آئندہ سانحات سے نمٹنے کیلئے مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوںگے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 20 جنوری 2020
حکومتی و اپوزیشن نمائندوں اور متاثرین کا ’’ایکسپریس فورم مظفر آباد‘‘ میں اظہار خیال

حکومتی و اپوزیشن نمائندوں اور متاثرین کا ’’ایکسپریس فورم مظفر آباد‘‘ میں اظہار خیال

گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں بارشوں، برفباری اور لینڈ سلائیڈنگ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی جس میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اوردرجنوں زخمی ہوئے جو تاحال زیر علاج ہیں۔

اس تباہی کے فوری بعد سے حکومت پاکستان، حکومت آزاد و جموں کشمیر، افوج پاکستان و دیگر ادارے حرکت میں آئے اور امدادی کارروائیاں کی گئیں۔ وزیراعظم آزاد و جموں کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مظفرآباد کا دورہ بھی کیا۔

یہ افسوسناک سانحہ تو ہوگیا مگر ایسے سانحات کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ نقصانات سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟ حکومت اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہیں؟ ادارے کیا کام کر رہے ہیں؟ اس میں کس کی کوتاہی ہے اور مستقبل کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں جن کے جوابات جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم مظفر آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی واپوزیشن نمائندوں اور متاثرین نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

زاہد امین

(چیئرمین وزیراعظم معائنہ و عملدرآمد کمیشن، آزاد و جموں کشمیر)

2005ء کے زلزلے کے بعد ارضیاتی اعتبار سے ہم درجہ چہارم میں چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے قدرتی آفات  کے خطرات بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق تو اب یہاں زیادہ زلزلے و آفات آئیں گی۔ مظفرآباد کے حوالے سے JICA کی رپورٹ میں یہی لکھا ہے ، اسی طرح نارویجین، امریکن و دیگر اداروں کی رپورٹس میں بھی لکھا ہے کہ اب یہاں زیادہ بارشیں ، زیادہ برفباری ، زیادہ لینڈ سلائیڈنگ ہوگی، زیادہ زلزلے آئیں گے وغیرہ اور ہمیں اس حوالے سے زیادہ تیاری کی سفارش کی گئی تھی۔ امریکا سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مسائل ہوتے ہیں مگر وہ اپنے تجربات سے سیکھ کر اقدامات کرتے ہیں۔

دنیا میں آفات سے پیشگی تیاری پر زیادہ کام ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ آزاد کشمیر ایسے نہیں چل سکتا جیسے چلایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں تین بڑی کرینیں آئی ہیں، یہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کھڑی کر دی جائیں گی۔ خدشہ ہے کہ ماضی کی کرینیوں کی طرح یہ بھی کھڑی کھڑی ناکارہ نہ ہوجائیں، اس حوالے سے موثر اقدامات کیے جائیں۔ بہت پہلے ماہرین نے کہا تھا کہ لنک روڈزیادہ نہ بنائیں،پہاڑوں کو مت چھیڑیں مگر ہم نے سڑکیں بنا کر علاقوں کو خطرے میں ڈالا اور جنگلات کا بے جا کٹاؤ کیا ۔ جس تیزی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، اس میںکوئی بھی ادارہ حالات کو مینج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوسکتا۔ دنیامیں جہاں بھی تعمیر و ترقی ہوئی اور خطرات کا مقابلہ کیا گیا تو انہوں نے آبادی پر قابو پانے پر بھی توجہ دی ۔ بے شمار ایسے معاملات ہیںجو آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کے اثرات معاشرے پر ہوتے ہیں۔ لوگوں کے پاس گھر بنانے کی جگہ نہ ہوتو وہ ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جو خطرناک ہے،اس سے نقصانات ہوتے ہیں۔

بھارتی فائرنگ کی وجہ سے  لوگ نکل مکانی کر کے آجاتے ہیں،ا ن کے حوالے سے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ ایسے لوگوں کو زبردستی باہر نہیں بھیجا جاسکتا۔ حکومت کو تمام مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔ ایس ڈی ایم اے کا پیشگی اطلاع دینے کا کردار ہے مگر یہ اطلاع گاؤں میں کیسے جائے گی؟ ریڈیو ایک ذریعہ ہے مگر 14 برس سے مظفرآباد ریڈیو کا ہائی پاور ٹرانسمیشن کام نہیں کر رہا۔ ہم اس حوالے سے تین میٹنگز کر چکے ہیں کہ ہم اس طرف توجہ دیں تاکہ لوگوں کو بروقت اطلاع دی جاسکے۔

ہر جگہ تعمیرات ہورہی ہیں، گاؤں بھی تباہ ہورہے ہیں،اس حوالے سے ابتدائی مسودہ سیکرٹری قانون کے پاس موجود ہے، اس سے یقینا بہتری آئے گی۔ ہمارا حکومتی نظام فرسودہ ہے۔ اداروں میں میرٹ پر لوگ لانے اور ایمانداری سے کام کرنے سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے 70ء کی دہائی میں آزاد کشمیر کی حکومت کو ایک منصوبہ دیا تھا کہ اچھے ٹاؤن بناکر آبادی کے انخلاء کو روکیں اور لوگوں کو ایک ہی جگہ بہترسہولیات دیں۔ اس پر عمل نہیں ہوسکا اور آج ہم شدید مسائل کا شکار ہیں۔ خطے کو درپیش قدرتی آفات کے خدشات کے پیش نظر جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ میرے نزدیک پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام قائم کرنے سے قبائل و برادریوں میں تقسیم آزاد کشمیر کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

سعید قریشی

(ڈائریکٹر سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آزاد و جموں کشمیر )

قدرتی آفات میں ہمارے اعمال کا بڑا عمل دخل ہے۔ جو کام ہم کرتے ہیں ان کی وجہ سے آفات آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں توازن قائم رکھا ہوا ہے۔یونان کا فلسفہ تھا کہ حادثاتی طور پر یہ کائنات بن گئی۔ پھر آسٹریلوی سائنسدان ایڈون ہبل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ کائنات خاص میکانزم کے تحت بنی ہے۔ 1981ء میں سٹیفن ہاکنز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کائنات میں ایک عجیب سا توازن ہے لہٰذا میں یہ مان نہیں سکتا کہ یہ کائنات محض اتفاق یا حادثہ ہے۔ جب ’بگ بینگ‘ ہوا تو اس میں دو قوتیں بنیں۔ ایک قوت اس مادہ کو پھیلا رہی تھی جبکہ دوسری قوت سکیڑ رہی تھی۔ اگر ان فورسز میں عدم توازن ہو جائے تو یہ کائنات یا تو پھیل کر ختم ہوجائے یا پھر سکڑ کر۔ یہ توازن اتفاق یا حادثہ نہیں ہے بلکہ کوئی بہت بڑی طاقت ہے جو اسے چلا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک توازن رکھا ہے مگر ہم نے اسے خراب کیا۔ آج دنیا کا کوئی بھی ملک آفات سے خالی نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، سب ہی آفات کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہورہے ہیں۔

سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے، جنگلات ختم ہورہے ہیں، قدرتی وسائل کو ضائع کیا ہے اور بڑے پیمانے پر شہر آباد کیے جارہے ہیں۔ 2005ء کا زلزلہ ہمارے لیے ایک بڑا سبق تھا جس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہاں جو باتیں ہوئیں مجھے سن کر خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے اندر سوک سینس آگئی ہے اور اب ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ آج سے ایک دہائی قبل شاید یہ صورتحال نہیں تھی مگر آب سب کو معلوم ہے کہ بنیادی وجوہات کیا ہیں اور کس وجہ سے مسائل آتے ہیں۔ 2005ء کے بعد ایک ایکٹ کے تحت ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قائم کی گئی جس کا کام آفات کے حوالے سے انتظامات کرنا ہے۔ یہ صرف آفات کے بعد ہی نہیں بلکہ ان سے پیشگی معاملات کو بھی دیکھتی ہے کہ کون کون سی آفات کا خدشہ ہے اور پھر اس حوالے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جاسکتامگر ان کے اثرات کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اس حوالے سے کام کر رہی ہے اور وسائل بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔

ہم ہر سانحہ سے سیکھ رہے ہیں اورپہلے سے مزید بہتر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ نیلم وادی کا واقعہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس حوالے سے پہلے سے خبردار کیا جاچکا تھا۔ہم نے متعلقہ اداروں کو وارننگ دی تھی کہ اس علاقے میں شدید برفباری ہوگی جس سے لینڈ سلائیڈنگ وغیرہ کا خدشہ ہے۔ہم نے 10 جنوری اور 12 جنوری کو دو وارننگز جاری کی تھیں، اب بھی ہم نے ایک وارننگ جاری کی ہے۔ شدید طوفانی بارش اور برفانی تودے کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ یہ کس علاقے میں ہونگے اور کس وقت ہونگے۔ شدید برفباری ہوئی، ڈھلوان زیادہ تھی اس لیے برف رک نہیں سکی۔ اس کے علاوہ جنگلات کا ختم ہونا بھی اس کی وجہ ہے۔ پہلے بھی لینڈ سلائیڈنگ ہوتی تھی مگر جنگلات کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہوجاتی تھی۔ لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ برفانی تودے کس موسم میںآتے ہیں۔

اس موسم میں اتنے بڑے سانحہ کی توقع نہیں تھی۔ افسوس ہے کہ اس سانحہ میں 78 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا جبکہ 56 افراد زخمی ہوئے جنہیں مظفرآباد اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بھیجا گیا۔ 202 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس سانحہ کے حوالے سے تمام اداروں نے امدادی کام کیا ہے۔ قدرتی آفات کو رسپانس یا مینج کرنا کسی ادارے کے بس کی بات نہیں بلکہ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ میڈیا، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، رسپانس اور آگاہی کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔

میاں عبدالوحید

(سابق وزیر جنگلات، آزاد و جموں کشمیر)

دنیا حادثات سے عبارت ہے۔ خیر و شر کی قوتیں دنیا میں موجود ہیں جبکہ حادثات کا ہونا فطری عمل ہے۔ اللہ نے ہمیں عقل ، علم، بصیرت ، آنکھ، کان، زبان، ہاتھ و دیگر نعمتیںکسی مقصد کے تحت ہی عطا کی ہیں۔ ہمیں جدوجہد، فکر و تدبر کا درس دیا گیا ہے۔ حادثات ہوتے ہیں اور ہوتے ہیں گے مگر اللہ نے جو عقل دی ہے اس سے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اگر سارے معاملات تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیں تو میرے نزدیک یہ انسان ہونے کی نفی ہوگی۔ اللہ نے اشرف المخلوقات بنا کر ہمیں بے پناہ چیزیں عطا کی ہیں جن میںسے ایک غور و فکر ہے ۔

نیلم وادی میں جو حادثہ ہوا میرے نزدیک یہ انسانی المیہ ہے۔ عرصہ دراز سے حادثات ہورہے ہیں۔ یہ گزشتہ 15 سے 20 برس میں اسی وادی میں تیسرا بڑا سانحہ ہے۔ 1996ء کے حادثے میں 36 قیمتی جانیں گئیں، اس وقت گلیشئر نے اپنا رخ موڑا اور گاؤں میں داخل ہوگیا۔ انسانی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی کہ رخ تبدیل کیسے ہوا۔ 2005ء میں میتانوالی میں شدید برف باری ہوئی، گلیشئر اور لیڈ سلائڈنگ سے پورا گاؤں تباہ ہوگیا۔ میتا نوالی سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر سب ڈویژن ہیڈ کوارٹر ہے مگر وہاں 55گھنٹے بعد انفارمیشن تک پہنچی۔ اگر بروقت انفارمیشن کا کوئی نظام ہوتا تو وہاں پاک فوج کے دستوں کی مدد سے انسانی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

2005ء میں سیری میں بھی سانحہ ہوا۔ 12سے 14 لوگ اس وقت بھی گلیشئر کی زد میں آئے۔ انسانی عقل اسے آج بھی تسلیم نہیں کرتی کہ یہ کیسے ہوا۔ بہت سارے ایسے حادثات ہورہے ہیں جو انسانی عقل و فہم سے بالاتر ہیں۔ اس ساری کیفیت کو ایک طرف رکھیں۔ ہم نے بڑے پیمانے پر درخت کاٹے ہیں، اب خود رو جھاڑیوں کو بھی کاٹا جا رہا ہے اور اس طرح قدرت کے بنائے گئے برف کو پکڑنے اور روکنے کے میکانزم کو ختم کردیا گیا ہے۔

اس طرح کے سانحات کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ریاست اس کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے کہ اس نے جنگلات کی کٹائی کو ریونیو بڑھانے کا ذریعہ سمجھا۔ ہمارے ہاں شعور اور علم کی کمی تھی مگر آج حالت پہلے سے بہت بہتر ہے۔ کل جہاں 4 گریجوایٹ ہوتے تھے آج وہاں 4 ہزار گریجوایٹ ہیں۔ آج اس خطے میں درجنوں یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں علم آگیا، شعور بھی آگیا مگر ریاستی میکانزم میں احساس ذمہ داری نہیں آیا۔ حالیہ حادثے میں ادارہ جاتی ناکامی سامنے آئی ہے۔ ہمارے اداروں میں صلاحیت نہیں ہے۔میں نے  حادثے کی اطلاع ملنے پر جب ڈپٹی کمشنر کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے میٹنگ میں جا رہے ہیں۔

اس کے بعد تواتر سے حادثات کی خبریں آنا شروع ہوئی۔ میں جب ڈی سی آفس پہنچا تو 3 گاڑیوں کو روانہ کیا جا رہا تھا، میں نے ان سے کہا کہ یہ گاڑیاں 15 دن بعد بھی جائیںتو جائے  حادثہ پر نہیں پہنچ سکتی۔ آپ کو معلوم ہے کہ برف کی وجہ سے حالت کیا ہے اور وسائل بھی آپ کے سامنے ہیں لہٰذا چیف سیکرٹری و ارباب اختیار سے بات کریں، پاک فوج کی مدد لی جائے اور ان لوگوں کو ریسکیو کیا جائے۔

پاک فوج ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرویلنس کرے اور لوگوں کو ریسکیو بھی کرے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر اور چیف سیکرٹری کے رابطہ کرنے پر پاک فوج نے امدادی کارروئیاں کیں جس سے فائدہ ہوا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے بھی زیادہ نقصان ہوتا کیونکہ سول ایڈمنسٹریشن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ میں اس فورم کے توسط سے پاک فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی مدد سے لوگوں کو ریلیف ملا ہے۔ ہمارے پاس منیجریئل سکلز کی کمی ہے۔

محدود وسائل میں بہتر مینجمنٹ سے اچھا کام کیا جاسکتا ہے۔ نیلم وادی میں اچھے اور قابل افسران کی ضرورت ہے جو پہلے سے ہی حالات کو بھانتے ہوئے اقدامات کرسکیں۔ جو اپ ڈیٹ رہیں اور دستیاب وسائل کا بہترین استعمال کرسکیں۔ آج سے 10 برس قبل اس انفارمیشن تک رسائی نہیں تھی جس تک آج ہے لہٰذا میرے نزدیک حالیہ سانحہ میں نااہلی اور قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اداروں کی کپیسٹی بلڈنگ کی ضرورت ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی حوالے سے ذمہ دار ہیں اور خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ بطور انسان ہم جو تخریب کاری کرتے ہیں، فطرت کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے نقصان ہوتا ہے۔

جس کا جو کام ہے وہ نہیں کر رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہم قدرتی آفات کا شکار ہیں۔ اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی ، اداروں کی کپیسٹی بلڈنگ نہ کی، رائٹ پرسن فار رائٹ جاب منتخب نہ کیا اور اپنی ذات سے آگے نہ بڑھے تو ہم مزید آفات کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس وقت ایک سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ جہاں حادثات ہوتے ہیں وہاں جا کر لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ یہاں سے انخلاء کیا جائے۔ نیلم وادی کے اندر یا باہر محفوظ مقامات دیکھ کر آبادیوں کو منتقل کیا جائے اور انہیں تمام سہولیات دی جائیں۔ وفاقی حکومت کا بلین ٹری منصوبہ بہترین ہے۔ اس منصوبے کی اصل روح کے مطابق یہاں درخت لگائے جائیں اور دیکھ بھال کی جائے۔ حادثات سے بچنے کیلئے 10 سال کے لیے علاقے مخصوص کرکے وہاں انسانوں اور جانوروں کا داخلہ ممنوع قرار دے کر جنگلات آباد کیے جائیں۔

راجہ فرخ ممتاز

(مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف آزاد وجموں کشمیر)

نیلم وادی سے تعلق رکھتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ سمیت یہاں کی قیادت، سول سوسائٹی اور افراد سب حالیہ سانحہ کے ذمہ دار ہیں۔ افواج پاکستان نے لوگوں کو ریلیف دیا ہے۔ جب بھی کوئی حادثہ ہو تو فوج امدادی کارروائیوں میں پیش پیش ہوتی ہے۔ ندی، نالوں کے کناروں پر گھر نہیں بنانے چاہئیں۔ سابق و موجودہ حکمرانوں ، وزراء اور صاحب اختیار افراد کو چاہیے تھا کہ وہ سول سوسائٹی سے ملتے اور لوگوں کو قائل کرتے کہ یہاں گھر نہ بنائیں۔ اب 36 گھنٹے برفباری ہوئی، جس سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔ اس میں پولیس نے بھی امدادی کارروائیاں کی ہیں حالانکہ ان کے پاس وسائل بھی زیادہ نہیں ہیں۔

وفاقی حکومت کی بات کریں تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ ان کا بلین ٹری سونامی منصوبہ بہترین ہے۔ دیکھا جائے کہ کہاں درختوں کی ضرورت ہے اور وہاں زیادہ درخت لگائے جائیں نہ کہ بندر بانٹ کی جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ منتخب نمائندوں کو عوام کے مسائل دیکھنے چاہئیں نہ کہ متاثرہ علاقے میں جا کر صرف تصاویر کھنچوانی چاہئیں۔ افسوس ہے کہ ہسپتالوں میں سہولیات نہیں ہیں، آزاد کشمیر حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو علاج معالجے کی جدید سہولیات فراہم کرے۔

ڈاکٹرعبدالمنان

(متاثرہ شہری)

نیلم وادی میں مختلف نوعیت کے حادثات تسلسل سے ہو رہے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے بھارتی فوج کی بربریت کا شکار رہے اور پھر چونکہ موسمی سختی کی وجہ سے ہم مختلف اوقات میں سیلاب کی زد میں رہے، گلیشئر کی زد میں رہے، لینڈ سلائڈنگ کی زد میں رہے۔ ان کی مختلف وجوہات ہیں۔ حالیہ واقع پر بات کریں تو اس کی سب سے بڑی مجرم حکومت اور حکومتی ادارے ہیں جو ایک میکانزم کے تحت مختلف شعبہ ہائے زندگی کو دیکھتے ہیں۔ یہ ادارے بنائے ہی اسی لیے گئے ہیں کہ وہ معاملات کی دیکھ بھال کریں اور مسائل کو دور کریں۔ ایک ایسی جگہ، ایسی آبادی جو سیلاب کی زد میں ہے، اس حوالے سے طریقہ کار موجود ہے کہ انہیں طاقت کے زور سے وہاں سے بے دخل کیا جائے اور کسی محفوظ جگہ منتقل کیا جائے۔

یہ ادارے سوئے ہوئے ہیں اور اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہے۔ ہم سخت موسم والے علاقے میں موجود ہیں۔ موسم کے حوالے سے سٹڈی کیلئے بھی ادارہ موجود ہے، میکانزم بھی ہے مگر کام نہیں ہورہا۔ جب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ خطرناک موسم آرہا ہے جس سے نقصانات کا خدشہ زیادہ ہے تو اس اطلاع کو لوگوں کو تک پہنچانے کیلئے بھی ایک میکانزم موجود ہے مگر کام نہیں ہورہا۔ اسی طرح مختلف شعبہ جات موجود ہیں جن کا کام خدشات اور خطرات کو بھانپنا اور جانچنا ہے اور پھر اس کے مطابق تحفظ کے اقدامات اٹھانا ہے مگر کام نہیں ہورہا۔ میرے نزدیک اس میکانزم کو متحرک نہ رکھنے میں متعلقہ ضلع، علاقے کی انتظامیہ اور وہاں کے نمائندگان اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس میکانزم کو نیلم وادی کو متحرک رکھنے میں ڈی سی، ایس پی اور ایم ایل اے ذمہ دار ہیں۔ اس حالیہ واقعہ میں ان کی جانب سے لاپرواہی برتی گئی ہے۔

ان کے علم میں ہونا چاہیے تھا کہ یہ جو موسمی سختی آرہی ہے یہ کتنی سنگین ہے اور اس سے کیا ممکنہ نقصانات ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ کس کس آبادی کو کہاں کہاں نقصان ہوسکتا ہے، اس کی روشنی میں متعلقہ لوگوں تک انفارمیشن پہنچائی جاتی اور پھر انہیں منتقل کیا جاتا۔ میرے نزدیک یہ ان کی کوتاہی ہے۔شروع سے لے کر اب تک حکومتیں ذمہ دار ہیں، اگر جنگلات آج محفوظ ہوتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا مگر افسوس ہے کہ اس پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ سرکاری سطح پر بھی جنگلات کو بے دریغ کاٹا گیا۔

اس کے علاوہ لوگوں نے جنگلات کا نقصان کیا اور اداروں نے بھی۔ لوگوں کے نقصان کو تو اس لیے بھی معاف کیا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس نہ تو آگاہی ہے اور نہ ہی وسائل۔ وہ تو جنگلات سے ہی گزارا کرتے ہیں اور سخت سردی میں لکڑیوں پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ انہیں گھروں کو گرم رکھنے کیلئے متبادل دستیاب نہیں، اسی طرح کھانا پکانے کیلئے بھی لکڑیاں ہی ان کا سہارا ہیں۔ اگر آج جنگلات ہوتے تو اتنے بڑے سانحات نہ ہوتے، نقصان کم ہوتا۔ ریسرچ کرنا، اس سے فائدہ اٹھانا اور محتاط رہنا ہماری ملی ذمہ داری ہے جس سے کوئی شخص، ادارہ، محکمہ بری الذمہ نہیں ہے،ہم سب کو مل کر اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

سردار رفیق

(متاثرہ شہری )

حالیہ حادثہ کا تعلق موسمیاتی تبدیلی سے نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی تعریف کی جائے تو وہ ایسی تبدیلی ہوتی ہے جو لمبے عرصے تک محسوس کی جارہی ہو اوراس سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہو۔ برفباری کا سلسلہ گزشتہ برس سے شروع ہوا ہے، اس وقت بھی نیلم وادی میں شدید برفباری ہوئی تھی۔ اس سال بھی برفباری ہوئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ اگلے 10 سے 20 سال جاری رہتا ہے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر ہے۔ حادثات زیادہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نیلم وادی میں 36 گھنٹے مسلسل برفباری ہوئی ہے جس کی وجہ سے 5 فٹ سے 15 فٹ تک ایک ہی مرتبہ برف پڑی۔ اس برف نے حرکت شروع کی تو نقصانات ہوئے۔

جہاں تک نقصانات سے بچاؤ کا تعلق ہے تو میں ڈاکٹر عبدالمنان کی بات سے اتفاق کروں گا کہ اگر ہم نے جنگلات کو محفوظ بنایا ہوتا تو حادثات کی شدت میں کمی ہوتی۔ میرے نزدیک برفباری کا ہونا اچھی چیز ہے چونکہ ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر کے گلیشئرزمیں 2000ء سے لے کر 2017ء تک 4 ہزار ہیکٹرکمی آئی ہے۔ 2000ء میں گلیشئرز15ہزار ہیکٹر تھے جو 2017ء میں 11 ہزار ہیکٹر ہوگئے۔ کلیشئرز میں تیزی سے کمی ہورہی تھی، اگر یہی سلسلہ جاری رہتا تو 51 برس بعد آزاد کشمیر میں گلیشئرز بالکل ختم ہوجانے  لہٰذا گزشتہ برس سے برفباری کا ہونا اللہ تعالیٰ کا کرم ہے،اس سے پانی کے ذخائر محفوظ ہوئے ہیں۔

برفباری کے نقصانات سے بچنے کیلئے مستقل بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اب پہلے سے ہی موسم کا معلوم ہوجاتا ہے لہٰذا اگر پیشگی حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔ مستقبل میں جب بھی برفباری کا امکان ہو تو اس سے پہلے ہی حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔ اس کے لیے ان علاقوں میں جنگل آباد کیے جائیں۔ آزاد کشمیر میںہر سال لاکھوں پودے لگائے جاتے ہیں مگر ان کی حفاظت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے فائدہ نہیں ہورہا۔ اگر ان کی صحیح نگہداشت کی جائے تو ماحول میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔