ریاستی تشدد : ایک طاعون

زاہدہ حنا  اتوار 19 جنوری 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اقوام متحدہ کا میثاق ہو، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی دستاویزات ہوں یا ہیومن رائٹس واچ کے متعین کردہ اصول۔ ان کی روشنی میں دیکھیں تو مختلف ملکوں میں سیاسی قیدیوں پر ہونے والے تشدد کا جو احوال ہم تک پہنچتا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ ان رپورٹوں کو پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ اطالوی نژاد گیورڈانو برونو بہت یاد آتا ہے۔ شاید 65 یا 66کے دن تھے جب میں نے پہلی مرتبہ برونو کے بارے میں پڑھا۔

1545 میں پیدا ہونے اور 1600 میں اس جہان سے گزر جانے والے اس شخص کی زندگی نے مجھے بتایا کہ انسان، انسان پر سوچے سمجھے انداز میں کس طرح وحشیانہ تشدد کر سکتا ہے۔ کس طرح جیتے جی اسے جہنم میںدھکیل سکتا ہے۔ برونو کی داستان الم انگریزی کے ایک رسالے میں شایع ہوئی تھی۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک دوست کی دغا بازی سے جب وہ Inquisition (کیتھولک کلیسا کی عدالتِ احتساب) کے حوالے کیا گیا توسات برس کی ہولناک قید اور مقدمے کے بعد اس کے بدن کا ایک ایک عضوکاٹا گیا۔ اس کے زخموں پر گندھک چھڑک کر آگ لگائی گئی اور جب اس کے بعد بھی اس نے کلیسا کی تابعداری سے انکار کیا تو اس کے رہے سہے بدن کو زنجیروں سے باندھ کر چیر دیا گیا۔

برونو نے اپنا علمی اور ذہنی سفر دینیات سے شروع کیا، ایک استاد کے زیر اثر ابن رشد کی تعلیمات میں دلچسپی لی، فلسفہ اور منطق پڑھی، استاد ہوا، سائنسی علوم سے اسے شغف پیدا ہوا۔ مختصراً یہ کہ وہ ایک عالم فاضل انسان تھا۔ جیومیٹری اور دوسرے علوم پر کتابیں لکھیں۔ جہل ہمیشہ علم سے خوفزدہ رہتا ہے۔ کلیسا کے تاریک ذہن افراد اس سے نفرت کرتے تھے۔ وہ جو سوال اٹھاتا اس سے انھیں اپنی بنیادیں لرزتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔

اس کو ’’عدالتِ احتساب‘‘ کے شکنجے میںجکڑنا اور سزا دینا یا گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دینا لازمی تھا۔ وہ اپنی سی کرگزرے لیکن برونو اپنے خیالات پر قائم رہا اور ایک اذیت ناک موت اس کا مقدر ہوئی۔ اس کی ہلاکت پڑھتے ہوئے منصور حلاج کی سولی کا خیال آیا جو تین دن پر پھیلی ہوئی تھی اور انگلیاں کترنے سے شروع ہوئی تھی۔ یہ دونوں عظیم انسان اپنے عہد کے بد باطن لوگوں کی خباثتوںکا شکار ہوئے، ان کے شکاریوں کے نام بھلا دیے گئے لیکن وہ دونوں تاریخ کے صفحوں پر زندہ ہیں۔

برونو پر چھپنے والا مضمون میں نے ترجمہ کیا جو فوراً ہی شایع ہوگیا۔ ریاستی یا مذہبی اہلکاروں کے تشدد کے خلاف اس وقت سے ذہن میں سوالات اٹھنے لگے تھے اور اس حوالے سے جاننے کی جستجو شروع ہو گئی تھی۔ یہی جستجو ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ان دوسرے اداروں کی طرف لے گئی جو دنیا کے مختلف ملکوں کے نامعلوم عقوبت خانوں میں تشدد کا شکار ہونے والوں کے حال زار کو سامنے لاتے ہیں۔ ایمنسٹی انھیں ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دے کر دنیا بھر میں ان کی رہائی کے لیے مہم چلاتی ہے۔

ہمارے یہاں بھی شاہی قلعے اور دوسرے عقوبت خانوں میں ستم سہنے والے کئی لوگ ’’ضمیر کے قیدی‘‘ قرار دیے گئے۔ ان میں حیدرآباد سازش کیس کے جعلی مقدمے میں قید جام ساقی، کمال وارثی اور بہت سے دیگر سیاسی کارکنوں کو ایمنسٹی نے ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا۔ جام 1988 میںجیل سے چھوٹ کر آئے تو انھوںنے جہاں مجھ سے بہت سوال کیے‘ وہیں میری دو کہانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا تھا کہ تمہیں تشدد سہنے والے قیدیوں سے اتنی گہری دلچسپی کیوں ہے؟

ان کہانیوں میں سے ایک ’’بودوونبوو کا آشوب‘‘ تھی‘ فیضؔ صاحب نے اسےLotus کے لیے انگریزی میں ترجمہ کیا، اس میں ایک کمیونسٹ رہنما کو فوجی ایجنسی اذیتیں دے کر ہلاک کرتی ہے اور وہ گمنام قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ حسن ناصر مرحوم پر ہونے والا ریاستی تشدد اور ان کی ہلاکت کا عکس اس کہانی میں نظر آتا ہے۔ دوسری کہانی ’’جسم وزباںکی موت سے پہلے‘‘ تھی۔ جام ساقی نے اس کے ورق پلٹتے ہوئے مجھے میرے لکھے ہوئے جملے دکھائے تھے اور پوچھا تھا کہ تم نے تہہ خانے میں بند، عقوبتیں سہتے ہوئے کسی شخص کی ذہنی حالت کیسے لکھ لی؟ یہ سب کچھ میں شاید اس لیے لکھ سکی تھی کہ برونو اور منصور حلاج پر کیا جانے والا وحشیانہ تشدد میرے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔

یوں تو ریاستی تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے عالمی منشور 1948 میں بھی پابندیاں عائد کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن یہ 10 دسمبر 1984 کا دن تھا جب تشدد کے خلاف کنونشن کا مسودہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا۔ 146 ممبر ملکوں میں سے 76 نے اس پر دستخط کیے اور 26 جون 1987 سے نافذ العمل ہوا اورجس کی توثیق صرف 20 ملکوں نے کی۔ ایسے متعدد ملک ہیں جنھوں نے ابھی تک اس دستاویز کی توثیق نہیں کی ہے۔ 1998 میں اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے ریاستی تشدد کے سامنے سپر نہ ڈالنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ہم ان لوگوںکی تعظیم کرتے ہیں جنھوںنے ناقابل یقین ستم سہے۔ ہمیں ان ستم سہنے والوں کے بارے میں اپنی زبان کھولنی چاہیے۔‘‘

دنیا میں فراعنہ، شہنشاہوں اور بادشاہوں کے عقوبت خانے زمانۂ قدیم سے قائم ہیں‘ لیکن برونو کے دور سے گوانتانامو بے اور اس سے آگے تک ریاستی تشدد ایک طاعون کی طرح ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اپنے مخالفین کو زیرکرنے، ان سے اپنی پسند کے ’’اعترافات‘‘ کرانے کے لیے دنیا بھر کی حکومتیں کون کون سے حربے استعمال نہیں کرتیں۔ امریکی سی آئی اے ایک عرصے سے اور بہ طور خاص افغانستان اور عراق پر حملے کے بعد سے انتہائی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے دینا، غلیظ پانی میں چہرہ ڈبونا، سر پر پلاسٹک چڑھا کر دم گھونٹنے کی کیفیت پیدا کرنا، ٹانگوں کو چیرا لگانا، جنسی بے حرمتی اور اس بے حرمتی کے لیے تربیت یافتہ کتوں کا استعمال، کئی دن تک سونے نہ دینا، دوائوں کے ذریعے قیدیوں کو ذہنی اختلال میں مبتلا کرنا۔ تشدد اور اذیت کے محض چند معروف طریقے ہیں۔

اسی حوالے سے 1947 میں ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن قائم ہوئی تھی۔ جس کا سبب دوسری جنگ عظیم کے دوران قیدیوں پر کیے جانے والے تشدد کے واقعات میں بعض جرمن اور جاپانی ڈاکٹروںکی شراکت داری تھی۔ یہ ایک ناقابل یقین سی بات ہے کہ ڈاکٹر جو اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد پیشہ وارانہ زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے انسانوں کو درد اور تکالیف سے نجات دلانے اور اس میں رنگ و نسل ، مذہب یا علاقے کی تخصیص نہ برتنے کا حلف اٹھاتے ہیں ان کی نگرانی میں قیدیوں کو اذیت ناک سزائیں دی جائیں، وہ اس بات کا ’’خیال‘‘ رکھنے پر مامور ہوں کہ تشدد صرف اس حد تک کیا جائے کہ قیدی جان سے نہ گزر جائے۔

ا س بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اکیسویں صدی میں ایذا رسانی کے طریقوں میں کچھ کمی آئے گی اور مختلف ریاستوں میں کام کرنے والے اہلکار، ریاست کے بجائے انسانیت کا ساتھ دیں گے لیکن اکیسویں صدی کی دو دہائیاں مکمل ہو چکیں اور ایذا رسانی کی کہانی کچھ اور زیادہ پیچیدہ اور ہولناک ہو چکی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر جب ہیومن رائٹس واچ نے عراق کے قید خانوں کے بارے میں ایک رپورٹ دنیا کے سامنے پیش کی تو معلوم ہوا کہ حکومت وقت سے اختلاف کرنے والوں کو زدوکوب کرنا، کلائیوں کو زنجیروں سے باندھ کر لٹکانا، آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر ہفتوں قیدیوں کو رکھنا اور ان کے نازک اعضاکو بجلی کے جھٹکے دینا، سر غلاظت بھرے حوض میں ڈبونا ایک عام سی بات ہے۔

سب سے زیادہ حیرت یہ جان کر ہوتی ہے کہ مذہب کی دعویدار ایک حکومت میں کوڑے مارنا، ہاتھوں کو کلائی پر سے اس طرح مروڑنا کہ وہ ٹوٹ جائیں اور قیدی ہمیشہ کے لیے معذور ہو جائیں۔ مخالفانہ جلسوں اور جلسوں میں شرکت کرنے والی لڑکیوں اور عورتوں پر مسلسل جنسی تشدد، لڑکوں کے ساتھ بھی جنسی بدسلوکی ایک عام سی بات ہے۔ ایک گلوکار نے جب 2009 میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کی حمایت میں گیت گائے تو اسے گرفتار کر کے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ۔

وہ لوگ جو ان شداید سے گزرے، ان میں سے کچھ لوگ ذہنی طور پر اختلال کا شکار ہوئے اور کچھ جسمانی طور پر نیم معذور ہوئے۔ کرد خواتین اور مرد جنھوں نے اپنے لوگوں کے حق کے لیے آواز بلند کی انھیں موت کی سزا سنائی گئی اور اس سے پہلے ان پر جسمانی اور جنسی تشدد کیا گیا۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے قیدیوں پر ہر طرح کے تشدد کو غیر قانونی قرار دیا لیکن سپریم کورٹ کا حکم ایک طرف اور سادیت پسند جیل حکام من مانی کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ لوگ فلسطینی قیدیوں کو سونے نہیں دیتے، انھیں سگ خانے جیسی کوٹھریوں میں رکھتے ہیں۔ ٹوائلٹ میں کھانے پر مجبورکرتے ہیں اور جسمانی سزائیں دیتے ہیں۔

ہم جو یورپ اور امریکا سے ہزاروںمیل دور ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ریاست، خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے عقوبت خانے موجود ہیں۔ یہ خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ ایجنسیوں اور پولیس کے نجی ٹارچر سیل موجود ہیں جہاں جانے والے بیشتر لوگ واپس نہیں آتے۔ ہمارے سیکڑوں شہری جو لاپتہ ہوئے، ان میں سے کچھ بیرون ملک ’’فروخت‘‘ ہوئے کچھ ملک کے اندر ہی جانے کن عقوبت خانوں میں موجود ہوں گے، ان کی چیخیں ہم تک نہیں آتیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم یہ جانتے تو ہیں کہ بے شمار مجبور و بے بس لوگ سادیت پسنداور ذہنی کج روی کے شکار قاہر و جابر اہلکاروں کے چنگل میں پھڑ پھڑاتے ہیں۔ کیا ہم انھیں یاد بھی نہ کریں؟ کیا ان کے لیے آواز بلند کرنا ہمارا فرض نہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔