میں واصف علی ہوں

عینی نیازی  پير 20 جنوری 2020

کتنے خوش بخت اور بانصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے گھرانوں میں یا آس پاس ایسی پڑھی لکھی درویش صفت شخصیت موجود ہو ، جو فہم وفراست اور زمانہ شناس ہو ، صحیح اورغلط کا مفہوم جانتی ہو ، درست مشورہ دے کر دنیا کی حقیقتیں آپ پر خلوص نیت و سچائی کے ساتھ واضع کر دے ، ایسی شخصیت کے گرد ایک مقناطیسی ہالا ہوتا ہے، جو آپ کو خود بخود اپنی کے جانب کھنچتا چلاجاتا ہے ہرکوئی ان کے قریب رہنا چاہتا ہے۔ ان سے باتیں کرنا چاہتا ہے ، ایسی ہی ایک شخصیت واصف علی واصف کی تھی انھیں قریبی اور خونی رشتوں کا بہت پاس تھا، ان کو فائدہ اور آسانی دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے کیا غیر بھی ان کے اردگرد رہنا چاہتے تھے۔

اس درویش کی باتیں سنتے تھے ، مشوروں پر عمل کرتے تھے ، ایسے پر خلوص انسانوں کی ہر دور میں سخت ضرورت رہی ہے اور آج کے زمانے میں توکچھ زیادہ ہی کمی محسوس ہوتی ہے، اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو ان کی کتابیں افکاروشا عری ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں، ہمیں چاہیے کہ انھیں پڑھیں اور دنیا کے مسائل و چیلنجز کا سامنا واصف علی وا صف کے افکارکی رو شنی میںکریں۔

واصف علی واصف 15 جنوری29 19ء کو ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم خوشاب میں حاصل کی وہ ایک ذہین طالب علم تھے۔ میٹرک تک اپنے اسکول میں اول پوزیشن لیتے رہے ، اسلامیہ کالج اور پھر پنجاب یورنیورسٹی سے انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ ایک ہونہارطالب علم کی حیثیت سے ساتھ ہی دیگر سرگرمیوں میںحصہ لیتے رہے۔ ہاکی بہت اچھی کھیلی یورنیوسٹی سے ایوارڈ آف آنرز سے نوازا گیا 1954 ء میںسول سروس کا امتحان پاس کیا ، پولیس ٹریننگ حاصل کی لیکن ان کی طبیعت تعلیم و تدریس کی جانب مائل تھی۔ اس لیے استاد کی حیثیت سے کیریئرکا آغازکیا۔ ایک مقامی کالج میں بحیثیت استاد پڑھانے لگے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنا کالج کھول لیا ، جہاں علم کی روشنی ہر خاص و عام کے لیے تھی۔

نادار طالب علموں پر خصوصی توجہ دیتے ، مالی مدد بھی فرماتے تھے۔ واصف علی واصف پڑھے لکھے روشن خیال دنیا کو سچ جھوٹ کی کسوٹی پر پرکھنا جانتے تھے ، وہ ایک صاف ستھرے نفیس اورگریس فل شخصیت کے ساتھ جدید اور مشرقی لباس پہنتے تھے جس میں صوفیانہ وقارجھلکتا تھا۔ ان کی شخصیت کا اور عقیدت مندوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا ، انھوں نے درویشی مزاج کے ساتھ زندگی بہت بیلنس سے گزاری دین ودنیا ساتھ لے کر چلے۔

ایک استاد کے ساتھ ساتھ واصف علی واصف ایک کالم نگار ، شاعر اورصوفی بھی تھے ، آپ نے انڈیا بریلی شریف میں نیاز احمد سے بیعت لی اور تصوف کی راہ اپنائی۔ آپ کی تحریروں میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہیں آپ کا صوفیانہ کلام پاکستان کے تمام بڑے گلوگاروں نے بڑی عقیدت سے سنایا۔ صوفیانہ کلام کے ساتھ ساتھ واصف علی واصف نعت گو شاعر بھی تھے، اللہ اورحضور ﷺ کے سچے عاشق تھے ، اس لیے نعتوں میں آقا کریم ﷺ کی سچے عشق کی تڑپ محسوس ہوتی ہے۔ بقول واصف علی واصف۔

تری یاد کا ولی ہوں

کہ میں واصف علی ہوں

واصف علی واصف نے لگ بھگ تیس کتابیں لکھیں جن میں قطرہ قطرہ قلزم ، بات سے بات ، دل دریا سمندر، حرف حرف عقیدت ، ذکر حبیب ، مکالمہ شامل ہیں۔ آپ کے چند قیمتی افکار جو آج کے زمانے میں بھی لاگو ہیں اور ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں، جتنا تم اللہ سے راضی ہو، اتنا اللہ تم سے راضی ہے، خوش نصیب ہے وہ جو اپنے نصیب پر راضی ہے ، جو شخص سجدوںمیں روتا ہے، اسے تقدیر پر نہیں رونا پڑتا ، اگر تمہاری اولاد تم سے راضی ہے تو تمہاری دنیا بن گئی اگر والدین راضی ہیں تو آخرت بن گئی ، خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر را ضی ہو ، غم چھوٹے انسان کو کھا جاتا ہے ، بڑے انسان کو بنا جاتا ہے ، پریشانی خیالات سے پیدا ہوتی ہے، اچھے خیالات رکھیے۔

پاکستان کے حوالے سے فرماتے تھے کہ پاکستان نور ہے اور نور کو کبھی زوال نہیں۔ واصف علی واصف کو پاکستان سے بے حد محبت تھی۔ نوجوانی میں امرتسر میں قائد اعظم کے ساتھ مسلم لیگ میں شامل تھے اور پاکستان کے لیے جدوجہد بھی کی ، آج جس طرح ہمارا معاشرہ شدت پسندی ، نفرت ، جھوٹ ، بناوٹ کی دلدل میں گھرا ہوا ہے ، اگر واصف علی واصف کے دیے ہوئے افکار زندگی کو پڑھا اور عام کیا جائے تو ہمارے سماج میں ذہن و قلب کو بدلا جاسکتا ہے کیونکہ آپ کے افکار سوچ بدلنے کا جادو رکھتے تھے۔ واصف علی واصف کی تحریریں اخبارات میں کالم کی شکل میں شایع ہوتی تھی ، جنھیں پڑھنے والے قارئین کی طویل فہرست زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

واصف علی واصف کی حیات میں عقیدت مند مسائل کے حل کے لیے آپ کے پاس آتے تھے، سر خرو ہوکر جاتے تھے ،آپ مالی طور پر بھی ان کی امداد کیا کرتے اورآپ کی باتیں د کھی دلوں پر مرہم کا کام کرتی تھیں نہ صرف عام طبقے سے تعلق رکھنے والے بلکہ کئی معتبر و اعلیٰ شخصیات بھی آپ کی محفلوں میں شامل ہوتیں، آپ بناء کسی غرض و مفاد کے سب کے قریب تھے۔ آپ مختصر اقوال میں بڑے کام کی باتیں کہہ جاتے تھے گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اسی درویش صفت کا قول ہے کہ سفر پر نکلنے کا کمال ہے کہ آخری منزل تک پہنچنا۔ انھوں نے18  جنوری1993ء کو زندگی کو خیر باد کہا۔ واصف علی واٖصف کے کلام کو انگریزی اور دیگر زبانوں میں ڈھالا جا رہا ہے۔ ان پر تھیسس لکھے گئے اور پی ایچ ڈی کی جا رہی ہے وہ روشنی کا مینار ہیں اور ان کی تحریریں ہمیشہ سیکھنے والوں کے لیے مشعل راہ رہیں گی۔ بقول واصف علی واصف کچھ لوگ زندگی میں مردہ ہوتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔