ازواج کی بگاڑ سے بگاڑ

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 18 جنوری 2020
barq@email.com

[email protected]

ثنویت ازواج اور منفی مثبت پرہم اکثر روشنی ڈالتے رہتے ہیں کتابوں میں مضامین میں اور کالموں اور گفتگوؤں میں جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے ہم اس ثنویت یا سلسلہ ازواج کا ذکرکرتے رہتے ہیں اس لیے دنیا کے تمام ’’مروجہ‘‘اور نصابی اور اشرافیہ کے زیرسایہ پلنے اور بننے والے ’’علوم‘‘میں اسے یکسرنظرانداز کردیاگیاہے۔

تاریخ میں،جغرافیہ میں یہاں تک کہ مذاہب اور عقائد ونظریات میں بھی اس’’ثنویت‘‘یا نظام’’ازواج‘‘کو پیش نظرنہیں رکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے علوم کے اندر اور پھر اس سے معاشروں اور نظاموں میں بے قاعدگی اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔تاریخ اس بات کا تذکرہ توبہت کرتی ہے بہت بڑی بڑی کتابیں بھی لکھی جاتی ہیں کہ سکندر نے،دارا نے مغلوں اور چنگیز وہلاکو اور فلاں فلاں نے یہ یہ کیا ہے؟لیکن یہ بالکل نہیں بتاتی کہ کیوں کیا ہے؟آخر ایک یا چند انسان کیوں قہربن جاتے ہیں اور بے گناہ ومعصوم لوگوں کوتباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ ان میں جوع الارض اور جذبہ اقتدار تھا توکیوں تھا؟ اس دنیا اور کائنات میں کوئی بھی چیز یونہی بلا وجہ اور اچانک پیدا نہیں ہوتی۔

اگرایک آدمی شیطان بنتاہے تو اس کے بھی اپنے عوامل ہوتے ہیں اور اگر ولی اللہ بنتاہے تو اس کے بھی اپنے عوامل ہوتے ہیں اور یہ عوامل سارے کے سارے اسی  منفی ومثبت یا ازواج یا ثنویت پرمبنی ہوتے ہیں۔اگردنیا ساری کی ساری’’ناریوں‘‘سے بھرجائے تو وہ ساری ناریاں مل کر بھی ایک’’بچہ‘‘پیدا نہیں کرسکتیں، اسی طرح اگر ساری دنیا نرہی نر ہوجائے توبھی کوئی پیدائش عمل میں نہیں لاسکتے ہیں۔

پیدائش کے لیے دونوں منفی مثبت کا وجود لازمی ہے اور یہ بات صرف پیدائش یا انسانی وحیوانی ’’بچے‘‘تک محدود نہیں ہے دوسرے ازواج میں اس پیدائش یا ’’بچے‘‘کوہم’’کام‘‘کانام دے سکتے ہیں، کوئی بھی کام اس ’’ثنویت‘‘یانظام ازواج یا منفی مثبت کے بغیرممکن نہیں۔  مثلاً ’’چلنا‘‘ایک ’’کام‘‘ہے یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک’’سکون اور حرارت‘‘کا زوج یکجا نہ ہو جائے۔ پاؤں یا پہیہ حرکت ہے تو زمین یا ٹریک’’سکون‘‘ہے، دونوں ملیں گے توچلناممکن ہوگا۔

’’کھانا‘‘ایک کام ہے۔لیکن کھانے کے لیے باقی ازواج کاذکر توچھوڑدیجیے صرف یہیں سے شروع کردیجیئے کہ کھانا پلیٹ میں رکھاہے۔اور منہ یا پیٹ بھی اسے کھانے کے لیے تیار ہے یا چاہتا ہے لیکن ان دونوں کا کام تب مکمل ہوگا جب کوئی ہاتھ یا چمچہ اسے اٹھا کرمنہ تک پہنچائے گا اور وہ چیز ہاتھ یا چمچہ بذات خود منفی اور مثبت کا زوج ہوتا ہے، کھانے کوچمچ یا ہاتھ سے اٹھایا جائے گا، تو وزن اور قوت کا زوج کارفرما ہوگا، بات کو اور بھی چھوٹا کرتے ہیں چمچ کے اندر یا ہاتھ کے اندر کا ایک اور زوج بھی ہوتاہے، چمچے کا سرا کھانا اٹھاتاہے تو اکیلا ہرگزنہیں اٹھا پائے جب تک اس کے منفی’’دستے‘‘پراٹھانے کے لیے بالکل مخالف ’’زور‘‘ نہیں پڑے گا۔

اس منفی اور مثبت کے درمیان’’نقطہ اشتراک‘‘ کوفیثاغورث نے ’’لیور‘‘کے نام سے متعارف کرایاتھا، منفی ومثبت کے درمیان اتصال اور ملن کا یہ لمحہ یامقام کتناہی کم یا چھوٹا بلکہ نظر نہ آنے والا کیوں نہ ہو، ہوتا ضرورہے کہ اس کے بغیرمنفی ومثبت کا ملن ممکن ہی نہیں۔ چمچہ ویسے یا کھانے میں پڑا رہے گا ایک وہ اپنا کام کسی بھی طورپرسرانجام نہیں دے سکتا۔جب تک ’’کھانے‘‘ کے ثقل اس کے خلاف کوئی قوت اسے نہیں ملے گی۔

یایوں سمجھیے کہ ہم گیند دیوار کو مارتے ہیں اور وہ ٹکرا کرواپس آتاہ ے تو ’’ٹھکرانے‘‘کایہ مقام یا وقفہ کتناہی کم کیوں نہ ہو اسے پلٹانے کے لیے ضروری ہے ایک پتھرکوہم اوپر پھینکتے ہیں جب تک پھینکنے والا فورس رہتا ہے وہ اوپرجا رہاہوتا ہے لیکن فورس ختم ہونے پر وہ نیچے گرنے لگتا ہے، اب اوپر جانے اور نیچے آنے کے درمیان جوحالت ہوتی ہے کہ نہ اوپر جارہاہوتاہے نہ نیچے آرہاہوتاہے یہی مقام یا لمحہ ہی منفی ومثبت کوملاتاہے۔یہی سلسلہ کائنات کی پیدائش یا بگ بینگ کابھی ہے انتشار اور ارتکاز کے درمیان وہ مقام جونہ یہ ہوتا ہے نہ وہ ہوتاہے اور یہ بھی ہوتا اور وہ بھی ہوتا ہے۔اور شاید دنیا اور کائنات کے سارے ازواج جب’’وصل‘‘کی حالت سے گزرکر وصل کی حالت اختیار کرتے ہیں تو وصل کاوہی مقام ہی ’’وہ‘‘ہے جوسب کا مبداہے۔جب تمام ازواج اکٹھے ہوجائیں اور وہ مقام آجائے جونہ یہ ہوگا نہ وہ، نہ انتشار ہوگا نہ ارتکاز اور پھر یہ بھی ہوگا اور وہ بھی ہوگا۔

توشاید یہ مکمل ’’وصل‘‘بھی’’وہ‘‘ہی ہے جس کی کثرت ایک وحدت میں بدل جائے گی۔خیریہ ایک بے بصاعت انتہائی محدود اور نارسا انسان کے قیاسات اور تصورات ہیں یا یوں کہیے کہ ایک اندھے کا ہاتھی کے متعلق، ایک قطرے کی سمندر کے متعلق خیال آرائی ہے جوضروری نہیں کہ صد فی صد درست ہو۔ ثنویت یا زوج پرتو بات ہوگئی ہے اور یہ اتنا بڑا موضوع  ہے کہ کائنات موجودات اور اس کے سارے سلسلہ تخلیق وتکوین اور ارتقاء کی بنیاد ہے۔ اس لیے اس کی تفصیل پربات کبھی تمام نہیں ہوگی۔

لیکن ہمیں اس وقت صرف ان ازواج کا ذکرکرناہے جن کی بگاڑ نے ہمارے معاشرے کو ایک جنگل ایک جہنم اور ناہموار معاشرہ بنایاہواہے۔لوگ رو رہے ہیں سرپیٹ رہے ہیں، دانا دانشور طرح طرح کے حل پیش کررہے ہیں کہ ایسا کرنا چاہیے ویسا کرنا چاہیے ایسا ہوجائے تو ویسا ہوجائے گا۔فلاں سیدھاہوجائے تو فلاں ہوجائے گا بلکہ دیکھیے تو ایک بہت بڑا’’نہیں‘‘ہمارے معاشرے پر کابوس کی طرح مسلط ہے۔شرافت نہیں،انسانیت نہیں، ہمدردی نہیں صبر شکرنہیں،سکون نہیں یہ نہیں وہ نہیں کچھ نہیں۔

گویا ایسی کوئی’’شے‘‘نہیں۔جو ’’نہیں‘‘ نہیں ہے، آخریہ سب کچھ ’’کہاں‘‘ چلا گیا ہے؟ ایسا کچھ بھی ہے سب کچھ اپنی جگہ موجود ہے اس آفریدہ گار نے ’’پیدا‘‘ کرنا چھوڑا نہیں ہے سب کچھ بدستور بلکہ زیادہ پیدا کر رہاہے لیکن اگرنہیں ہے تو انسان نے ان سب کے ’’ازواج‘‘ بگاڑ دیے ہیں، کوئی بھی’’زوج‘‘اپنا کام نہیں کررہاہے بلکہ دوسرے کا کام کرنے لگاہے یا کوشش کررہا ہے۔

معاشرے اور نظام کے دو سب سے بڑے زوج بگڑچکے ہیں۔ حکمرانیہ اور عوامیہ کا زوج یا حقوق وفرائض کا زوج۔ عورت اور مرد کازوج۔ اپنے اپنے کام اور فطرت سے ہٹ چکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ذمے جو ’’کام‘‘ تھا اور ہے یعنی انسانیت کی پہلی اینٹ’’بچہ‘‘، وہ صحیح نہیں بن رہا ہے اور کچی ٹوٹی پھوٹی ٹیڑھی اینٹوں کی عمارت ایسی ہی ہوتی ہے جو ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔