ترقیاتی فنڈز، ترقیاتی کام

ظہیر اختر بیدری  پير 20 جنوری 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہماری سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ انتخابات میں عموماً کوئی جماعت اتنی اکثریت سے کامیاب نہیں ہو پاتی کہ کسی ’’اتحادی یا اتحادیوں‘‘ کے بغیر حکومت بنا سکے۔ جو جماعتیں کچھ سیٹیں لے کر کسی نہ کسی طرح حکومت کی اتحادی بن جاتی ہیں ان کی لی ہوئی نشستیں بھی ’’خالص‘‘ نہیں ہوتیں، اس میں کئی ایک مصلحتوں کے تڑکے لگے ہوتے ہیں۔ اس مصلحتی سیاست کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند قدم چلتے ہی اتحادیوں کو حکومت سے ’’جینوئن‘‘ شکایتیں شروع ہو جاتی ہیں جن کا تعلق ’’فنڈز‘‘ سے ہوتا ہے۔ اتحادی عوام کے لیے ’’ترقیاتی‘‘ کام کرنا چاہتے ہیں اور حکومت انھیں اس عوامی کام کے لیے فنڈز دینے میں ہچر مچر کرتی ہے۔ حکومتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ سارے ترقیاتی کام وہ خود ہی کر ڈالے لیکن حکومتوں کی مجبوری یہ ہے کہ عوام انھیں اتنی اکثریت سے نہیں جتواتے کہ وہ اکیلے ہی اس کے ترقیاتی کام کرا لیتی۔

ہماری دیسی جمہوریت کی یہی ایک خوبی ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں کو اتنے ووٹ (احتیاطاً) نہیں دیتے کہ وہ عوام کے سروں پر بیٹھنا شروع کر دیں، اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مخلوط حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور پھر جوتیوں میں دال اس طرح بٹنے لگتی ہے جیسے اتحادیوں میں ترقیاتی فنڈز بٹتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر عوام کے ’’بھر پور اعتماد ‘‘ کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ پاکستان جتنا پرانا ہے۔ ایسا بھی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی حکومتیں بھی گزری ہیں جنھیں اتحادیوں کی قطعی ضرورت نہیں رہی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام ان پر بھرپور اعتماد کرتے تھے لیکن اسے ہم ہماری قوم کی بدقسمتی کہیں یا حکومتوں کی خوش قسمتی کہ ایسا یا تو ہوا نہیں یا بہت کم ہوا کہ حکومتوں کو اتحادیوں کی ضرورت نہیں پڑی۔

آج کل بھی عمران حکومت میں ایک سے زیادہ اتحادی موجود ہیں، اتحادیوں کی ایک نفسیات یہ ہوتی ہے کہ اگر ایک اتحادی حکومت سے ’’بوجوہ‘‘ ناراض ہو جائے تو پھر ناراضوں کی لائن لگ جاتی ہے، پھر بے چاری حکومت ایسے عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس سے نکلنا کارے دارد ہو جاتا ہے۔ اصل میں عموماً حکومتوں اور اتحادیوں میں فنڈز یعنی ترقیاتی فنڈز پر ہی اختلاف ہوتا ہے۔ اتحادی جتنی جلد یعنی پلک جھپکتے ترقیاتی کام نمٹانا چاہتے ہیں اور حکومت ذرا حوصلے اور دھیرج سے یہ نیک کام کرنا چاہتی ہے تاکہ حکومتی خزانے میں ایک دم الّو نہ بولنے لگیں۔ بے چارے اتحادی ان نزاکتوں کو نہیں سمجھتے، وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور حکومت سمجھتی ہے جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے اس لیے وہ ترقیاتی فنڈز روک روک کر اسی طرح دیتی ہے کہ بدہضمی کا کم سے کم خطرہ ہو۔

ایم کیو ایم بھی حکومت کی ایک اتحادی بلکہ بڑی اتحادی جماعت ہے۔ ایم کیو ایم بھی حکومت پر دباؤ ڈالتی ہے لیکن ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں بہت احتیاط سے بہت دھیرے دھیرے تاکہ حکومت کسی جھٹکے کا شکار نہ ہو، یہ طریقے بڑے تجربات بڑی کاوشوں کے بعد سمجھ میں آتے ہیں۔ ہمارے کرکٹر وزیر اعظم پہلے پہلے پہل بہت جذباتی ہونے کے ساتھ میں جلد باز بھی تھے لیکن ایک تو چوبیس گھنٹے خاں صاحب فاتحہ درود کی چھاؤں میں رہتے ہیں جس کی وجہ کسی قسم کے کوئی ’’آسیب‘‘ کا انھیں کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ ویسے بھی عمران بھائی اس چودہ ماہ کی مختصر مدت میں اس قدر ’’ہوشیار‘‘ ہوگئے ہیں کہ ہر کام نہایت احتیاط سے بلکہ غیر معمولی احتیاط سے کرتے ہیں۔اور ایم کیو ایم سے کیونکہ عمران بھائی کی بہت پرانی یاد اللہ ہے لہٰذا اللہ بہتر ہی کرے گا۔

ادھر ہمارے دوسرے اتحادی مسلم لیگ (ق) سے جڑے دو کزن ہیں ایک چوہدری شجاعت دوسرے چوہدری پرویز الٰہی، اللہ اس جوڑی کو سلامت رکھے تجربہ انھی دو بھائیوں کے نام سے جانا جاتا ہے، ہر کام اس سلیقے سے کرتے ہیں کہ سلیقہ بھی فخر کرتا ہوگا۔ اس کے علاوہ کئی حکومتوں کی چھلنی سے اس طرح چھن کر نکلے ہیں کہ آٹے میں بھوسی کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا اگر عمران خان کا کوئی باوثوق اتحادی ہے تو وہ ہے چوہدری برادران۔ ان کی اہلیت دیکھ کر ہی عمران خان نے پنجاب میں اتنی اہم جگہ پر انھیں رکھا ہے اور امید نہیں یقین ہے کہ چوہدری برادران عمران خان کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی اور اتحادی ہیں اور وہ اس قدر نیک اور ایماندار ہیں اور عوام سے اس قدر مخلص ہیں کہ اس کی نظر ہر وقت ترقیاتی کاموں ہی پر لگی رہتی ہے۔

ہماری دیسی جمہوریت میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر کام عوام کے نام سے شروع ہوتا ہے، عوام کے نام پر ختم ہو تا ہے۔ بھٹو سے پہلے عوام کے نام سے بس واجبی سی واقفیت تھی بھلا ہو بھٹو کا اس نے عوام کے نام کو اس قدر عام اور پاپولر بنا دیا کہ آج کوئی سیاستدان عوام سے بسم اللہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھتے پہلے عوام پارٹیوں کے کام خاص طور پر منشور وغیرہ میں بہت دلچسپی لیتے تھے آج کل یا تویہ زندہ باد کے نعروں میں لگے ہیں یا لیڈر کی گاڑی کو گلاب سے لادنے میں۔

آمد برسر مطلب قارئین کہیں گے کہ بیدری صاحب نے اب تک تین چوتھائی کالم گزر گیا کام کی کوئی بات ہی نہیں کی؟ آپ کا اعتراض بجا بلکہ سر آنکھوں پر، لیکن ہماری عادت ہے کہ کام کی بات کے لیے فضا پہلے بناتے ہیں تاکہ قارئین کو کالم نہ سخت لگے نہ بور۔ اب دیکھیے ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) وغیرہ کے ذکر خیر کے بعد ہم آتے ہیں اتحادیوں کے ترقیاتی فنڈز کی طرف۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ منتخب نمایندے منتخب اس لیے ہوتے ہیں کہ عوام کے لیے ترقیاتی کام کریں اور ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے لیے بھاری فنڈز یعنی اربوں میں فنڈ درکار ہوتا ہے۔

72 سال میں عوام کی ترقی کے لیے کھربوں کا فنڈ استعمال ہوا لیکن اس حوالے سے ناقدین اعتراض یہ کرتے ہیں کہ کھربوں روپے نظر نہیں آتے، نظر آئیں گے بھی کیسے کیونکہ سارے ترقیاتی کام انڈر گراؤنڈ ہوتے ہیں اور انڈر گراؤنڈ کام نظر نہیں آتے۔ ہمارے قارئین کا خیال ہے کہ اگر ترقیاتی کام کرنے والوں کو بھی انڈر گراؤنڈ کردیا جائے تو انڈر گراؤنڈ کام دیکھنے والے کچھ تو لوگ ہوں گے۔

اس حوالے سے ہماری ایک تجویز ہے کہ جن لوگوں کو یعنی ایم این اے اور ایم پی اے کو جو ترقیاتی فنڈز دیے جائیں خواہ وہ اربوں ہی میں کیوں نہ ہوں ان کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ہر روز تسلسل کے ساتھ پبلسٹی کی جائے، ترقیاتی کاموں کی جگہ تفصیل کے ساتھ دی جائے اور عوام کو یہ آفر دی جائے کہ جو سب سے زیادہ ترقیاتی کاموں کو عوام کے سامنے لائے گا اسے ترقیاتی ایوارڈ معہ نقد انعام کے دیا جائے گا، پھر دیکھیے اللہ کیا کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔