ایک منفرد ناول اور شگفتہ نامہ

نسیم انجم  اتوار 19 جنوری 2020
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گزشتہ برسوں سے ناول لکھنے کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، اس طرح ادبی افق پرکئی قابل ذکر ناول جلوہ گر ہوئے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے جوکہ خوش آیند ہے۔ افسانے ہی کی طرح ناول بھی مغرب کی پیداوار ہے اسی حوالے سے ممتاز نقاد ڈاکٹر شاہد نواز اپنی کتاب پاکستانی اردو ناول میں عصری تاریخ کے باب اول میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ’’ناول کے آغاز کو عمومی طور پر مغرب میں تہذیبی تبدیلیوں سے جوڑا جاتا ہے۔

ناول کو یورپ میں صنعتی دورکی پیداوار سمجھا جاتا ہے، یہ امر مسلمہ ہے کہ ناول دراصل انسانی سماج اور تہذیب میں اقدار کی تبدیلی کے ساتھ رونما ہوا ہے ۔ تہذیبی تبدیلی کا آغاز چونکہ واضح اور فیصلہ کن انداز میں مغرب میں ہوا تھا وہیں جاگیردارانہ تہذیب کو پچھاڑ کر تاجرانہ اور سرمایہ دارانہ انقلاب نے فتح پائی تھی سو مغرب ہی نئی صنف ادب ناول کی جنم بھومی ٹھہرا۔‘‘

شاہد رضوان کا ناول ’’گنجی بار‘‘ ناقدین کی آرا اور ناول کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے بعنوان اور بالترتیب پتھر کی عورت ، پہلا آدمی اور آوازیں شایع ہوچکے ہیں اور اب انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اگلا قدم ناول نگاری کی طرف بڑھایا ہے۔

مصنف نے ان دنوں کے حالات کو ناول میں سمویا ہے، جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور انگریز غداروں کی مدد سے برصغیرکی دھرتی پر اپنے پیر جما چکے تھے ’’ گنجی بار‘‘ بھی ایسے ہی واقعات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ اور اس دور کے ماحول کی عکاسی اس طرح کی گئی ہے کہ واقعات متحرک ہوگئے ہیں، تصویریں بولتی نظر آتی ہیں اور مناظر جاگ جاتے ہیں۔

ناول کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے۔

’’راوی کی واروں پرکیکر، ٹاہلی، آک، شہتوت، ون، کری، جنڈ، پھلاہی اور بیری کے درختوں کے جھنڈ دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، صبح کی تازہ خنک ہوا کے زور سے سرکنڈوں کے پھولوں نے اپنی کلغیاں اٹھالیں اور خود روگھاس نے کان کھڑے کر لیے، قالین کی طرح بچھے دبڑے نے انگڑائیاں لے لے کر تریل جھاڑی، دریا کی بیٹ میں بیٹھے سفید سفید بگلوں نے تیرکی طرح لمبی لمبی چونچیں گیلی ریت میں ترازوکیں سورج کی زرد ٹکیا نمودار ہوئی اور کپاس کے ٹینڈوں کی طرح کھل گئی، سنہری سنہری کرنیں تکلے کی طرح گھومتی درختوں کے جھنڈ سے چھن چھن کر پانی میں منعکس ہو رہی تھیں۔‘‘ ناول کے تمام کردار مربوط ہیں اور تحریر کی روانی قاری کو مزید مطالعے کی طرف راغب کرتی ہے۔

نوجوان ملاح کا کردار دلچسپ بھی ہے اور فہم و فہراست سے آشنا بھی، وہ موقع شناس اور حالات پر قابو پانے کے فن سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔ اس وقت اس کی رگ ظرافت خوب پھڑکتی ہے جب کشتی میں سوار خاتون بین کرتے ہوئے یہ بتاتی ہے کہ مرنے والا 80-82 سالہ اور اس کا منہ بولا بھائی تھا۔ ملاح اپنی ہنسی پر قابو پا لیتا ہے اور مزید انکشاف وہ یہ کرتی ہے کہ اس کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ چوری کی نیت سے اس کے گھر میں داخل ہوا اور اس وقت وہ سہم جاتی ہے جب چور نہ کہ اپنی شناخت بتاتا ہے بلکہ وہ اس بات کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ وہ بد نام زمانہ چور ’’دلّو‘‘ ہے، ’’دلّو‘‘ کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ساری بہادری اڑن چھو ہو جاتی ہے اور اس کی کلائی پر عورت کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے وہ عورت کو خوفزدہ دیکھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی بہن بنا لیتا ہے اور اسی دوران محبت کی گرمی پا کر وہ عورت جو اس وقت دوشیزہ تھی اور اس کا کوئی بھائی بھی نہ تھا وہ دلّو سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ آیندہ کبھی چوری نہیں کرے گا۔

منہ بولے بھائی نے وعدے کی لاج رکھی اور اس کے وہ حقوق ادا کیے جو ایک بھائی کے ذمے ہوتے ہیں۔ مصنف نے گاؤں دیہات کے ماحول کا جائزہ اپنے تجربے کی بنا پر نہایت سچائی کے ساتھ لیا ہے اسی ماحول کی پروردہ سمی اور گلاں بھی ہیں دونوں بچپن کی سہیلیاں ہیں سمی دلّے کمار کی جب کہ گلاں زمیندار کی بیٹی ہے۔ گاؤں میں لگنے والے میلے، جانوروں اور پہلوانوں کی کشتی کے مقابلوں اور مختلف اشیا کی دکانوں پر خریداروں کا رش اور گہما گہمی کے منظر کو مصنف نے کامیابی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔

ماہیے کا کردار ایک گبرو اور شریف النفس انسان کا ہے جو کشتی کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ مصنف نے اس موقعے کی اس طرح تصویر کشی کی ہے کہ ڈھولچی زور زور سے ڈگا مارنے لگا اور لوگوں نے ماہیے کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اس پر انعامات کی بارش کردی۔ گلاں اور سمی نے میلے سے خریدی ہوئی انگوٹھیاں ماہیے کو پہنا دیں لیکن جب ماہیے نے سمی کو نظر بھر کر دیکھا تو سمی شرما گئی یہی وہ قیامت خیز لمحہ تھا جب دونوں کی زندگیوں میں بھونچال آگیا محبت اور رقابت کی چنگاریاں ایک ساتھ بھڑکیں اور اس آگ میں دونوں کی خوشیاں بھسم ہوگئیں، ماہیہ بھی گلاں کے منگیتر کے ہاتھوں مارا گیا۔

گلاں اور سمی جو ناول کے مرکزی کردار کے طور پر جلوہ گر ہوئی ہیں وہ بدنامی، رسوائی، تباہی و بربادی کی داستان بن کر سامنے آگئی ہیں، خصوصاً گلاں کا کردار اسی نوعیت کا ہے۔ جہاں قاری ان سے ہمدردی بھی رکھتا ہے اور نفرت کا احساس بھی جنم لیتا ہے۔ ساتھ میں انگریزوں کا مقابلہ کرنے اور انھیں قدم قدم پر شکست فاش دینے والے عظیم مجاہد احمد خان کا کردار بھی ناول کی اہمیت اور جذبہ جہاد کو نمایاں کرتا ہے۔

مصنف نے گاؤں کے رسم و رواج جعلی پیروں، فقیروں کی کارگزاریاں اور توہمات، ایمان کی کمزوری کے حوالے سے واقعات بیان کرکے ناول کی کہانی کو توانائی بخشی ہے ایک خاص بات یہ کہ ناول میں پنجابی زبان کے ٹھیٹ الفاظ استعمال کرکے جہاں ناول میں حقیقت کا رنگ بھرا ہے وہاں ان قارئین کے لیے مشکل پیدا کردی ہے جو پنجابی زبان کی ’’الف، ب‘‘ سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اس کے باوجود شاہد رضوان کا ناول منفرد بھی ہے اور قابل تحسین بھی، میں انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں اس دعا کے ساتھ کہ وہ اسی تندہی کے ساتھ لکھتے رہیں۔ (آمین)

شگفتہ شفیق کی ادبی صلاحیتوں اور شعر و سخن سے اہل ادب اچھی طرح واقف ہیں وہ بہترین شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں ان کی کئی کتابیں شایع ہو چکی ہیں اور ان کی شاعری کے قارئین پاکستان کے علاوہ دیار غیر میں بھی موجود ہیں ۔ ان قلم کاروں نے ان کی فن و شخصیت پر خامہ فرسائی بے حد دلنشیں انداز میں کی ہے کسی نے انھیں باصلاحیت شاعرہ تو کسی دوسرے نقاد نے ’’شگفتہ شفیق اپنی خواہش کے چاند میں‘‘ کا عنوان دے کر ان کی شاعری پر تبصرہ کیا ہے۔

ڈاکٹر منصور جعفری نے ’’شگفتہ شفیق کی شگفتہ بیانیاں‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے، شگفتہ شفیق نظم و نثر میں یکتا زبان و بیان میں شائستہ اور نقد و نظر میں شگفتہ ہیں۔ جذبات میں شدت اور احساس میں حدت ہے، کہانی کار بھی اور گلستان شاعری میں غنچہ بہار بھی ہیں بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں۔ شگفتہ کی غزلیات اور نظمیں جہاں آپ بیتی کی داستان صد رنگ ہیں وہاں کہیں کہیں جگ بیتی کے معاملات بھی مذکور ہیں۔‘‘

بے شک شگفتہ کی شاعری اسی تعریف کی مستحق ہے۔ وہ سہل متمنع کی شاعرہ ہیں، چھوٹی بحروں میں انھوں نے ایسے اشعار تخلیق کیے ہیں جو دل کو چھوتے ہیں۔

حال ہی میں ان کی ایک اہم کتاب ’’شگفتہ نامہ‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزری ہے اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں شگفتہ کے تمام انٹرویوز اور تعارف، سفرنامہ نگاری کی جھلکیاں اور شاعری کے نعتیہ و حمدیہ رنگ، ہجر و وصال کے تلخ و شیریں جذبات سے مرصع ہے، شگفتہ کے لیے یہ بات اعزاز ہے کہ ان کے لیے ان کے قدردان محفلیں سجاتے ہیں اور ایوارڈ و انعام سے نوازتے ہیں ان کی فن و شخصیت پر سہ ماہی کتابی ’’سلسلہ‘‘ کا خصوصی شمارہ قارئین کے ہاتھوں میں آچکا ہے کراچی پریس کلب میں ایک خوبصورت تقریب رونمائی کا بھی اہتمام کیا گیا۔

زیب اذکار حسین اور اکرم کنجاہی اور دیگر حضرات نے بھرپور مضامین پیش کیے، شگفتہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ انھوں نے سماجی مسائل اور معاشرتی ناہمواریوں کو اپنے افسانوں میں دلکش انداز میں سمویا ہے۔ ان کی تخلیق کردہ حمد کے دو شعر:

خالق سے ملے گی جو عطا سب سے الگ ہے

قرآن کو پڑھنے کی جزا سب سے الگ ہے

قاری سے تلاوت کے کرم پوچھو ذرا تم

جو دل میں اترتی ہے ضیا سب سے الگ ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔