آٹے کا بحران، حکومتی بے خبری یا سازش

احتشام بشیر  منگل 21 جنوری 2020
آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور بحران مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور بحران مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسان کی ساری محنت، کام، روزگار دو وقت کی روٹی کےلیے ہوتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہر انسان پریشانی کا شکار ہے۔ ادویہ، کھانے پینے کا سامان، تعلیم سب کچھ مہنگا ہوچکا ہے۔ انسان ان تمام ضروریات پر پھر بھی گزارا کرسکتا ہے لیکن روٹی ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا۔

ملک میں ہر پانچ سال بعد ووٹ کے ذریعے ایسے حکمرانوں کے چناؤ کی کوشش کی جاتی ہے جو ان کےلیے مسیحا بن سکے۔ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی رہی۔ 2018 کے انتخابات میں عوام نے تبدیلی کے نعرے پر یقین کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے اور عوام کی امیدیں تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ ہوگئیں کہ روزگار دینے، مہنگائی کے خاتمے اور بے گھروں کو گھر دینے کا وعدہ پورا کیا جائے گا۔ لیکن ڈیڑھ سال کے عرصے میں روزگار اور بے گھر لوگوں کا وعدہ تو کجا مہنگائی کا اس قدر بوجھ بڑھادیا گیا کہ غریب گھرانے کا گزر بسر مشکل ہوگیا ہے۔ رہی سہی کسر حالیہ آٹا بحران نے پوری کردی ہے۔

آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد نان بائیوں نے بھی روٹی کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کردیا اور 150 گرام کی روٹی دس روپے میں فروخت کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت سے روٹی کی قیمت میں پانچ روپے کے اضافے کا مطالبہ کردیا۔ خیبرپختونخوا میں روٹی کی قیمت میں اضافے کےلیے نان بائیوں نے حکومت سے رابطہ کیا اور روٹی کی قیمت کے حوالے سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ لیکن نان بائی روٹی کی قیمت پانچ روپے بڑھانے کے مطالبے پر ڈٹے رہے اور حکومت اپنے مؤقف پر قائم رہی کہ آٹے کی قیمتیں کم ہورہی ہیں، روٹی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے عوام پر مہنگی روٹی کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ جس پر نان بائی ہڑتال پر چلے گئے۔ پہلے مرحلے میں پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں ہڑتال کی جارہی ہے اور روٹی کی قیمت 15 روپے نہ ہونے پر دیگر اضلاع تک ہڑتال کو توسیع دی جائے گی۔

اس ساری صورتحال میں حکومت کی بے خبری اور نااہلی نظر آرہی ہے۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور بحران اب کا نہیں، یہ مسلسل بڑھتا جارہا تھا اور اس حوالے سے نان بائیوں اور آٹا ڈیلرز کی جانب سے کئی بار اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ آٹے کے بڑھتے نرخ بحران کا باعث بن رہے ہیں۔ جب پنجاب کی جانب سے آٹے کی ترسیل بند کردی گئی اور آٹے کے نرخ تیزی سے بڑھنے لگے تو حکومت کو ہوش آیا اور نان بائیوں کی جانب سے ہڑتال کی دھمکی پر وزیراعظم اور پنجاب حکومت سے رابطہ کیا گیا۔ آٹے کا بحران اس سے قبل 1997 میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی، نواز شریف وزیراعظم اور خیبرپختونخوا میں سردار مہتاب وزیراعلیٰ تھے اور اے این پی اتحادی جماعت تھی، اس وقت بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ پنجاب نے خیبرپختونخوا کو آٹے کی ترسیل بند کردی اور صوبے کو دیے جانے والے کوٹے کے مطابق خیبرپختونخوا کی فلور ملیں آٹا بنانا شروع ہوئیں۔ لیکن چونکہ نان بائی سپر فائن آٹے کی روٹیاں بناتے ہیں اور شہر سپر فائن آٹا کھانا پسند بھی کرتے ہیں۔ سپر فائن آٹے پر پابندی لگادی گئی اور لوگ چھپ چھپا کر پرائیویٹ گاڑیوں میں پنجاب سے آٹا لانے لگے۔ ابھی بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پنجاب سے نہ صرف آٹے کی فراہمی شروع ہوگئی ہے بلکہ صوبے کو ملنے والے گندم کا کوٹہ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ لیکن پشاور میں صورتحال معمول پر نہیں آسکی۔

وزرا کے بیانات پر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک جانب کہا جارہا ہے آٹے کا کوئی بحران نہیں۔ اگر بحران نہیں تو سرکار کی جانب سے آٹا ٹرکوں میں کیوں فراہم کیا جارہا ہے؟ لائنوں میں کھڑے ہوکر عوام آٹا لینے پر کیوں مجبور ہیں؟ حکومت اس بحران کو سازش بھی قرار دے رہی ہے۔ اگر واقعی سازش ہے تو حکومت کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو اس سازش کے پیچھے ان عناصر کو بے نقاب کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس ساری صورتحال سے عوام کو آگاہ کرے اور لگ ایسا بھی رہا ہے کہ وزیراعظم کو تمام معاملات کی سب اچھے کی رپورٹ دی جارہی ہے، لیکن صورتحال حقیقتاً کچھ الگ ہے۔

اس ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں شہری حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہوچکے ہیں۔ پشاور میں نان بائیوں کی ہڑتال کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا، لیکن حکمت عملی بہتر نہ ہونے کی وجہ ہڑتال کی نوبت آگئی۔ حکومت کی جانب سے آٹے کے نرخ کو برقرار رکھنے کےلیے اقدامات اٹھائے جاتے تو آج پشاور کے تندور بند نہ ہوتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔