کیا حکومت طالبان سے مذاکرات کر پائے گی؟

شاہد حمید  منگل 12 نومبر 2013
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا مولانا فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کرنا بھی اتنا ہی سہل ہوگا جتنا حکیم اللہ محسود کے ساتھ تھا۔ فوٹو: فائل

یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا مولانا فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کرنا بھی اتنا ہی سہل ہوگا جتنا حکیم اللہ محسود کے ساتھ تھا۔ فوٹو: فائل

پشاور: تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے دنیا سے رخصت ہونے اور مولانا فضل اللہ کے نئے امیر بننے کے بعد سے اب تک صورت حال واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوں گے یا نہیں ؟اور اگر مذاکرات ہوں گے تو اس کے لیے دوبارہ ویسا ماحول کیسے بنایاجائے گا جیسا کہ حکیم اللہ محسود کی موجودگی میں مرکزی حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی ۔

کیونکہ اب ہر معاملہ میں بہت سی احتیاطیں بھی برتی جائیں گی اور بہت سے ضمانتیں بھی مانگی جائیں گی جبکہ دوسری جانب یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا مولانا فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کرنا بھی اتنا ہی سہل ہوگا جتنا کہ حکیم اللہ محسود کی قیادت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ تھا کیونکہ مولانا فضل اللہ پاکستان میں موجود بھی نہیں ہیں اور پھر ماضی میں ان کی جس انداز کی سرگرمیاں رہی ہیں ان کو مد نظر رکھا جائے تو مذاکراتی عمل اتنا آسان نہیں لگتا اور پھر وہ بھی اس صورت میں کہ جبکہ ٹی ٹی پی مذاکرات سے انکار بھی کرچکی ہو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آنے والے کل کیا ہوگا؟گو کہ اس حوالے سے یہ افواہیں بھی زیر گردش ہیں کہ مولانا فضل اللہ کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ٹریک پر لانے کے لیے ان کے سسر اور کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد اور حقانی نیٹ ورک کا استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم یہ معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے ۔

سوات میں شورش کے بعد جب خیبرپختونخوا حکومت اور وہاں کے طالبان جن کی قیادت اس وقت مولانا فضل اللہ ہی کر رہے تھے کے درمیان معاہدہ کے بعد خلاف ورزیوں کے حوالے سے معاملات جاری تھے تو اس موقع پر بھی اس وقت کی صوبائی حکومت نے مولانا صوفی محمد ہی کو استعمال کیا تھا تاہم انہوں نے سوات کے گراسی گراؤنڈ میں جا کر جس انداز میں تقریر کی تھی وہ بھی سب کے سامنے ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا صوفی محمد شاید ہی اپنے داماد مولانا فضل اللہ پر کوئی کنٹرول رکھتے ہوں اور وہ بھی اب اس صورت میں کہ جب کہ اب مولانا فضل اللہ ٹی ٹی پی کی قیادت بھی سنبھال چکے ہوں ، جبکہ دوسری جانب حقانی نیٹ ورک کے بھی اپنے معاملات ہیں تاہم حکومت اور طالبان کے دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہونے کے حوالے سے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو رسد کی فراہمی کو روکنے کا معاملہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

جس کے حوالے سے خیبرپختونخوا اسمبلی نے 4 دسمبر کو متفقہ قرارداد پاس کرتے ہوئے مرکز کو اس سلسلے میں اقدامات کے لیے بیس نومبر کی ڈیڈ لائن دی تھی مگر تاحال نہ تو مرکز نے اس ضمن میں کوئی فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی قومی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کے مابین اس حوالے سے اتفاق ہو رہا ہے جس کے بعد لگتا ہے کہ بال واپس خیبرپختونخوا حکومت کے کورٹ ہی میں آئے گا ۔ خیبرپختونخوا میں حکومت کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ ممکنہ طور پر صوبائی حکومت اس معاملہ میں میدان میں نہیں آئے گی۔

جس کی ایک وجہ تو بڑی واضح ہے کہ یہ کام مرکز کے خلاف اعلان بغاوت ہوگا کیونکہ نیٹو کے حوالے سے جو بھی معاہدہ ہے وہ مرکزی حکومت نے کیا ہوا ہے اس لیے اگر صوبائی حکومت کوئی بھی ایسا اقدام کرتی ہے جو مرکز کے کسی معاہدہ کے خلاف ہو تو اس پر مرکز بھی اپنا ردعمل ظاہر کرسکتا ہے اور مرکز کے پاس صوبائی حکومت کے خلاف ایکشن لینے اور صوبہ میں گورنر راج نافذ کرنے کا آپشن بھی موجود ہے جس کا سیاسی اعتبار سے تو تحریک انصاف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تاہم پی ٹی آئی میدان سے باہر ہوجانے کی بجائے میدان میں رہنا پسند کرے گی کیونکہ جنگ میدان میں رہ کر ہی کی جاتی ہے میدان سے باہر ہوکر نہیں۔

میدان میں رہتے ہوئے اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی تحریک انصاف نے اپنے طور پر تیاری کر لی ہے اور اکیس نومبر کو ممکنہ طور پر تحریک انصاف کے ورکر کراچی سے لے کر پشاور سے نیٹو کی سپلائی کو روکنے کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے جن کو جماعت اسلامی کے ورکروں کی بھی مدد حاصل ہوگی ، سیاسی پارٹیاں اس سے قبل بھی نیٹو کی سپلائی کے خلاف سڑکوں پر آتی رہی ہیں اور یہ سپلائی روکتی بھی رہی ہیں جن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ موجودہ جذباتی ماحول میں جماعت اسلامی نے بھی ایک مرتبہ پھر اپنے پارٹی ورکروں کو اکھٹا کرتے ہوئے ایسی ہی کوشش کی ہے جسے خود جماعت کے قائدین نے اس میں شریک نہ ہوکر ایک فلاپ شو میں تبدیل کیا تاہم ان مثالوں کی موجودگی میں تحریک انصاف بھی اسی لائن آف ایکشن کو اختیا رکرے گی۔

البتہ اس میں اصل معاملہ یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنے ورکروں کو کتنے دنوں تک سڑکوں پر بٹھائے رکھے گی اور آیا مرکز اس کے بعد بھی کوئی ایکشن لیتا ہے یا نہیں ؟کیونکہ یہ سارے معاملات مستقبل کے حوالے سے نقشہ واضح کریں گے ، تحریک انصاف تو یہ بھی توقع کررہی ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں متفقہ طور پر نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے مرکز سے نیٹو سپلائی کو بند کرنے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی نیٹو کو رسد کی بندش کے معاملہ میں ان کا ساتھ دیں کیونکہ وہ اخلاقی طور پر اس بات کی پابند ہیں تاہم دوسری جانب اپوزیشن پارٹیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی ،اپنی قیادت کی جانب رجوع کریں گی تاکہ وہاں سے ہدایات لے سکیں جبکہ ان کے حوالے سے دلچسپ صورت حال یہ بھی بن رہی ہے کہ جو قرارداد صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر پاس کی ہے۔

اس پر نہ تو حکومت یا اپوزیشن کے کسی رکن اسمبلی کے دستخط ہیں اور نہ ہی یہ قرارداد اپوزیشن کی جانب سے کسی رکن نے پیش کی، اس لیے وہ خود کو اس قرارداد کا پابند نہیں سمجھتے اور ان کا خیال یہ ہے کہ چونکہ قرارداد صرف تحریک انصاف کے شاہ فرمان نے پیش کی ہے اس لیے تحریک انصاف ہی اس کو عملی جامہ بھی پہنائے گی، اس لیے تحریک انصاف کو جو بھی کرنا ہوگا اپنے ہی طور پر کرے گی جس میں اسے اپنی اتحادی پارٹی جماعت اسلامی کا تو ساتھ حاصل ہوگا لیکن جہاں تک قومی وطن پارٹی کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے صورت حال واضح نہیں ہے اور قرائن یہی بتارہے ہیں کہ شاید ہی قومی وطن پارٹی ،تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لیے سڑکوں پر آئے ۔

قومی وطن پارٹی جس کے پہلے ہی اپنی بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ مختلف امور پر اختلافات چلے آرہے ہیں اس کے حوالے سے یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ جن وزراء کے بارے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کرپشن کی بات کی ہے ان میں قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر یا وزراء بھی شامل ہیں اور اگر صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی کاروائی کرتی ہے تو پھر شاید نہیں بلکہ یقینی طور پر قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کی راہیں جدا ہو جائیں گی اور قومی وطن پارٹی حکومتی بنچوں سے اٹھ کر اپوزیشن بنچوں کا رخ کرے گی اس لیے ایسے حالات میں یہ توقع کرنا کہ قومی وطن پارٹی ،تحریک انصاف کے کہنے پر نیٹو کو رسد کی فراہمی روکنے کے لیے سڑکوں پر آئے گی ناممکن ہی لگ رہا ہے کیونکہ جس قومی وطن پارٹی نے صدارتی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار کی بجائے مرکز میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن)کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا وہ اب تحریک انصاف کے کہنے پر مرکز اور امریکہ کے خلاف کیونکر میدان میں نکلے گی ؟البتہ یہ الگ معاملہ ہوگا کہ مرکز کی جانب سے اس سلسلے میں اگر کوئی فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو اس صورت میں قومی وطن پارٹی کی پالیسی بھی تبدیل ہوسکتی ہے ۔

کیونکہ قومی وطن پارٹی اگر ایک جانب خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ساتھ اقتدار کی کشتی میں سوار ہے تو دوسری جانب مرکز میں بھی وہ اپنے معاملات درست رکھے ہوئے ہے اور آفتاب احمد شیر پاؤ جیسے کہنہ مشق سیاستدان کبھی بھی تحریک انصاف کی خاطر مسلم لیگ(ن)کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہیں کریں گے جو یقینی طور پر صوبہ میں بھی تحریک انصاف کے ساتھ اپنے معاملات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں اورکبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ تحریک انصاف صوبہ میں ان کی پارٹی کو ’’طلاق‘‘دے دے ،اگر ایسی کوئی صورت حال بنی یا بننے لگی تو یقینی طور پر آفتاب شیر پاؤ پی ٹی آئی سے ’’خلع‘‘لینا پسند کریں گے تاکہ سیاسی طور پر وہ صورت حال کو اپنے حق میں رکھ سکیں جس کے لیے ان کے پاس قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز اور وزراء کے تحریک انصاف اور صوبائی حکومت کے ساتھ پہلے سے پائے جانے والے اختلافات کے حوالے سے مضبوط جواز موجود ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔