بھارت کی سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 20 جنوری 2020
بھارت کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں۔ فوٹو: فائل

بھارت کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت نے ایل او سی کے دوسری جانب آباد بے گناہ شہریوں پر حملے جاری رکھے تو پاکستان کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوجائے گا۔اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر نہتے شہریوں پر حملے ناصرف معمول بن گئے ہیں بلکہ اس میں شدت بھی آرہی ہے، جس کے پیش نظر لازم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر کی جانب ایل او سی پر عسکری مبصر مشن کی واپسی کے لیے اصرار کرے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ایک خودساختہ اور جعلی حملے کا اندیشہ ہے، وہ بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری پر بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر بھارت نے ایل او سی کے دوسری جانب نہتے شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان کے لیے سرحد پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔

ادھر دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈے پر بھارتی ہائی کمیشن کے سینئر سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ترجمان دفترخارجہ عائشہ فاروقی کے مطابق پاکستان نے داخلی سطح پر انفرادی واقعات کو اقلیتوں کے حقوق سے جوڑنے کا بے بنیاد بھارتی پروپیگنڈہ مسترد کر دیا اور بھارت کو بتایا گیا ہے کہ اس کی یہ سازشیں بھارت کے اپنے اندر اقلیتوں سے ناروا سلوک اور شہریت قوانین جیسے امتیازی اقدامات سے توجہ نہیں ہٹا سکتیں، ان ہتھکنڈوں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی پر بھی پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ترجمان نے کہا کہ بھارت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ پاکستانی قانون ملکی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

بھارت کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں جب سے انتہا پسند سوچ کے حامل نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بنے ہیں تب سے ان کی جانب سے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات کے علاوہ ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان بھارت کی جانب سے بلااشتعال سرحدی خلاف ورزیوں پر متعدد بار احتجاج کر چکا ہے‘ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان فلیگ میٹنگز کے بھی کئی دور ہو چکے ہیں جس میں بھارتی فوجی حکام نے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور سرحدوں کو پرامن رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ لیکن ان کی یہ تمام یقین دہانیاں ریت پر لکھے الفاظ ثابت ہوئیں اور فلیگ میٹنگز کے اگلے ہی روز فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھارتی افواج کا وتیرہ چلا آ رہا ہے۔

دو روز پیشتر بھی لائن آف کنٹرول کے کھوئی رٹہ سیکٹر میں بھارتی فوج کی شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے ایک خاتون شمیم ساجد زخمی ہو گئی تھیں جب کہ پاک فوج کے بھرپور جواب پر دشمن کی گنیں خاموش ہو گئیں۔ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو ہفتے کو دفتر خارجہ طلب کرکے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی‘ دفتر خارجہ نے کہا کہ شہری آبادی کو دانستہ نشانہ بنانا انتہائی قابل افسوس‘ انسانی عظمت و وقار‘ عالمی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کے صریحاً منافی ہے۔ بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی ان خلاف ورزیوں سے علاقائی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں جس کا نتیجہ اسٹرٹیجک غلطی کی صورت میں نکل سکتا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق بھارت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو اپنا کردارادا کرنے کی اجازت دے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ خطہ کسی نئی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لیے، مذاکرات کے ذریعے معاملات کے پرامن حل کا حامی ہے، پاکستان، امریکا کے ساتھ جامع، طویل المدتی اور کثیر الجہتی شراکت داری پر مبنی دو طرفہ تعلقات کا خواہاں ہے، امریکا مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیے کا نوٹس لیتے ہوئے کرفیو کے خاتمے اور کشمیریوں کو ان کا جائز حق ’’حق خود ارادیت‘‘ دلانے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے۔ وزیر خارجہ نے وائٹ ہاؤس میں امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن سے ملاقات کی۔

وزیر خارجہ کی ستمبر 2019 کو تعینات ہونے والے نئے امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ دوران ملاقات پاکستان‘ امریکا دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ پاکستان خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے اپنا تعمیری اور مثبت کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن اس کے ہمسایے میں بھارت اس کے لیے نا صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے عالمی دنیا بخوبی آگاہ ہے‘ انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں بھارتی افواج کے کشمیریوں سے روا رکھے گئے مظالم پر متعدد رپورٹیں شایع کر چکی ہیں لیکن اس سب کے باوجود نہ تو بھارت اپنے مظالم سے باز آیا اور نہ عالمی قوتوں ہی نے اس سلسلے میں کوئی موثر کردار ادا کیا۔ بھارت کے اندر اقلیتوں اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم تو رہے ایک طرف وہ اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف بھی شرانگیزیوں سے باز نہیں آ رہا۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم  اور وہاں کرفیو نافذ کر کے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ اب وہ مقبوضہ کشمیر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آسانی سے اپنا تسلط قائم اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن کشمیریوں نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ بھارت خواہ تشدد کا کوئی بھی رنگ اختیار کر لے وہ ان کے جذبہ حریت کو ختم نہیں کر سکتا اور کوئی بھی ظلم ان کی تحریک کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

بھارت کی شرانگیزیوں اور اقوام متحدہ کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے بالآخر وزیراعظم عمران خان کو یہ کہنا پڑا کہ بھارت نے سرحدی خلاف ورزیاں جاری رکھیں تو پاکستان کے لیے خاموش رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارت کی درپردہ بے جا حمایت  کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ جب تک یہ مسئلہ موجود ہے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔بھارت پاکستان کے ساتھ مسلسل سازشیں کررہا ہے ، ان حالات میں پاکستان کو ہوشیار رہنا چاہیے تاکہ کسی بھی بھارتی سازش کا بروقت جواب دیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔