حکومت اور اپوزیشن کا نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق

ارشاد انصاری  بدھ 22 جنوری 2020
معاملات اسی طرح الجھتے رہے تو تخت سے تختہ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

معاملات اسی طرح الجھتے رہے تو تخت سے تختہ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

 اسلام آباد:  حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی تناو نکتہ عروج پر ہونے کے باوجود حکومت اور اپوزیشن  کے درمیان اتفاق رائے سے نئے چیف الیکشن کمشنر کیلئے سکندر سلطان راجہ کے نام کا اعلان کردیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

الیکشن کمیشن ممبران و چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے چیئرپرسن شیریں مزاری کی زیر صدارت حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سکندر سلطان راجہ کو چیف الیکشن کمشنر جبکہ نثار درانی اور شاہ محمد جتوئی کو الیکشن کمیشن ارکان بنانے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔

سکندر سلطان راجہ کا نام وزیراعظم عمران خان نے جبکہ نثار درانی اور شاہ محمد جتوئی کا نام اپوزیشن نے تجویز کیا تھا مگر اس کے ساتھ سیاسی فرنٹ پرہرگذرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے سیاسی،معاشی،عوامی اورسفارتی سطح پر درپیش داخلی و خارجی مسائل کے ریشم کی گھتی الجھتی جا رہی ہے اور ان ہاوس تبدیلی، قبل ازوقت انتخابات سمیت دیگر افواہوں کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں اب تو حکومت کے اپنے پتے ہوا دینا شروع ہوگئے ہیں اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے 20 ناراض ارکان صوبائی اسمبلی نے گروپ بنا لیا ہے اگرچہ ناراض گروپ کے اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے حلقوں کے لیے فنڈز اورعوامی منصوبوں کا مطالبہ سامنے آیا ہے اور  ارکان صوبائی اسمبلی نے ملاقات میں حلف بھی اٹھایا جس میں اعادہ کیا گیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مطالبات منوائیں  گے اور دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے کیلئے کسی قسم کی سازش یا کاروائی کا حصہ نہیں بنیں گے، صرف اپنے حلقوں کیلئے فنڈز کے حصول کیلئے مل کر کوششیں کریں گے۔

لیکن پنجاب میں تحریک انصاف کی اہم اتحادی جماعت ق لیگ کے ساتھ بڑھتے ہوئے فاصلے اور پھر مرکز میں حکومت کی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوریاں اور ناراضگیاں معاملات کا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیںہے کہ تحریک انصاف بھی بدلتی سیاسی رتوں سے بے خبر نہیں ہے اور وہ بھی بھرپور زور لگا رہی ہے اور اس کھیل میں جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جانے والے کپتان کے معتمد خاص جہانگیر ترین اپنی بھرپور صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں اور حالیہ صورتحال پر پی ٹی آئی کا سخت موقف سامنے آیا ہے کہ جو اتحادی حکومت سے اپنے راستے جدا کرنا چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا ہے کہ لیگی اراکین کی ایک بڑی تعداد وزیراعظم عمران خان سے رابطوں میں ہے لیکن اس سب کے باوجود جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اورمقتدر قوتوں کے بارے میں بھی حکومت کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزاء اطلاعات نہیں ہیں اور پھر پچھلے کچھ عرصے سے جس طرح مہنگائی بے قابو ہو رہی ہے اس سے تو حکومت بھی پریشان ہے، اب تو خود وزیراعظم عمران خان بھی بول اٹھے ہیں کہ ان کا تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا ہے،اگر وزیراعظم کی اپنی یہ حالت ہے تو اس بیچاری غریب عوام پر کیا گزرتی ہوگی جس کیلئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔

یہ حقیقت  ہے کہ اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے اگر کوئی سیاسی جماعت عوامی مسائل کیلئے عوام کی آواز نہ بن کر لیڈ کرنے کیلئے سامنے نہ بھی آئی تو وہ دن دور نہیں ہے جب عوام خود سڑکوں پر ہوں گے اور معاملات اسی طرح الجھتے رہے تو تخت سے تختہ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کیونکہ ابھی چین میں فیٹف کے ایشیاء پیسیفک گروپ کا اہم اجلاس جاری ہے جس میں گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے فیٹف ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے بھجوائی جانے والی ایک سو صفحات سے زائد کی رپورٹ اور پھر اس کے ساتھ بھجوائے جانے والے معاون ڈاکیومنٹس پر غور جاری ہے، اب فیٹف ایشیاء پیسفک گروپ کی جانب سے مزید کیا ڈومور کے مطالبات سامنے آتے ہیں وہ بھی حکومت کیلئے ایک امتحان ہوگا اور پھر اس کے بعد اگلے ماہ  پیرس میں فیٹف کا اجلاس ہونے جا رہا ہے جس میں گرے لسٹ سے پاکستان کا نام  نکالنے یا برقرار رکھنے یا پھر بلیک لسٹ کرنے سے متعلق فیصلہ ہونے جا رہا ہے یہ بھی اہم موڑ ہے اور ہر دو صورتوں میں اسکے پاکستان کے سیاسی و معاشی نظام پر اثرات مرتب ہونگے۔

یہی نہیں  آئی ایم ایف کا جائزہ مشن بھی بجٹ سازی کا جائزہ لینے پاکستان یاترا پر پہنچنے کو ہے اس سے قبل بجلی،گیس مہنگے کئے جا چکے ہیں اور مزید مہنگے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں جبکہ اگلے بجٹ میں تین سو ارب روپے کے لگ بھگ کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر کام جاری ہے مگر اس سے پہلے ہی ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 265  ارب روپے کی کمی کی جا چکی ہے اور رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولیوں میں اربوں روپے کے شارٹ فال کیلئے منی بجٹ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور اگر آئی ایم ایف کے دباو پر منی بجٹ لایا جاتا ہے تو یہ حکومتی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا کیونکہ اس سے مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آئے گا۔

دوسری جانب حکومتی حلقوں کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ پورا ملک آٹے و گندم  کی قیمتوں میں اضافے اور بحران سے بلک رہا ہے اور ایوان صدر میں سب سے بڑی کرسی پر بیٹھا شخص لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے اور ساتھ ہی اعتراف بھی کر رہا ہے اسے علم نہیں، مگر علم ہونا چاہئے تھا اور وہی لوگ جو چند ماہ قبل ہزاروں میٹرک ٹن گندم برآمد کرتے ہیں اور اس پر حکومت سے سہولیات بھی لیتے ہیں چند ماہ بعد جب بحران سر اٹھاتا ہے تو  نجی شعبہ کولاکھوں ٹن گندم بغیر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ٹیکسوں کے درآمد کرنے کی اجازت دیدی جاتی ہے، جب یہ سب ہوگا تو سوال تو اٹھے گا، پھر اپوزیشن سوال تو اٹھائے گی کہ عدلیہ سے نااہل ہونے کے باوجود کیسے کوئی سرکاری اجلاسوں کی صدارت  کر سکتا ہے، اہم اجلاسوں میں شریک اور ملک و عوام کی تقدیرکے فیصلے کر سکتا ہے،  اور اگر کوئی معاملات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے کہ اس سارے بحرانوں کے بینیفشری کون ہیں، پیسے کس کی جیبوں میں گئے ہیں ،گندم برآمد کرنے والوں کی تفصیلات سامنے لائی جائیں اور اب جو گندم درآمد کرنے جا رہے ہیں یا فرنٹ مین کے ذریعے سب کچھ کر رہے ہیں ان کی تحقیقات کے سوالات سامنے آتے ہیں تو یہ جائز مطالبات ہیں۔

حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اور انجمن ستائش باہمی سے نکل کرحقیقت معلوم کرکے عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنی چاہیئں اور حاکم وقت کیلئے صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ انہیں مہنگائی کا احساس ہے اور جلد بہتری آئے گی اور گھبرانا نہیں ہے، اب معاملات اس سے کہیں آگے نکل چکے ہیں ،اب عمل کا وقت کا ہے، باتوں کا نہیں ہے، کیونکہ اب ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھا رہا ہے ابھی پچھلے بحران ٹلے نہیں ہے کہ چینی کے مسئلہ نے پھر سے سر اٹھانا شروع کردیا ہے اور چینی مہنگی ہونا شروع ہوگئی ہے۔

اسے سازش کہہ لیں یا حسن اتفاق کہ یہ جتنے بھی معاملات سامنے آرہے ہیں اس کا تانہ بانہ  بالواسطہ و بلاواسطہ ایک خاص شخص یا گروپ سے جا ملتا ہے  اور پھر اس کو لے کر اپوزیشن کپتان پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیتی ہے، جواب میں حکومتی رہنما کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی اور گذشتہ حکومتوں کو کوسنا شروع کر دیتی ہے مگر اب مزید ایسے کام نہیں چلے گا کیونکہ آئی ایم ایف،عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے اور تنظیمیں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ سمیت دیگر اعشاریوں میں کمی کی پیشنوگوئیاں کر رہے ہیں مگر حکومتی رہنما مشکل وقت گزرنے اور اقتصادی ترقی کے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ حیقیت حال یہ ہے کہ خود حکومت کی اپنی وزارت خزانہ کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کپتان اور اسکی ٹیم کے بلند و بانگ دعوں کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔