صحافی بھی انسان ہوتے ہیں

ندا ڈھلوں  ہفتہ 25 جنوری 2020
صحافیوں کو اپنی زندگی داؤ پر لگا کر بھی دوسروں تک خبر پہنچانی ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صحافیوں کو اپنی زندگی داؤ پر لگا کر بھی دوسروں تک خبر پہنچانی ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صحافی ایسا طبقہ ہے کہ جس کی نوکری ہی ایسی ہے کہ اسے سب برداشت کرکے، حتیٰ کہ اپنی زندگی داؤ پر لگا کر دوسروں تک خبر پہنچانی ہوتی ہے۔ اتنے مصائب برداشت کرنے کے باوجود بھی کوئی صحافیوں سے خوش نہیں ہوتا۔ حکومت وقت کو ہمیشہ یہی شکایت ہوتی ہے کہ صحافی حضرات اس پر بے جا تنقید کرتے رہتے ہیں اور اپوزیشن کو لگتا ہے کہ یہ حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ عوام کو لگتا ہے کہ یہ لفافہ صحافی ہیں، اس لیے ان کو چند پیسے دے کر آسانی سے خریدا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تنقید صحافیوں پر کی جاتی ہے۔ فیس بک پوسٹ یا ٹویٹ کرنے پر لوگ ذاتیات پر اُتر آتے ہیں۔ جیسے اگر کوئی صحافی بیرون ملک چھٹیاں گزارنے جائے تو لوگ سوشل میڈیا پر بولناشروع ہوجاتے ہیں کہ یہ کون سا اپنے پیسوں سے گیا ہے، اس کو کسی نے اسپانسر کیا ہوگا۔ یہاں تک کہ حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کرنے والے صحافیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ اور سب سے بڑھ کر آج کل کے صحافیوں کے معاشی حالات کی وجہ سے ان کے اپنے گھر والے بھی خوش نہیں ہیں۔ گھر والوں کا بھی شکوہ جائز ہے کہ اتنی محنت کرتے ہو، لوگوں سے اتنی باتیں سنتے ہو مگر پھر بھی گھر کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا ہے۔ اچھی خبر دینے یا پھر صحافی کے بڑے نام سے تو بچوں کی فیس ادا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس نام سے گھر کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو برسراقتدار لانے میں میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی سب سے بھاری قیمت میڈیا اور صحافیوں نے ہی چکائی ہے۔ 2019 میں صحافیوں کو سب سے زیادہ معاشی طور پر ہراساں کیا گیا۔ صحافیوں کی جبری رخصت، تنخواہوں میں کٹوتی اور تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ 2019 میں پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز سے سیکڑوں صحافیوں کو جبری طور پر نکال دیا گیا اور جو ذلت آمیز رویہ اختیار کیا گیا، اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔

اس معاشی افراتفری نے صحافی کو بہت نقصان پہنچایا۔ بے روزگاری، تنخواہوں کا نہ ملنا اور ’کہیں یہ نوکری بھی نہ چلی جائے‘ کے ڈر نے صحافی اور صحافت کو مجبوریوں کی بیڑیوں میں باندھ دیا۔ صورت حال تب مزید گمبھیر ہوجاتی ہے جب خبر دینے والے خود خبر بن جاتے ہیں اور کوئی ان کو انصاف دینے والا نہیں ہوتا۔

پاکستان میں صحافیوں پر جان لیوا حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔ کسی کو بھی ہمیشہ لیے چپ کروانے کا یہی بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق پاکستان میں گزشتہ دس سال میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل ہونے والے ایک سو سے زائد صحافیوں میں سے اب تک صرف تین کے مقدمات میں قاتلوں کو قصوروار ٹھہیرایا گیا ہے۔ 2013 سے 2019 تک پاکستان بھر میں اپنی صحافتی ذمے داریاں نبھانے کی پاداش میں جن 33 صحافیوں کو قتل کیا گیا، اُن میں سے کسی ایک بھی صحافی کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق جن 33 صحافیوں کو قتل کیا گیا ان میں سے 19 کا تعلق پرنٹ میڈیا سے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اخبار سے منسلک صحافی پاکستان میں زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ جن اداروں کےلیے صحافی کام کرتے ہیں ان میڈیا ہاؤسز کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کےلیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بم بلاسٹ ہوتا ہے تو لوگ اپنی جان بچانے کےلیے بھاگتے ہیں، مگر رپورٹرز پر سب سے پہلے خبر دینے کا دباؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے رپورٹرز، کیمرہ مین اور میڈیا کا دوسرا عملہ موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ مگر ان کو خود کی حفاظت کےلیے کبھی بھی نہ تو ٹریننگ دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کےلیے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کو خبر دینے والے کو خبر سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔

اس تمام تر صورت حال کے بعد دیکھی اور ان دیکھی سنسر شپ نے نہ صرف آزادیٔ اظہار کو نقصان پہنچایا بلکہ صحافیوں کےلیے بہت مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ ایک خبر حاصل کرنے کے بعد اس کو مختلف فلٹرز سے گزارا جاتا ہے اور اس سارے عمل میں خبر میں سچائی اور غیر جانبداری کا عنصر مر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، تو اس صحافی کو بھی عزت و احترام دینا چاہیے جو اپنی جان کو مشکلات میں ڈال کر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں خوش اسلوبی سے ادا کرتا ہے۔

صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں پر تنقید اور اختلاف رائے ضرور اختیار کرنا چاہیے، مگر صحافیوں کو بھی انسان سمجھنا چاہیے۔ ان کو ایسی ہی عزت، احترام اور مقام دینا چاہیے جو معاشرے میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے پیشوں سے منسلک لوگوں کو ملتا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت کےلیے حکومت، اپوزیشن، سیاسی جماعتیں، غیر سیاسی تنظمیں، ریاستی اور غیر ریاستی عناصر، سب ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ صحافت یا پھر صحافی کو اظہار کی آزادی ملے، کیونکہ اس سے خود ان کےلیے ہی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔ اس لیے صحافی اور صحافت کو اس کا اصل مقام دلوانے کےلیے صحافی تنظیموں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر صحافی اور صحافت کے پاؤں کو ان بیڑیوں سے آزاد نہ کروایا گیا تو سب سے زیادہ نقصان ریاست کا ہی ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندا ڈھلوں

ندا ڈھلوں

بلاگر جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہیں، مختلف ٹی وی چینلوں سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی ان کے مشاغل ہیں۔ ان سے ٹوئٹر آئی ڈی @DhillonNida پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔