92ویں آسکرایوارڈ

قیصر افتخار  اتوار 19 جنوری 2020
پوری دنیا سب سے بڑے فلم ایونٹ کی منتظر۔ فوٹو: فائل

پوری دنیا سب سے بڑے فلم ایونٹ کی منتظر۔ فوٹو: فائل

دنیا بھرمیں فنون لطیفہ کے تمام شعبوںکو خاص مقام حاصل ہے اوراس سے وابستہ فنکاروں کو قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ، اس کی بڑی وجہ فنکاروں  کا وہ انوکھا فن ہے، جس کے ذریعے  یہ لوگ جہاں معاشرے کے مسائل کوبڑی مہارت کے ساتھ اجاگرکرتے ہیں، وہیں لوگوں کے اداس چہروں پرمسکراہٹ بھی لاتے ہیں۔

یہی نہیں اکثراوقات توفلموں میں نظرآنے والے نظارے اورآئیڈیاز دیکھ کرانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔  اسی لئے توفنکارکسی بھی  ملک اورقوم سے تعلق رکھتا ہو، اس کے چاہنے والے ہرجگہ موجود ہوتے ہیں، ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ فن اورفنکارکی کوئی سرحد نہیں ہوتی اورنہ ہی اسے قید کیا جاسکتاہے۔

اس اعتبار سے دیکھاجائے توہالی وڈ کی فلم نگری سے جڑے تمام فنکار، تکنیکار بہت خوش قسمت ہیں، جنہیں اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھرمیں پسندکیاجاتاہے،  ہالی وڈ کی فلم نا صرف راتوں رات ریکارڈ بزنس کرتی ہے، بلکہ اس کی کامیابی کے ڈنکے پوری دنیا میں بجتے ہیں۔ اسی مقبول ترین فلم نگری ہالی وڈ سے جڑے آسکرایوارڈز بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

یہ اتنا مقبول ایوارڈ بن چکا ہے کہ اس کے بارے میں سب لوگ بخوبی جانتے ہیں اوراس ایوارڈ کوپانے اوراس کیلئے نامزد ہونے والے فنکاروں، گلوکاروں اورتکنیکاروںکوبہت اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔

اس وقت امریکہ کی ریاست لاس اینجلس میں 92ویں آسکرایوارڈز کی پروقار تقریب کے انعقاد کے سلسلہ میں تیاریاں عروج پرہیں، اس ایوارڈ میں جہاں ہالی وڈ کے فنکاروں کا میلہ سجتاہے، وہیں دنیا بھر سے میڈیا کے نمائندگان بھی اس ایونٹ کی کوریج کیلئے وہاں پہنچتے ہیں، ایوارڈ کی رنگارنگ تقریب جب ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے تواس کومحتاط اندازے کے مطابق کروڑوں لوگ بیک وقت دیکھتے ہیں اورایوارڈ پانے والے فنکاروں کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے مبارکباد اورنیک خواہشات کے پیغام دیتے ہیں۔

بلاشبہ آسکرایوارڈ فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے،  اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اس کوجیتنے کیلئے برسوں کی محنت درکارہوتی ہے، مگربہت سے خوش نصیب فنکارایسے بھی ہیں جن کویہ مختصر عرصے کے بعد ہی مل گیا تھا۔ حالانکہ بہت سے ہالی وڈ فنکاروںکو ہم جانتے ہیں جن کی مقبولیت کے چرچے توپوری دنیامیں ہیں اوران کی فلمیں کاروباری اعتبارسے ہمیشہ ہی بہت آگے رہتی ہیں، لیکن انہیں ایوارڈملنا تودورکی بات ، کبھی آسکرزکیلئے نامزد بھی نہیں کیا گیاہے۔

حالانکہ پاکستان، بھارت اوردنیا کے بیشترممالک میں ایوارڈصرف انہی فنکاروںکو ملتاہے، جن کی عوام میںمقبولیت ہوتی ہے، یا پھر ان کی لابی انتہائی مضبوط ہوتی ہے، جس کی بدولت انہیں ہرسال ایوارڈ نہیں بلکہ ایوارڈز ملتے رہتے ہیں، بلکہ اکثراوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سپرسٹارکے مقابلے میں کسی دوسرے فنکار کی کارگردگی بہت اچھی ہوتی ہے۔۔ لیکن اسے ایوارڈنہیں ملتا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں توایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بالی وڈکنگ شاہ رخ خان کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ وہ کسی اورکو بہترین اداکارکا ایوارڈجیتنے نہیں دیتے۔  اسی لئے  بہت سے بالی وڈ سٹارز اکثرایوارڈز تقریب میں شریک ہی نہیں ہوتے بلکہ بالی وڈ فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے والے اداکارعامرخان توایوارڈز تقریب میں شرکت ہی نہیں کرتے  اوراگران سے اس حوالے سے پوچھا جائے تووہ برملا کہتے ہیں کہ ایوارڈز کا کوئی میرٹ نہیں۔

اسی طرح اگرہم پاکستان کی بات کریں تویہاں بھی ایوارڈ انہی فنکاروں کوملتاہے، جن کی ایکٹنگ جاندارہویانہ ہولیکن لابی جاندارہوتوپھرانہیں بہترین ایوارڈکا’’ٹائٹل‘‘ جیتنے سے کوئی نہیں روک پاتا۔

اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں 92ویں آسکر ایوارڈ پرمرکوز ہیں،  اس کی بڑی وجہ ایوارڈ سے پہلے منظرعام پرآنے والی ایوارڈ  کیٹگری فہرست ہے، جس میں فنکاروں اورتکنیکا روںکو ایوارڈ دیئے جائینگے،  مگرپاکستان کی طرح یورپ ، برطانیہ، چائنہ، آسٹریلیا،جاپان ، بھارت اورافریقی ممالک سمیت دیگرملکوں کی شوبز انڈسٹریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت اب یہ بات سوچنے پرمجبورہوتی جارہی ہے کہ کیا آسکرایوارڈزبھی دوسرے ایوارڈز کی طرح لابی کی مضبوطی کے باعث ملتا ہے یا واقعی اس کی جیوری میں شامل لوگ انتہائی باریک بینی سے میرٹ پرآنے والوںکو ہی ایوارڈ کیلئے منتخب کرتے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان فلم کے سنجیدہ حلقوںکی رائے  آسکرایوارڈ کے بارے یہ ہے کہ یہ واقعی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ بن چکا ہے۔ ایک طرف تواس ایوارڈ شونے اپنے 92برس مکمل کرلئے ہیں اوراب تک جن فنکاروں اورتکنیکاروںکو ایوارڈ ملا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

جہاں تک فنکاروںکی مقبولیت کا تعلق ہے تواس ایوارڈ کیلئے مقبولیت یا  فلم کا ریکارڈ بزنس معنی نہیں رکھتا، اس میں فلم کی کہانی اورفنکاروںکی جاندارپرفارمنس کے علاوہ تکنیکی کام کوترجیح دی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ میوزک میں بھی غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے ہی اس کے حقدار ٹہرتے ہیں، جہاں تک بات انٹرنیشنل فلم کیٹگری کی ہے توپاکستان سے تعلق رکھنے والے شرمین عبیدچینائے  نے دومرتبہ یہ ایوارڈ اپنے نام کیا ہے، ان کی فلموں کونا صرف آسکرایوارڈ جیوری نے سراہا بلکہ دنیا بھرمیں بھی ان کی فلموں کودیکھا اورپسند کیاگیا۔

اسی لئے انہوں نے آسکرکے بعد دنیا کے بیشترفلم فیسٹیولز میں شرکت کرکے ایوارڈاپنے نا م کئے اورپاکستان کانام روشن کیا۔  انہوںنے اپنی صلاحیتوں کے بل پرایسے موضوعات پرفلم بنانے کی جرات دکھائی، جس پراکثرہمارے ہاں سوچا بھی نہیں جاتا۔  دوسری جانب آسکرایوارڈ کی فارن کیٹگری میں جہاں دنیاکے بیشترممالک سے منتخب فلمیںشامل ہوئیں تھیں، ان میں شرمین عبیدچینائے کی فلموں کوایوارڈ ملنے پرہمیں تنقید کرنے کی بجائے فخرکرنا چاہئے، کیونکہ ان کی اس کاوش سے پاکستان کا نا م ناصرف روشن ہوا ہے بلکہ بھرمیں پاکستان کے فنون لطیفہ کابول بالا بھی ہوا ہے۔  اس لئے ہم سمجھتے ہیںکہ آسکرایوارڈز میں لابی سسٹم اوردیگرذرائع کا کوئی عمل دخل ہوتا توپاکستانی فلم میکرکا یہاں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔

آسکرایوارڈز فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں سب سے اہم ہیں اوراب یہ کن کے نام ہوگا، اس بارے میں سب کوبے صبری سے انتظارہے، لیکن  پوری قوم یہ چاہتی ہے کہ شرمین عبیدچینائے کی طرح اب اورپاکستانی فلم میکرز بھی ایسا کام کریں، جس کودیکھتے ہوئے ہرسال آسکرایوارڈ پاکستا ن کے نام ہو۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔