یہ آخر کب تک ہوتا رہے گا

جاوید چوہدری  منگل 21 جنوری 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ظہیر الدین بابر نے کسی سے کہا تھا’’ میری زندگی بس اڑھائی دن ہے‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’بادشاہ معظم کیا مطلب‘‘ بابر نے جواب دیا ’’ میں سمر قند سے افغانستان بھاگ رہا تھا‘ راستے میں تھکاوٹ ہوئی‘ گھوڑا باندھا اور درخت کے نیچے سو گیا‘ مجھے اچانک اپنا جسم کسا ہوا محسوس ہوا‘ آنکھ کھولی تو دیکھا ایک بہت بڑے اژدھے نے مجھے کس لیا ہے اور یہ مجھے منہ کھول کر نگلنے کی تیاری کر رہا ہے۔

میرے پاس دو راستے تھے‘ میں خود کوموت کے حوالے کر دوں یا پھر زندگی کے لیے لڑوں‘ میں نے لڑنا شروع کر دیا‘ اژدھا طاقت ور تھا اور میں کم زور‘ میں سارا دن اس کے ساتھ لڑتا رہا یہاں تک کہ میں جیت گیا اورمیں نے اژدھے کو مار دیا‘ میں اسے زندگی کا ایک دن سمجھتا ہوں‘ دوسرا دن اس سے بھی مشکل تھا‘ میرے جسم پر خارش نکل آئی۔

میں سر سے لے کر پاؤں تک خارش زدہ تھا‘ میںکپڑوں کو چھو تک نہیں سکتا تھا‘ سارا دن جسم پر مالش کر کے دھوپ میں لیٹا رہتا تھا‘ میرے دشمن شیبانی خان کو میری بیماری کا پتا چلا تو وہ عیادت کے لیے پہنچ گیا‘ میں نہیں چاہتا تھا وہ مجھے بیماری کے عالم میں ننگا دیکھے لہٰذا میں نے طبیبوں کے روکنے کے باوجود شاہی لباس پہنا اور آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا‘ وہ سارا دن میرے پاس رہا‘ میرے پورے جسم پر خارش ہو رہی تھی‘ مجھے لگتا تھا میں نے انگاروں کا لباس پہن رکھا ہے لیکن میں نے اس کے باوجود اپنے جسم کے کسی حصے پر خارش نہیں کی‘ وہ جوں ہی محل سے نکلا‘ میں نے اپنے سارے کپڑے اتار دیے‘ میرا پورا جسم لہو لہان ہو چکا تھا‘ وہ میری زندگی کا دوسرا دن تھا‘‘ وہ رک گیا‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’اور آدھا دن‘‘ بابر نے ہنس کرجواب دیا ’’میری ساری فتوحات اور بادشاہت صرف آدھے دن کے برابر ہیں‘‘۔

ہم اسے اقتدار کا بابری فارمولا کہہ سکتے ہیں اور اس فارمولے کے مطابق اڑھائی دن کی اس زندگی میں اقتدار کی حیثیت آدھے دن سے زیادہ نہیں ہوتی‘ باقی زندگی صرف اور صرف برداشت ہے اور برداشت حکمرانوں کا اثاثہ ہوتی ہے‘ آپ اگر برداشت نہیں کر سکتے اور آپ اگر اپنی سوچ‘ اپنے فیصلوں‘ اپنی نفرت‘ اپنی خارش اور اپنی پسند کو دوسروں سے چھپا نہیں سکتے تو پھر آپ حکومت کے قابل نہیں ہوتے‘ آپ پھر عام آدمی سے بھی کم زور ہیں‘ میں اکثر لیڈر شپ کے سیشنز میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا واقعہ سناتا ہوں‘ کینیڈی کے والد جوزف پیٹرک کینیڈی امریکا کے مشہور بزنس مین اور سفارت کار تھے‘ وہ برطانیہ میں امریکا کے سفیر بھی رہے‘ وہ انتہائی سمجھ دار اور زیرک انسان تھے۔

جان ایف کینیڈی صدر بننے کے بعد اپنے والد سے ملنے گیا اور ان سے کہا ’’میں ایک مخمصے کا شکار ہوں‘‘ والد کتاب پڑھ رہا تھا‘ اس نے سر اٹھا کر پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ کینیڈی نے جواب دیا ’’میرے بے شمار معاشقے ہیں‘ میں صدر بن چکا ہوں‘ میں اب ہر وقت ایجنسیوں اور میڈیا کی نظروں میں رہوں گا‘ مجھے خطرہ ہے میں اپنے معاشقوں کو زیادہ دیر تک میڈیا‘ ایجنسیوں اور اپنی بیوی سے خفیہ نہیں رکھ سکوں گا‘‘ والد نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ تمہیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے‘‘ کینیڈی نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیوں؟‘‘ والد نے جواب دیا ’’جو شخص اپنے معاشقے میڈیا‘ ایجنسیوں اور بیوی سے نہیں چھپا سکتا اسے امریکا جیسی سپر پاور کا صدر نہیں ہونا چاہیے‘‘ یہ ہوتے ہیںسیاست دان‘ یہ ہوتے ہیں حکمران یعنی آپ اپنی بیوی کو بھی اپنی سوچ کی ہوا نہ لگنے دیں جب کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے ملک میں آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا14 جنوری کو کاشف عباسی کے پروگرام میں سیاہ بوٹ لے کر آ گئے۔

وفاقی وزیر نے وہ بوٹ میز پر رکھا اور بوٹ دکھا دکھا کر کہا ’’پاکستان مسلم لیگ ن نے لیٹ کر اور اسے چوم کر ووٹ کو عزت دی‘‘ ان کا اشارہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی طرف تھا اور ان کے کہنے کا مطلب تھا ’’ن لیگ نے بوٹ کی وجہ سے ووٹ دیا‘‘ فیصل واوڈا کی یہ حرکت پورے ملک میں پھیل گئی اور میڈیا‘ حکومت ‘ اداروں اور عوام کی طرف سے رد عمل آنے لگا‘ ملک کے تمام صحافیوں‘ اینکرز اور سیاست دانوں نے کھل کر مذمت کی لیکن وزیراعظم نے 24 گھنٹے بعد واوڈا صاحب کو ہلکا سا ’’ڈس پلیر‘‘ شو کیا‘ یہ واقعہ اس قدر قابل افسوس اور ناقابل برداشت تھا کہ حکومت کا کوئی ترجمان اسے ڈیفنڈ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا بہرحال دباؤ آیا اور خوف ناک آیا اور یہاں تک آیا کہ پیمرا نے 15 جنوری کی شب کاشف عباسی اور ان کے پروگرام پر دو ماہ کے لیے پابندی لگانے کا حکم جاری کردیا‘ یہ پابندی بھی میڈیا میں کنٹرو ورشل ہو گئی‘ میڈیا نے جب بار بار کہنا شروع کر دیا‘ آپ نے مجرم چھوڑ دیا اور جائے واردات کو سزا دے دی تو وزیراعظم نے فیصل واوڈا پر پندرہ دن کے لیے میڈیا میں آنے پر پابندی لگا دی‘ آپ ذرا سزا ملاحظہ کیجیے‘پندرہ دن کی پابندی اور وہ بھی میڈیا میں آنے پر! واہ کیا بات ہے چوپٹ راج کی۔

یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ اپنے منہ سے بے شمار حقائق بتا رہا ہے‘ حکومت کو اب یہ ماننا ہوگااس کے وزراء صرف تجربے میں مار نہیں کھا رہے یہ عدم برداشت اور تہذیب کی کمی کے شکار بھی ہیں‘ یہ گفتگو کے دوران بھی عقل کھو بیٹھتے ہیں اور یہ اپنی حرکتوں سے بھی حیران کر دیتے ہیں‘ آپ کسی وزیر کو دیکھ لیں یہ آپ کو دفتروں‘ میٹنگز‘ پریس کانفرنسوں اور لائیو ٹیلی ویژن شوز میں موبائل فون پر مصروف نظر آئے گا‘ یہ لوگ سفیروں اور غیر ملکی وزراء کے ساتھ بھی میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر ملاقات کرتے ہیں‘ آج تک کسی نے ان کو یہ نہیں بتایا میز پر آمنے سامنے بیٹھنا سفیر یا مہمان وزیر کی بے عزتی ہوتی ہے۔

وزیراعظم بھی روز یہ غلطی کرتے ہیں‘ یہ مہمان وزراء کو بھی بنی گالہ بلوا لیتے ہیں‘ بنی گالا میں گارڈز پوسٹ کے ساتھ دو نئے کمرے بن گئے ہیں‘ وزیراعظم مہمانوں کو وہاں ملتے ہیں‘ گارڈز نے باہر شلواریں دھو کر لٹکائی ہوتی ہیں‘ اومان کے مذہبی امور کے وزیرشیخ عبداللہ بن محمد 7جنوری کوپاکستان کے دورے پر آئے‘ انھیں بھی بنی گالا بلا لیا گیا‘ وزیراعظم اس وقت لان میں دھوپ سیک رہے تھے‘ انھوں نے کوٹ کے نیچے جیکٹ پہن رکھی تھی اور دائیں بائیں عام سی کرسیاں پڑی تھیں‘ اومانی وزیرکو انھی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا اور ہلکی پھلکی بات چیت کر کے روانہ کر دیا گیا‘ میں اس میں وزیراعظم کو ذمے دار نہیں سمجھتا‘ یہ زندگی میں پہلی بار وزیراعظم بنے ہیں۔

یہ پروٹوکول کو نہیں سمجھتے‘ وزیراعظم کو سمجھانا پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے‘ یہ انھیں بتائیں مہمان کیا ہوتے ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے‘ ہم ایک طرف پوری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف ہم مہمان وزیروں اور سفیروں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں‘ ہمیں عقل سے کام لینا چاہیے‘ دوسرا پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کو کابینہ کو بھی بریف کرنا چاہیے‘ یہ وزراء کو بھی بولنے‘ چلنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور میڈیا کے سامنے آنے کا طریقہ بتائیں‘ یہ وزراء جو چاہتے ہیں بول دیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور اس کی قیمت بعد ازاں ملک کو ادا کرنی پڑتی ہے‘ ہم ایک طرف پوری دنیا میں اکیلے ہو چکے ہیں‘ دوسری طرف ہم اندرونی نفاق کا شکار ہیں اور تیسری طرف پورا ملک اس وقت قبض کا شکار ہے۔

بیورو کریسی کام نہیں کر رہی‘ آپ کسی ادارے کے بورڈ کی ایک سال کی کارکردگی دیکھ لیں آپ کو بورڈ کا ہر فرد اختلافی نوٹ لکھتا نظر آئے گا‘ میں دل سے سمجھتا ہوں حکومت نے اس دن بیورو کریسی کے ہاتھ باندھ دیے تھے جس دن فواد حسن فواد اور احد چیمہ گرفتار ہوئے تھے‘ ہم فواد حسن فواد سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کی مہارت اور حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی‘ سی پیک اور میاں نواز شریف کی اکنامک پالیسی یہ دونوں فواد حسن فواد کا کمال تھا‘ احد چیمہ نے بھی دو دو سال کے منصوبے ایک ایک سال میں مکمل کر کے ریکارڈ قائم کر دیا لیکن آج افسر جب ان کا حشر دیکھتے ہیں تو یہ کام سے توبہ کر لیتے ہیں۔

افسر شاہی کی حالت یہ ہے کوئی بھی اچھا بیورو کریٹ کسی اہم پوزیشن پر تعیناتی کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ یہ لوگ کسی بڑے منصوبے کی اجازت تک نہیں دیتے‘ یہ کراکری خریدنے کی فائل بھی وزیراعظم کو بھجوا دیتے ہیں‘ فضول سے فضول ایشو بھی کابینہ میں پہنچ جاتا ہے اور کابینہ سے منظوری کے بعد بھی اس پر عمل نہیں ہوتا‘ یہ صورت حال اس وقت تک قائم رہے گی جب تک احد چیمہ اور فواد حسن فواد باہر نہیں آتے‘ بیورو کریٹس اس سے پہلے کام نہیں کریں گے اور اوپر سے وزیراعظم بھی اناڑی سرجن کی طرح 25 مریضوں کے سینے کھول کر بیٹھ گئے ہیں چناں چہ معیشت سے لے کر ماحولیات تک سارے مریض اس وقت آخری سانسیں لے رہے ہیں اور آپ مزید انتہا دیکھیے فیصل واوڈا بوٹ لے کر لائیو شو میں آ جاتے ہیں۔

حکومت آخر کرنا کیا چاہتی ہے؟ یہ لوگ کہیں اس ملک سے انتقام تو نہیں لے رہے؟یہ سلوک تو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا‘ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم نے پورا ملک اٹھا کر ایسے ناتجربہ کاروں‘ غیر تہذیب یافتہ اور متکبر لوگوں کے حوالے کر دیا جو اسٹوڈیو کی میز پر بوٹ رکھ کر کہتے ہیں یہ لوگ اس بوٹ کو چاٹتے رہے‘ چومتے رہے اور پھر جب ردعمل آتا ہے تو یہ کہتے ہیں ’’کیا ہم نے غلط کہا‘‘ یہ معذرت تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ آخر کب تک ہوتا رہے گا؟کیا ملک میں کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔