وزیراعظم پاکستان اور ڈیجیٹل میڈیائی پیادے

شاہد کاظمی  جمعرات 23 جنوری 2020
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ڈیجیٹل دنیا کے نوجوانوں سے پچھلے دنوں ملاقات کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ڈیجیٹل دنیا کے نوجوانوں سے پچھلے دنوں ملاقات کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومتیں اپنے موقف کی ترویج و اشاعت کےلیے پرنٹ میڈیا کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ اس مقصد کےلیے اخبارات پر مہربانیاں کی جانے لگیں تو اخبارات کی ادارتی پالیسی میں بھی اس کی حمایت واضح نظر آنا شروع ہوئی جو اس پر مہربان ہوتا تھا۔ اور اس کی مخالفت پورے ادارتی معیار پر چھائی رہتی تھی جو اس حمایت کرنے والا کا مخالف ہوتا تھا۔

اسی طرح جب دور آیا الیکٹرانک میڈیا کا تو کچھ عرصہ الیکٹرانک میڈیا نے حقیقی رپورٹنگ کا سہارا لیا۔ لیکن جیسے جیسے وقت خرگوش کی رفتار سے بھاگا تو الیکٹرانک میڈیا نے بھی جان لیا کہ انہیں پرنٹ میڈیا کی ہی روش اپنانا ہوگی۔ لہٰذا یہاں بھی حمایت و مخالفت کا چلن ایسا چلا کہ میڈیا گروپس واضح گروہ بندی میں بٹے نظر آنے لگے اور آج دور ایسا ہے کہ معدودے چند الیکٹرانک میڈیا چینلز کے علاوہ کم و بیش تمام ہی چینلز کا لوگو یا نام سنتے ہی لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ چینل تو فلاں پارٹی کا میڈیائی چہرہ ہے۔ اس پر فلاں پارٹی کا موقف مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور فلاں پارٹی کا مثبت بیانیہ بھی منفی بنا کر چلایا جاتا ہے۔ اس کو ہم غلط اس لیے بھی نہیں کہہ سکتے کہ پوری دنیا میں ہی الیکڑانک میڈیا اب یہ روش اپنا چکا ہے۔ اس میں صحافتی معیارات تو گم ہوگئے لیکن جس کاروباری نقطے کی بنیاد پر یہ قائم کیے گئے اس کو تو بہرحال ملحوظ خاطر رکھنا ہی تھا۔

اب یہاں سے ٹیکنالوجی نے نیا رخ دیکھا اور ڈیجیٹل میڈیا کی ایسی گیدڑ سنگھی سامنے آئے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس پر انحصار کرنے لگے۔ آج آپ اخبار خریں یا نہ خریدیں، ویب سائٹ پر یہی اخبار آپ اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ پر جب چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کوئی چینل دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیپ ٹاپ ہو یا ڈیسک ٹاپ سسٹم، موبائل فون ہو یا کوئی اور الیکٹرانک آلہ، آپ جہاں چاہیں، جب چاہیں کوئی بھی چینل دیکھ سکتے ہیں۔ پوری دنیا حقیقی معنوں میں انگلیوں کی پوروں میں سمٹ گئی ہے۔ یعنی دنیا اس وقت ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی کی پوری طرح گرفت میں آچکی ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ڈیجیٹل دنیا کے نوجوانوں سے پچھلے دنوں ملاقات کی۔ بظاہر تو اس ملاقات میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی اور نہ ہی یہ کوئی تنقیدی فعل ہے۔ لیکن معاملہ غور طلب اس لیے ہے کہ وزیراعظم پاکستان بھی مختلف مواقع پر اس ملاقات میں لفظ وائرل پر زور دیتے رہے۔ وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ وائرل کرکے ان کی پارٹی و حکومت کی مقبولیت برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ وزیراعظم مین اسٹریم میڈیا سے ہٹ کر، جہاں وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں، ان کا سارا زور سوشل میڈیائی شہسواروں کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔

چینی 35 روپے سے 70 روپے کلو ہوگئی، آٹا 40 روپے سے 80 روپے کلو بکنے لگا۔ دالیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ گیس فراہمی کے معاملات دگرگوں ہورہے ہیں۔ پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، سرکاری عمارات میں نوکریاں جیسے ہزاروں وعدوں کی تکمیل کے بجائے وزیراعظم پوری طرح پروپیگنڈا مہم کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ وہ اس بات کی طر ف توجہ دینے کے بجائے کہ وہ اپنی کارکردگی عوامی جلسوں، اخبارات کے ایڈیٹرز سے ملاقاتوں، ٹی وی بیورو چیفس، نمائندگان، اینکرز کے ساتھ مباحثے کی صورت میں ایسے سامنے رکھیں کہ وہ اپنے متعلقہ فورمز پر ان کا دفاع کریں اور عوام تک ان کی آواز پہنچانے کا سبب بنیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ہمارے وزیراعظم ان کے بارے میں فکرمند ہیں۔ مشکل دور ہے لیکن یہ دور کم رہ گیا ہے کے برعکس ہمارے وزیراعظم پورا زور پروپیگنڈا ماہرین پر لگا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کا آرٹیکل وائرل کرنے کا تو کہہ دیا لیکن گزارش اتنی سی ہے کہ یہ آرٹیکل اگر بیس کروڑ لوگ بھی دیکھ لیں تو کیا عوام کو آٹا میسر آجائے گا سستے داموں؟ کیا شوگر مل مافیا کو اس آرٹیکل کے وائرل ہونے سے لگام ڈالی جانا ممکن ہوسکے گی۔

وزیراعظم پاکستان نے بہت اچھا کیا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے سرخیلوں کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ ملک میں تو سوشل میڈیا پر ہی انہوں نے کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپنی حکومت کی وہ کارکردگی جو نظر بھی نہیں آپارہی کو وائرل کروانے کے بجائے، سوشل میڈیا و ڈیجیٹل میڈیا کے نمائندوں سے کہتے کہ ہمیں ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد فراہم کریں۔ پاکستان میں موجود مسائل کو ڈیجیٹل میڈیا کے توسط سے سامنے لائیں۔

لیکن ہم یقینی طور پر اتنی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے کہ ایسا کر پائیں۔ آج نہیں تو کل ڈیجیٹل میڈیا ماہرین کو بلانے کا واضح مقصد بھی سامنے آجائے گا کہ مدعا تھا کیا۔ کیوں کہ یہ اب اوپن سیکرٹ ہے کہ حکومت وقت عملی میدان کے بجائے ڈیجیٹل و سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کررہی ہے۔ اقدامات کرنے کے بجائے ناکافی اقدامات کو وائرل کرنے کے حوالے سے فکرمند ہے۔

اگر وطن عزیز کے حکمران ملک سے مخلص ہوں تو وہ اتنا غور تو کر ہی سکتے تھے کہ جب معلوم ہے ملک میں غذائی ضروریات پوری کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے تو پھر 2019 کے اواخر میں گندم ایکسپورٹ کرنے کے احکامات کیوں دیے گئے۔ اور جو جو اس میں شامل تھا اس سے پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ ملک کو مشکل میں کیوں ڈالا؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ اس ایکسپورٹ سے کس نے کتنی سبسڈی لی اور کس نے کتنا منافع حاصل کیا؟ اور اب جب کہ دوبارہ سے امپورٹ کی ضرورت پیش آگئی تو جنہوں نے ایکسپورٹ کی ان سے سوال نہیں ہوگا؟ پھر ہم یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ امپورٹ کرنے والوں کو ترچھی نظر سے کون دیکھے گا کہ کہیں اس وقت ایکسپورٹ کرنے والے ہی اب امپورٹر تو نہیں بن رہے؟ کس کا کتنا فائدہ ہوا باہر گندم بھیجنے میں؟ کس کا کتنا فائدہ ہورہا ہے ملک میں گندم واپس لانے میں؟

ہمیں تو ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے موقف کی ترویج کروانی ہے اور ہم ایسا کرکے رہیں گے۔ باقی ملک میں آٹا، چینی، گھی، دالوں کے نرخ کیا ہیں، یہ عوام جانیں کہ ہم نے تو کبھی ان چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے دام پوچھے ہی نہیں۔

بات تو شیخ صاحب کی بھی سچ ہے کہ اکتوبر نومبر میں کیوں زیادہ روٹی کھاتے ہیں؟ قصور تو عوام کا ہی ہے۔ اور شوکت زئی کا بیانیہ بھی بھلا کیسے غلط ہوسکتا ہے کہ نان بائی حضرات روٹی کی قیمت نہیں بڑھا سکتے، مگر آپ کا جیسے دل چاہے تھوڑی ڈنڈی پیڑے کے وزن میں مار لیجیے کہ ہم آپ کو خود چوری کی اجازت جو دے رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔