آٹا بحران، کبھی تو سچ بول لیجیے!

سید امجد حسین بخاری  بدھ 22 جنوری 2020
حکومت نے گزشتہ سال ملکی ضروریات سے اضافی پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

حکومت نے گزشتہ سال ملکی ضروریات سے اضافی پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

بادشادہ لوئی کے زمانے میں فرانس میں زبردست قحط پڑا۔ لوگ بادشاہ کے محل کے باہر مظاہرہ کررہے تھے۔ فرانس کی ملکہ میری انتونیت نے جب لوگوں سے پوچھا کہ کیا ہورہا ہے؟ تو لوگوں نےجواب دیا کہ لوگ بھوکے ہیں، روٹی مانگ رہے ہیں۔ ملکہ نے کہا ’’تو ان سے کہو کیک کھائیں۔‘‘ یہی ایک جملہ فرانس میں انقلاب کی وجہ بنا۔

آج گندم کی پیداوار میں خودکفیل ملک پاکستان، منصوبہ بندی اور دانشمندی کے فقدان کے باعث آٹے کے بحران کا شکار ہے۔ حکومتی وزرا کے بیانات سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہوئے عام آدمی کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔ آٹا مہنگا ہوا، یہ تو ایک خبر ہے، لیکن عام آدمی کو تو مہنگا آٹا بھی نہیں مل رہا۔ یہاں تک کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان عارف علوی تو آٹا بحران سے ہی لاعلم نکلے۔ خسرو بختیار تو ماضی کی طرح اب بھی اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ لے کر حاضر ہوئے اور کہا کہ ایک آدمی تو سال بھر میں 115 کلو آٹا کھا جاتا ہے۔ مشیر اطلاعات تو بحران کو مافیا کا پیدا کردہ قرار دے کر جان خلاصی چاہتی نظر آئیں، جبکہ حکومت کے اہم اتحادی شیخ رشید کے مطابق آٹے کا بحران اس لیے پیدا ہوا کہ سردیوں میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب! آپ کے مشیر اور وزرا ہر بحران سے لاعلم رہتے ہیں اور سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ انہوں نے آپ کو اہم حقائق نہیں بتائے، لیکن میں آپ کو میں چند حقائق بتادیتا ہوں۔ گزشتہ سال 14 جون کو سرکاری خبر رساں ادارے نے خبر دی کہ گندم کی ملکی ضرورت 25.8 ملین ٹن ہے جبکہ ملک میں 27.9 ملین ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔ باوجود اس کے گزشتہ سال بارشوں اور ژالہ باری سے گندم کی فصل متاثر ہوئی اور 1.28 ملین ٹن گندم کی پیداوار کم ہوئی، لیکن گزشتہ حکومت کی مناسب منصوبہ بندی کے باعث پاکستان کے پاس 3.7 ملین ٹن گندم ذخیرہ تھی جس نے کم پیداوار کے معاملے پر قابو پالیا۔ لیکن موجودہ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی نے گندم کی پیداوار میں آٹھویں نمبر پر موجود ملک کو آٹے کی قلت سے دوچار کردیا۔

یہ معاملہ اچانک نہیں ہوا۔ تین ماہ قبل ہی حکومت کو آٹے کے بحران سے خبردار کردیا گیا تھا۔ کیونکہ پورے ملک میں تین ماہ قبل گندم کے 60 لاکھ ٹن ذخائر موجود تھے، جبکہ پاکستان کی ماہانہ مجموعی ضرورت 10 لاکھ ٹن ہے۔ چاروں صوبوں میں ماہانہ 10 لاکھ ٹن کھپت میں سے پنجاب میں 5 لاکھ ٹن، خیبر پختونخوا میں 2، سندھ میں 2 اور بلوچستان میں 1 لاکھ ٹن ہے۔ اس طرح مجموعی ذخائر میں سے پنجاب کے گوداموں میں 35 لاکھ ٹن، سندھ میں 5 لاکھ ٹن، خیبرپختونخوا میں 3 لاکھ ٹن، بلوچستان میں 1 لاکھ ٹن اور وفاقی ادارے پاسکو کے پاس 50 لاکھ ٹن کے ذخائر موجود تھے۔ امکان تھا کہ گندم کے 60 لاکھ ٹن ذخائر صوبوں کی ضروریات تو پوری کریں گے، لیکن گلگت، بلتستان، آزاد کشمیر اور دفاعی اسٹرٹیجک ریزروز اور سندھ کےلیے کم از کم 5 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑ سکتی تھی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ذرائع کے مطابق اس وقت پاسکو کے پاس 41 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں جنہیں جاری کرنے کا فرمان جاری ہوچکا ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آٹے کا بحران پیدا کیوں ہوا؟ اس کا جواب جاننے کےلیے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے عہدیداران سے رائے لینے کی کوشش کی گئی، مگر تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم پاسکو کے چند عہدیداروں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ملک میں گندم کی قلت نہیں، بعض اہم شخصیات کو فائدہ پہنچانے کےلیے مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ہے۔ گندم کی برآمد اور اسمگلنگ بنیادی طور پر اس بحران کی اصل وجہ ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال فروری میں ملکی ضروریات سے اضافی پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے رہنما تحریک انصاف جہانگیر ترین نے برآمد کنندگان سے ملاقاتیں کیں لیکن فوڈ سیکیورٹی کی وزارت نے گندم کی برآمد پر پابندی عائد کردی جبکہ وفاقی حکومت نے اس پابندی کو مسترد کیا۔ لیکن چند ہفتوں بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی گندم کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ ستمبر میں حکومت نے اپنے اعداد و شمار میں ظاہر کیا کہ گندم کا وافر ذخیرہ ان کے پاس موجود ہے لیکن اس کے باوجود وہ افغانستان کو گندم برآمد نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی اعلانات کے باوجود گندم افغانستان سپلائی کی جاتی رہی۔ حکومت کے پاس گندم اسمگلنگ اور برآمد کرنے کے حوالے سے بھی اعداد و شمار موجود نہیں۔

اب جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا میں آٹے کا بحران پیدا ہوگیا ہے تو حکومت کی جانب سے اس کا سارا ملبہ عوام پر ڈالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومتی وزرا بھی فرانسیسی ملکہ میری انتونیت کے نقش قدم پر چلتے دکھائے رہے ہیں، جن کے نزدیک عوام کا زیادہ روٹی کھانا ہی اصل بنیاد ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے غیر سنجیدہ مشیروں کو یہ علم نہیں کہ ان کے مشوروں، ناقص رائے اور ناتجربہ کاری کا خمیازہ آج ساری قوم بھگت رہی ہے۔ اسی ناتجربہ کاری اور منصوبہ بندی کی کمی کے باعث وافر مقدار میں گندم ہونے کے باوجود ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن انہیں شاید علم نہیں کہ روٹی فرانس کے انقلاب کی وجہ بنی، کیونکہ روٹی سے بڑھ کر عام آدمی کو کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ یہی روٹی انسان کو سر جھکانے، سر اٹھانے اور سر قلم کرنے پر بھی مجبور کردیتی ہے۔

حکومتی اقدامات بظاہر چند افراد کو نوازنے کی کوششیں محسوس ہورہے ہیں، لیکن وزیراعظم پاکستان کو ایسے اقدامات سے پہلے مشیروں کے بجائے خود غور کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ والی ضرب المثل موجودہ حکومت پر صادق آجائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وزارت تحفظ خوراک حقائق عوام کو بتائے، کیونکہ حکومت نے مارچ تک گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ اسی دوران ملکی گندم کی فصل بھی تیار ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ بظاہر محسوس ہورہا ہے کہ حکومت بعض افراد کو نوازنے کےلیے کسان کش منصوبے پر عمل کررہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو حکومت کو ملکہ میری کی کہانی پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔