- اقوام متحدہ روس سے کسی بھی صورت نیوکلیئر پلانٹ کا قبضہ ختم کروائے، یوکرینی صدر
- پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو اسد قیصر کے خلاف کارروائی سے روک دیا
- عماد وسیم کا قومی ٹیم میں دوبارہ جگہ بنانے کے لیے بلندعزائم کا اظہار
- مون سون کا سسٹم شدت کے ساتھ موجود، کراچی میں اتوار تک بارشوں کا امکان
- جسٹس منصور علی شاہ کے نام سے چلنے والے جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
- عمران خان کے منہ سے میڈیا کی آزادی کی باتیں مذاق سے کم نہیں، مریم اورنگزیب
- شہباز شریف ملک کو درست سمت میں آگے لے کر جارہے ہیں، چوہدری شجاعت
- چیتے کو اذیت دینے کی ویڈیو وائرل، سوشل میڈیا صارفین برہم
- ڈاکٹرز کا شہباز گل کو اسپتال سے فوری چھٹی نہ دینے کا فیصلہ
- ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری
- پاک آرمی کا سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری
- پی سی بے کا اعظم خان کو کریبئین پریمئر لیگ کیلیے اجازت دینے سے انکار
- اسٹیبلشمنٹ سے پوچھتا ہوں، آپ نے کیسے ان کو ملک پر مسلط ہونے دیا؟ عمران خان
- گجرات میں 14 سالہ گھریلو ملازمہ کے ریپ کا ملزم گرفتاراور اہلیہ فرار
- کراچی: سیلابی ریلے میں بہنے والے دو بچوں کی لاشیں مل گئیں،5افراد تاحال لاپتہ
- آئی جی پولیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش، شہباز گل پر تشدد کی تردید
- دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائے جانے والا نوجوان موت سے بچ گیا
- ڈپریشن میں مبتلا طلبا کی تعداد میں 135 فی صد اضافہ
- آئی فون صارفین کو سماعت کی حفاظت کے لیے اہم سیٹنگ چیک کرنے کا مشورہ
- ججز کی تقرری کے طریقۂ کار کا ترمیمی بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے منظور
منور حسن نے متنازع بیان دیکر اپنی جماعت کو آزمائش میں ڈال دیا

یکم نومبر2012 کوحکیم اللہ دہشت گرد تھا،آج شہید ہے،امیر جماعت کی کلابازیوں پرکارکن چکراگئے. فوٹو: فائل
لاہور: جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کیطرف سے پاک فوج کے شہداء کے حوالے سے دیے گئے متنازع بیان نے جہاں پوری قوم کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے وہیں انھوں نے اپنی جماعت کو بھی آزمائش میں ڈالتے ہوئے اپنے ہی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کے ماضی میں پاک فوج کیساتھ ’’گہرے‘‘ تعلقات رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کی واضح اور دوٹوک پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے حالیہ الیکشن میں بھی اسے شکست کا سامنا رہا ہے، جماعت ایک طرف تو عمران خان کیساتھ مذاکرات کرتی رہی اور دوسری جانب نواز شریف سے بھی بغل گیر ہوتی رہی، اس دہری پالیسی کے باعث انھیں کچھ حاصل نہ ہوا اور الیکشن سے قبل دونوں جماعتوں نے جماعت اسلامی کو ’’سفید جھنڈی‘‘ دکھا دی، انہی پالسیوں کے باعث جماعت کا ایک گروپ ابھی تک سید منور حسن سے نالاں ہے، ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں بھی جماعت اسلامی کیخلاف کھل کر سامنے آ گئی ہیں، ترجمان پاک فوج نے بھی جماعت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا کہا ہے مگر تاحال جماعت اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی، الٹا پاک فوج کیطرف سے وضاحت مانگنے کو سیاسی بیان قرار دیدیا ہے۔
انھیں ڈبل پالیسوں اور بیانات کی وجہ سے ماضی میں بھی اس جماعت پر الزامات لگتے رہے ہیں، سید منور حسن کی طرف سے طالبان کی حمایت اور مخالفت کے حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف بیانات سامنے آتے رہے ہیں، یکم نومبر2012کو سید منور حسن نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ میں اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعت اسلامی صرف افغانستان کے طالبا ن کو سلام پیش کرتی ہے۔
کیونکہ انھوں نے امریکا کیخلاف جہاد کیا اور افغان پہاڑوں پر لکھا گو امریکا گو مگر پاکستانی طالبان کا کوئی وجود نہیں، ان طالبان کو مختلف اوقات میں کبھی حکومت اور کبھی فوج نے استعمال کیا، سید منور حسن کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد کی طرف سے پاکستانی طالبان کے حق میں بیانات کو بھی انکی ذاتی رائے قرار دیدیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ میری اپنی رائے میں حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود سب لوگ اخبارات کے بنائے ہوئے ہیں میں ان کو نہیں مانتا، یہ لوگ صرف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں دہشتگردی کرتے ہیں، مسلمان کا ناحق خون کرتے ہیں جہاد نہیں کرتے لہذا ان کیخلاف فوجی کاروائی ہونی چاہیے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب انھوں نے انٹرویو دیا تھا اسوقت بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود دونوں زندہ تھے مگر گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے شہدا کو شہید نہ کہنے پر انھوں نے اپنے ہی موقف کی تردید کر دی ہے، جس پر تمام دینی و سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں، انکا کہنا ہے کہ امیر جماعت اسلامی کو اپنے اس رویے پر فوج اور قوم سے معافی مانگتے ہوئے استعفی دیدینا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی قلابازیوں سے انکے اپنے لوگ بھی حیران ہیں اور جانناچاہتے ہیں کہ یکم نومبر کو انکا موقف صحیح تھا یا آج انکے موقف کو درست تسلیم کیا جائے، اس حوالے سے وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔