وزیراعلیٰ سر سید محمد سعاد اللہ رہے،  15 اگست 1947 تک گورنر سید صالح حیدری تھے، سعاد اللہ 1938 میںبھی وزیر اعلیٰ رہے اور جب 1941-42 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران یہاں منی پور اور ناگا لینڈ کی ریا ستوں کے کچھ علاقوں پر جاپانی فوجوں نے قبضہ کر لیا تھا اور بھارت کے مشہور ہندو انقلا بی، حریت پسند لیڈر سباس چندر بوس جاپا نیوں سے جا ملے تھے تاکہ ہندو ستان کو جاپانیوں کی مدد سے مسلح جدو جہد کے ذریعے آزاد کروایا جائے اُس وقت بھی سعاد اللہ نے آسام کے دفاع میں سماجی سطح پر اہم کر دار ادا کیا تھا، اب جب دسمبر2019  میں بھارت نے بھارتی سٹیزن شپ کی نئی پالیسی میں کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو آسام میں 2000000 لوگوں کی دستاویزات کو مشکوک قرار دے کر اِن کی شہریت منسوخ کرنے کی بات کی ہے اور جب سٹیزن شپ کی پالیسی آئی تو سب سے زیادہ احتجاج آسام میں ہوا ہے پھر یہاں بھارت سے علیحدگی کی تحریک بھی عرصے سے جاری ہے۔

یوں بھارتی مسلم مخالف پالیسیوں کے اثرات جذباتی انداز میں بنگلہ دیش کے سماج پر مرتب ہو رہے ہیں ، اسی طرح بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ بھارتی صوبہ بہار ہے جس کا رقبہ 94163 مربع کلومیٹر ہے جہاں سے تقسیم ہند اور قیام ِ پاکستان کے وقت بہاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مشرقی پا کستان ہجرت کی تھی اور جب دسمبر1971 میں بنگلہ دیش قائم ہوا تھا تو کچھ بہاری تو مغربی پاکستان آگئے تھے اور30 لاکھ طویل عرصے تک وہاں کیمپوں میں اذیت کی زندگی گذار تے رہے، اس وقت بھارت کے صوبے بہار کی کل آبادی 121741714 ہے جس میں کل مسلمان آبادی  20574354 ہے یعنی16.9 فیصد ہے۔ آسام کی طر ح بہار بھی انگریزوں کے دور میں بنگال کا حصہ رہا۔

یہ دونوں بھارتی صوبے، منی پور اور ناگا لینڈ کے علاقے بھارت کے شمال میں چین اور تبت کے ہمالیائی خطے میں واقع ہیں جہاں ہماچل پردیش سمیت کچھ علاقوں پر چین بھارتی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا یہاں سکم ، بھوٹان، نیپال پر بھارتی اثرات کو چین ریلوے لائن اور شاہراہ کی تعمیر کے بعد سے بے اثرکر رہا ہے، بنگلہ دیش کے قریب ہی بھارتی ریاست ناگالینڈ ہے جس کا رقبہ 16579 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 2063533 ہے جس میں49515 مسلمان ہیں یعنی مسلم آبادی کا تناسب 2.5%  ہے، یہ علاقہ بھی بھارت سے الگ ہونا چاہتا ہے۔

یہ بھارت کے شمال مشرق میں سرحدی علاقے میں آسام ، ارونچل پردیش کے ساتھ اور بنگلہ دیش اور برما ’ میانمار ،کے قریب ہے،  یہاں 16 قبائل اپنی خاص ثقافتی پہچان کے ساتھ رہتے ہیں، انگریزوں کے دور میں 1826-32 یہ برما’’ میانمار‘‘ کا ضلع رہا، یہاں کی اکثریت عیسائی ہے اور بھارت کی تین ریا ستوںکی طرح ناگالینڈ میں سرکاری اور تعلیمی زبان انگریزی ہے۔ بنگلہ دیش کے قریب ہی بھارت کی شمالی سرحد کے ساتھ بھارتی ریاست منی پور واقع ہے، یہ بھی قبائلی علاقہ ہے جو بھارت سے علیحدگی چاہتا ہے، اِ س کا رقبہ 22327 مربع کلومیٹر اور آبادی2933784 ہے جس میں مسلم آبادی 246438 یعنی کل آبادی کا 9.25% ہے، یہ 1917 سے برما کی بجائے بھارت کا حصہ رہی، یہاں کی 53% آبادی منی پوری 24 فیصد، ناگا لینڈ قبائل اور16 فیصد کوکوز قبائل پر مشتمل ہے ،1947 میں یہاں کے راجہ بڈھا چندرا نے عوام کی اکثریت کی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ریاست کا الحاق بھارت سے کردیا تو آ بادی کی اکثریت اس فیصلے کے خلاف ہو گئی اور یہاں بھارت سے علیحدگی کی تحریک جاری ہے، اس پوری جغرافیا ئی سیاسی صورتحال میں اب جب بھارت نے مسلم کش پالیسیاں اپنائی ہیں تو بنگلہ دیش کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور عوام مذہبی جذبات کے ساتھ خود کو آنے والے دور میں محفوظ تصور نہیں کر رہے۔

اَن کے سامنے میانمار’’برما‘‘ میں فوجیوں نے روہنگیا مسلمانوں کا جب قتل عام کیا تو لاکھوں برمی مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی، بنگلہ دیش نے گزشتہ بیس برسوں سے اپنی فوجی طاقت میں بھی بہت کمی کردی تھی کیونکہ بھارت کے ساتھ اُس نے امن اور دوستی کی پالیسی کو فروغ دیا تھا اور پھر اپنی سیکو لر پالیسی اور ہندو دوستی کے ثبوت کے لیے وہاں جماعت ِ اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کو مقدمات چلا کر سزائے موت دی، جہاں تک بنگلہ دیشی معیشت کا تعلق ہے تو 1989-90 میں اُس کی معیشت بھی خراب تھی تو اس وقت بنگلہ 20 ٹکے کا ایک پاکستانی روپیہ تھا اور پاکستان میں ڈالر کی قیمت 21.70 روپے تھی مگر اب بنگلہ دیش میں اُن کی کر نسی 84.85  ٹکے کا ایک امریکی ڈالر ہے، 2017 میں بنگلہ دیش کی برآمدات 40905 ملین ڈالر تھیں اور دنیا میں وہ 51 ویں درجے پر تھا۔

اکتوبر 2019 میں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 32438ملین ڈالر تھے، عالمی سطح پر درجہ بندی میں 39 ویں نمبر کے ساتھ بنگلہ دیش کاجی ڈی پی317465 ملین ڈالر ہے اور بنگلہ دیش پر بیرونی قرضے 45 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، مگر دنیا کے 54  تندرست آبادی والے ملکوں میں بھارت اور پاکستان کی طرح بنگلہ دیش بھی نہیں ہے اور اگرچہ یہاں غربت میںکمی واقع ہوئی ہے کہ 2010 میں یہاں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب 73.50 تھا جو 2016 میں 14.8% ہو گیا لیکن غربت کا خاتمہ نہیں ہوا اور شرح خواندگی79.9% ہے، بنگلہ دیش کی فوج کی تعداد ایک لاکھ 55 ہزار ہے۔

بنگلہ دیش کی گذشتہ دس برسوں کی ترقی کی رفتار ایسی ہے جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ 2023 میں بنگلہ دیش سے غربت کا خاتمہ کر دیا جائے گا، مگر اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کو تین طرح کے مسائل مستقبل قریب میں پیش ہونگے جو اس کی اقتصادی ترقی کو اسی طرح متاثر کر سکتے ہیں جس طرح پاکستان کو کرپشن اور دہشت گردی کے مسائل نے متاثر کیا،

1۔ کلائمیٹ چینج جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا دس سے پندرہ فیصد رقبہ بھی مالدیپ کی طرح سمندر برد ہو سکتا ہے، بنگلہ دیش کی 70 فیصد آبادی قدرتی آفات کی زد میں رہتی ہے، اس کا زیادہ تر رقبہ ڈیلٹائی ہے یہاں تین بڑے دریا گنگا، برہما پتراور میگھنا کے علاوہ 310 چھوٹے دریا اور ندیاں خلیج بنگال میں گرتی ہیں یہاںمون سون کی تباہ کن بارشوں اور سمندری طوفانوں کا زور رہتا ہے اور اب دنیا میں درجہ حرارت کے متواتر بڑھنے کی وجہ سے سمندر کا کھارا پا نی ساحلوں پر بڑھ رہا ہے یہاں مجموعی طور پر اِن مسائل سے نبٹنے کے لیے 2013 سے عالمی بنک نے ساڑھے بارہ سو ملین ڈالر کے چار پروجیکٹ شروع کئے ہیں، یوں رقبہ اگر سمندر برد ہوتا ہے تو آبادی میں سالانہ تقربیاً اٹھارہ لاکھ کا اضافہ ہو گا۔

2 ۔ ایک حد تک شرح میں ترقی کے بعد بنگلہ دیش کے لیے عالمی مارکیٹ میں خصوصاً بھارت کی مرضی کے ساتھ آگے بڑھنا قدرے مشکل ہو جائے گا ۔

3 ۔ بھارت نے ملک میں جو مسلمان دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں خصوصاً مسلمانوں کو شہریت نہ دینے کا قانون نافذ کیا ہے تو اس کے خلاف مغربی بنگال، چھتیس گڑھ سمیت پانچ بھارتی ریاستوں نے عملدرآمد سے انکار کر دیا ہے، 14 دسمبر 2019 کو بھارت میں اس پر احتجاج کرنے پر تین افراد ہلاک کر دئیے گئے، پھر نہ صرف بنگلہ دیش کے عوام میں بھارت کے مسلم دشمن رویے کے خلاف غم وغصہ بڑھ رہا ہے بلکہ بھارت کی جانب سے ہندو تعصب کی وجہ سے اگر مغربی بنگال، بہار ، اڑیسہ،آسام ، منی پور اور ناگالینڈ میں برما کی طرح صورتحال ہوتی ہے تو بھارت کے مقابلے میں نہایت کم فوج رکھنے والا بنگلہ دیش تاریخ کے ایسے بحران کا شکار ہو سکتا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 13 دسمبر2019 کو بھارت میں رونما ہو نے والے ہنگاموں کی وجہ سے بنگلہ دیش کے وزیر ِخارجہ کو اپنا دورہ ِ بھارت منسوخ کرنا پڑا۔

اب بھارت کا ذکر کرتے ہیں، 1981 کے مقابلے میں آج بھارت جو دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے، 2019 میں گلوبل جی ڈی پی میں بھارت، امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی کے بعد پانچویں نمبر پر ہے مگر حصے یا تناسب کے لحاظ سے اِن چاروں ملکوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے ، دنیا میں زرمبادلہ کے ذخائر اگرچہ چین کے مقابلے میں ساڑھے سات گنا کم مگر دوسرے نمبر پر ہے اور بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر 45178 ملین ڈالر ہیں۔ 2017 میں بھارت کی درآمدات 426800 ملین ڈالر تھیں اور برآمدات دنیا میں 19 ویں نمبر کے ساتھ 303400 ملین ڈالر تھیں بھارتی روپے کی قیمت بھی 72 روپے کا ایک امریکی ڈالر ہے مگر یہاں بھارت کی فوجی قوت اور اس کے اخراجات کے ساتھ امریکہ نوازی بہت اہمیت اور خدشات کی حامل ہے۔ بھارت کو 1990 سے عالمی منڈی میں رسائی زیادہ ہو گئی ہے، مگر بھارت کی آبادی 1366417754 ہے جس میں سالانہ اضافہ ایک کروڑ40 لاکھ ہے۔

بھارت میں بھوک کی شرح 2.83 ہے یعنی اِن کو پوری خوراک نہیں ملتی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 17 کروڑ ہیں، شرح خواندگی 71.2% ہے، نائجیریا، پاکستان ،اور بنگلہ دیش،انڈونیشیا کو بڑھتی ہوئی آبادی کے شدید مسائل درپیش ہیں لیکن آبادی کی بڑھوتری کے سب سے زیادہ مسائل سے بھارت دوچار ہے،کہا جا رہا ہے کہ 2050 میں یعنی آج سے صرف31 سال بعد اِس دنیا کی آبادی10 ارب ہو جائے اور ساتھ ہی دنیا کی دو تہائی آبادی شہروں میں آباد ہو گی اُس وقت بھارت کی مجموعی آبادی ایک ارب نوے کروڑ کے قریب ہو گی اور اس آبادی کا بیشتر حصہ شہروں میں آباد ہو گا۔

اس وقت تین بھارتی شہر دہلی، ممبئی اور کولکتہ دنیا میں آبادی کے اعتبار سے ٹاپ ٹن شہروں میں شمار ہوتے ہیں جب کہ دنیا کے ٹاپ ٹوینٹی آلودہ شہروں میں نمبر ایک سے سات تک اور مجموعی طور پر بھارت کے 13 شہر دنیا کے 20آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں پھر دنیا بھر میں آلودگی پھیلانے میں امریکہ 15% چین 30% اور تیسرے نمبر پر بھارت 7% آلودگی کا حصے دار ہے اور ساتھ ہی دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک بھی ہے اس کے علاوہ بھارت کا اب سب سے بڑا مسئلہ مسلمان آبادی بن رہی ہے جس کو نریندر مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کے لیے ایک ٹائم بم قرار دیا جا سکتا ہے پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ 1951 سے بھارت میں مسلم آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اور ہندو آبادی کا تناسب اس کے مقابلے میں کم ہو رہا ہے، 1951 میں بھارت کی کل آبادی میں ہندو آبادی کا تناسب 84.1% تھا اور مسلمان آبادی کا تناسب 9.8% تھا، 2011 میں ہندو آبادی کا تناسب کم ہو کر 79.80% ہو گیا اور مسلمان آبادی کا تناسب بڑھ کر 14.23% ہو گیا یعنی 5.15% کا اضافہ 68 برسوں میں ہوا ہے۔

بھارت جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کے بارے میں یہ انداز ہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اب جب 2021 میں بھارت کی آٹھویںمردم شماری ہو گی تو امکان یہ ہے کہ چین کی بجائے بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا ملک ہو گا اور مسلم آبادی کے تناسب میں مزید دو فیصد تک کا اضافہ ہو جا ئے گا، پھر بھارت علاقے کے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ متنوع آبادی والا ملک ہے جو اس اعتبار سے دنیا میں سب سے منفرد ملک بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور پہلے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے بہت فخریہ انداز میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی سیکولر پالیسیوں کو اپنایا اور ماضی میں اس معاشرتی تنوع کو تضادات اور تنازعات میں تبدیل کرنے کی تاریخی تباہیوںکو تقسیم ہندکے وقت کی خونریزی کے بعد کبھی نہ استعمال کرنے کا ثبوت دیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان کو مذہبِ اسلام کی بنیاد پر دو قومی نظریہ متحد رکھ سکتا ہے تو بھارت کو اس کا سیکولر اور پارلیمانی جمہوری نظام ہی ٹوٹنے اور تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔

پھر مودی حکومت نے نائن الیون کے بعد جب وہ اقتدار میں آئے تو یہ سمجھا کہ جس انداز سے امریکہ کو دہشت گردی کے خلا ف ایکشن کر نے کا کلنگ لائسنس مل گیا ہے بھارت بھی اسی طرح پاکستان کے خلاف کاروائیا ں کر ے گا اور پھر اُنہوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے افغانستان سے ہمارے ہاں مداخلت بھی شروع کر دی پھر حماقت یہ کی کہ بھارت میں بھی جہاں اب مسلمانوں کی تعداد 22 کروڑ تک پہنچ گئی ہے وہاں ہندو تنگ نظری اور تعصب کے تحت خطرناک انداز کی پالیسیاں اپنائیں تو اُن کو یہ خیال ہی نہیں آیا کہ اگر بھارت کے سامنے 22 کروڑ مسلمان آبادی کا ملک پاکستان ہے تو بھارت کے اندر بھی 22 کروڑ مسلمان ہیں جو بھارت کے ساتھ پُرخلوص بھارتی اس لیے ہیں کہ وہ بھارتی سیکولر ازم اور پارلیمانی جمہوریت پر اعتبار کرتے ہیں۔

یوں پاکستان نے نائن الیون کے بعد بہت مشکل اور سخت وقت گزارا اور اپنی 72 سالہ تاریخ میں گذشتہ 12 برسوں میں اُس نے امریکہ ، روس ، چین اور بھارت سمیت سب کے سامنے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی سالمیت اور خود مختاری کے لیے آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑے گا، یوںاب اَن گذشتہ بارہ برسوں میں پا کستان بہت حد تک اپنی خارجہ پالیسی کو غیر جانبدار اور آزاد بنا چکا ہے اور ملک کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں پر 90 فیصد تک قابو پا چکا ہے اور انشااللہ 14 اگست 2022 کو جب پا کستان اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہا ہو گا تو دنیا اور خصوصاً مسلم دنیا میں پاکستان ایک بہت مضبوط مستحکم اور خوشحال ملک ہو گا۔

اب ایک جائزہ ہمسایہ ملک چین کا جو پاکستا ن ایک اہم دوست ہے، اس کے بارے میں گذشتہ صفحات میں بہت کچھ لکھا ہے کہ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہو نے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے منظم معاشرہ بھی ہے، اتنا منظم کہ سوا ارب انسانوں نے حکومتی عزم اور ملک کے استحکام کی خاطر بنیادی جبلت پر قابو پایا اور ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کو تقریباً تیس سال مستقل مزاجی سے اپنائے رکھا، چین نے اپنے ہاں قدرتی آفات کو بڑے کمال اور مثالی طریقوں سے کنٹرول کیا ہے، مثلاً تاریخی دیوارِ چین کے بعد اِس زمانے میں اُس نے سحرائے گوبی کی صحرایت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے مسلسل محنت کرتے ہوئے گریٹ گرین چائنا وال، چین کی عظیم سبز دیوار قائم کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔

نپو لین بونا پاٹ کے زمانے میں جب چینی افیون کے عادی تھے تو نپولین جو چین کی تاریخ سے واقف تھا اُس سے کسی نے چینی قوم کے بارے میں پوچھا تو نپولین نے کہا تھا چین اور چینی قوم سویا ہوا ایک اژدھا ہے اسے سویا رہنے دو یہ جاگ گیا تو دنیا کو کھا جائے گا۔ نپو لین کی اس سے مراد غالباً اس قوم کا منظم ہونا ہی تھا یوں آج امریکہ اور یورپ کو اقتصادی، صنعتی میدان میں اگر کسی کا خوف ہے تو وہ چین ہی ہے اور بد قسمتی سے بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کر نے کو شش کی جا رہی جو خود اپنے معاشرتی تنوع کو تنازعات میں بدل رہا ہے۔

15 دسمبر 2019 کو جب یہ سطور اختتام کو پہنچ رہی تھیں تو بھارتی مغربی  بنگال،آسام ، چھتیس گڑھ اور دیگر ریاستوں میں ہنگامے انتہا کو پہنچ چکے تھے اور بھارت کے بعض حلقے الزامات بنگلہ دیش پر عائد کر رہے تھے، بھارت اگرچہ روز اوّل سے پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہا مگر جب سے مودی سرکار بر سر اقتدار آئی ہے تو بھارت پاکستان دشمنی کے ساتھ اسلام دشمنی کی پالیسیوں کو اپنا رہا ہے اور یہ بھارت اُس وقت کر رہا ہے جب پوری دنیا میں اقتصادی ، معاشی، سیاسی اور عسکری اعتبار سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور یہ پیش گو ئیاں کی جا رہی ہیں کہ اب عالمی معیشت میں صدیوں بعد پھر ایشیا کی حکمرانی  ہو گی۔

اگر حقائق پر نظر رکھیں تو اس علاقے میں اگر بھارت امریکہ اور یورپ کی بجائے چین پاکستان، بنگلہ دیش ،سری لنکا ، افغانستان ،ایران ، سنٹرل ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اقتصادی تجارتی روابط کو فروغ دے، سی پیک پر تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کرے تو اس سے پورے علاقے کی معاشی اقتصادی آزادی اور خودمختاری کو استحکام ملے گا اور یہاں پا ئیدار خوشحالی آئے گی لیکن اگر ایک دوسرے ملک کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ تلخ حقائق ہیں کہ بھارت،پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران اور علاقے کے دیگر ملکوں میں جو لسانی ، قومی ، نسلی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ تنوع موجود ہے اس کو اس نئی طرز کی جنگ میں اگر متواتر اسی طرح استعمال کیا گیا تو نقصان آخر کار سب کی مکمل تباہی ہو گا اور جہاں تک امریکہ، چین اور دیگر بڑی قوتوں کا تعلق ہے تو غالباً اِن کو زیادہ نقصا ن نہیں ہو گا اور جہاں تک تعلق سرحدی اور علاقائی تنا زعات کا ہے تو یہ ایک دوسرے کے تحفظات کو مد نظر رکھ کر دور کئے جا سکتے ہیں، اس کے لیے سب سے پہلے نیتوں کا صاف ہونا ضروری ہے اور علاقائی اعتبار سے یہ حقیقت ہے کہ بھارت کو اپنی نیت پہلے صاف کرنی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔