بیرونی قرضوں کے اشاریے خطرناک سطح پر پہنچ گئے، ریڈ لائنز عبور

شہباز رانا  اتوار 19 جنوری 2020
قرضے زرمبادلے کے ذخائر کے159فیصد تک پہنچ گئے، وزارت خزانہ وسط مدتی ڈیٹ مینجمنٹ اسٹریٹجی پر مکمل عملدرآمد میں ناکام۔ فوٹو: فائل

قرضے زرمبادلے کے ذخائر کے159فیصد تک پہنچ گئے، وزارت خزانہ وسط مدتی ڈیٹ مینجمنٹ اسٹریٹجی پر مکمل عملدرآمد میں ناکام۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: گزشتہ مالی سال کے دوران ملک کے بیرونی قرضوں کے اشاریئے خطرناک سطح کو چھونے لگے اور کچھ نے وسط مدتی ڈیٹ سٹریٹجی میں طے کردہ ریڈ لائنز کو بھی عبور کرلیا جس سے زرمبادلہ کے حوالے سے بھی رسک میں اضافہ ہوا ہے۔

وزارت خزانہ کی طرف سے گزشتہ روز جاری کردہ پبلک ڈیٹ مینجمنٹ رسک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام تک ملک کے بیرونی قرضے زرمبادلے کے کل ذخائر کے159فیصد تک پہنچ گئے تھے۔تاہم اندرونی قرضوں کے اشاریوں میں بہتری دیکھنے میں آئی اور اس کی وجہ مختصر مدت کے قرضوں کو طویل مدتی قرضوں میں تبدیل کرنا تھا۔ رپورٹ میں جون 2019تک قرضوں کے اعدادو شمار دیئے گئے ہیں جس کے مطابق قرضوں کا حجم32.7ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوارکا 84.8فیصد ہے۔

رپورٹ سے طاہر ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ وسط مدتی ڈیٹ مینجمنٹ سٹریٹجی 2016-19پر پوری طرح عملدرآمد میں ناکام رہی ہے جس کا ہدف نئے قرضے کے حصول کی لاگت اور رسک کے درمیان توازن قائم کرنا تھا۔ رپورٹ میں تشویشناک امر یہ ہے کہ2018-19میں میچیور ہونے والے پاکستان کے قلیل اور طویل مدتی قرضے بڑھ کر جون 2019 میں زرمبادلہ کے ذخائر کے 158.7فیصد تک پہنچ گئے، پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے وقت یہ شرح صرف 80.6 فیصد تھی۔

جون 2019میں زرمبادلہ کے ذخائر 7.28ارب ڈالر تھے جو کہ آئی ایم ایف، اے ڈی بی اور حکومتی سیکورٹیز میں ہاٹ فارن منی کی غیرملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں 11.6ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔غیرملکی سرمایہ کاروں نے ملکی قرضے میں2.2  ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ مجموعی قرضے میں فارن کرنسی قرضہ 32.2فیصد سے بڑھ کر34.8فیصد تک پہنچ گیا جو کہ ڈیٹ سٹریٹجی میں آخری حد ہیجبکہ20فیصد کی شرح محفوظ تصور کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک سے قلیل مدتی قرضوں کو طویل مدتی قرضوں میں تبدیل کرنے کے حکومتی فیصلے کے نتیجے میں ری فنانسنگ اشاریوں میں بہتری آئی جبکہ بیرونی قرضوں سے متعلق ری فنانسنگ کے رسک میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال جون تک اندرونی قرضوں کی میچورٹی کی اوسط مدت ساڑھے تین سال سے بڑھ کر پانچ سال دو ماہ ہوگئی جبکہ بیرونی قرضوںکی میچورٹی کی اوسط مدت ساڑھے سات سال سے کم ہو کر سات سال رہ گئی۔ داخلی قرضوں کے حوالے سے ڈیٹ میچورنگ انڈیکیٹر میں بہتری آئی۔

ایک سال میں اندرونی قرضے کی میچورنگ کی شرح 66.3سے کم ہو کر 36.8فیصد ہوگئی تاہم بیرونی قرضوں کے حوالے سے یہ شرح 12.4فیصد سے بڑھ کر 17.2فیصد ہو گئی جس سے ری فنانسنگ کے رسک میں اضافہ ہوا۔ ایک اور اہم اشاریہ قرضے کی ری فکسنگ کیلئے اوسط مدت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ تین سال دو ماہ کی مدت پر برقرار رہا تاہم بیرونی قرضوں کیلئے یہ مدت ساڑھے چھ سال سے کم ہو کر چھ سال اور ایک ماہ رہ گئی۔

وزارت خزانہ کے مطابق فکسڈ ریٹ اندرونی قرضوں کی شرح میں اضافہ ہوا جبکہ بیرونی قرضوں کی شرح میں کمی آئی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران وزارت خزانہ کے امکانی واجبات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ جون2018میں یہ واجبات 1.236 ٹریلین روپے تھے جو جون 2019تک 1.555ٹریلین روپے تک پہنچ گئے یعنی ایک سال میں 319ارب روپے یا 25.8فیصد کا اضافہ ہوا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔