منور حسن نے متنازع بیان دیکر اپنی جماعت کو آزمائش میں ڈال دیا

خالد رشید  منگل 12 نومبر 2013
یکم نومبر2012 کوحکیم اللہ دہشت گرد تھا،آج شہید ہے،امیر جماعت کی کلابازیوں پرکارکن چکراگئے. فوٹو: فائل

یکم نومبر2012 کوحکیم اللہ دہشت گرد تھا،آج شہید ہے،امیر جماعت کی کلابازیوں پرکارکن چکراگئے. فوٹو: فائل

لاہور:  جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کیطرف سے پاک فوج کے شہداء کے حوالے سے دیے گئے متنازع بیان نے جہاں پوری قوم کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے وہیں انھوں نے اپنی جماعت کو بھی آزمائش میں ڈالتے ہوئے اپنے ہی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کے ماضی میں پاک فوج کیساتھ ’’گہرے‘‘ تعلقات رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی واضح اور دوٹوک پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے حالیہ الیکشن میں بھی اسے شکست کا سامنا رہا ہے، جماعت ایک طرف تو عمران خان کیساتھ مذاکرات کرتی رہی اور دوسری جانب نواز شریف سے بھی بغل گیر ہوتی رہی، اس دہری پالیسی کے باعث انھیں کچھ حاصل نہ ہوا اور الیکشن سے قبل دونوں جماعتوں نے جماعت اسلامی کو ’’سفید جھنڈی‘‘ دکھا دی، انہی پالسیوں کے باعث جماعت کا ایک گروپ ابھی تک سید منور حسن سے نالاں ہے، ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں بھی جماعت اسلامی کیخلاف کھل کر سامنے آ گئی ہیں، ترجمان پاک فوج نے بھی جماعت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا کہا ہے مگر تاحال جماعت اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی، الٹا پاک فوج کیطرف سے وضاحت مانگنے کو سیاسی بیان قرار دیدیا ہے۔

انھیں ڈبل پالیسوں اور بیانات کی وجہ سے ماضی میں بھی اس جماعت پر الزامات لگتے رہے ہیں، سید منور حسن کی طرف سے طالبان کی حمایت اور مخالفت کے حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف بیانات سامنے آتے رہے ہیں، یکم نومبر2012کو سید منور حسن نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ میں اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعت اسلامی صرف افغانستان کے طالبا ن کو سلام پیش کرتی ہے۔

کیونکہ انھوں نے امریکا کیخلاف جہاد کیا اور افغان پہاڑوں پر لکھا گو امریکا گو مگر پاکستانی طالبان کا کوئی وجود نہیں، ان طالبان کو مختلف اوقات میں کبھی حکومت اور کبھی فوج نے استعمال کیا، سید منور حسن کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد کی طرف سے پاکستانی طالبان کے حق میں بیانات کو بھی انکی ذاتی رائے قرار دیدیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ میری اپنی رائے میں حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود سب لوگ اخبارات کے بنائے ہوئے ہیں میں ان کو نہیں مانتا، یہ لوگ صرف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں دہشتگردی کرتے ہیں، مسلمان کا ناحق خون کرتے ہیں جہاد نہیں کرتے لہذا ان کیخلاف فوجی کاروائی ہونی چاہیے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب انھوں نے انٹرویو دیا تھا اسوقت بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود دونوں زندہ تھے مگر گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے شہدا کو شہید نہ کہنے پر انھوں نے اپنے ہی موقف کی تردید کر دی ہے، جس پر تمام دینی و سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں، انکا کہنا ہے کہ امیر جماعت اسلامی کو اپنے اس رویے پر فوج اور قوم سے معافی مانگتے ہوئے استعفی دیدینا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی قلابازیوں سے انکے اپنے لوگ بھی حیران ہیں اور جانناچاہتے ہیں کہ یکم نومبر کو انکا موقف صحیح تھا یا آج انکے موقف کو درست تسلیم کیا جائے، اس حوالے سے وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔