بحرین 2020 (دوسرا اورآخری حصہ )

امجد اسلام امجد  جمعرات 23 جنوری 2020
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

یوں تو بحرین میں قیام کے چاروں دن آصف عارف ہم دم ہمارے ساتھ رہے وہ وہاں کی وزارت داخلہ میں کام کرتے ہیں اور آج کل پاسپورٹ اور ویزا ڈیپارٹمنٹ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں انھیں بھی بحرین کی شہریت مل چکی ہے ،دین اور فلاح کے کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ بھائی اشتیاق گوندل نے بتایا کہ اُن کی ڈرائیونگ کی تیز رفتاری دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ شخص ایسے دھیمے مزاج کا بھی ہوسکتا ہے۔

اُن کے گھر دوپہر کے کھانے پر عربوں کی مشہور ڈش ایک بڑے سے طشت میں ہرطرح کے ڈرائی فروٹ سے مزین چاولوںکے درمیان خاص انداز میں پکائے گئے سالم بکرے کا ایک اتنا بڑا ٹکڑا بھی تھا جسے ہم آٹھ آدمی مل کر بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے اُسے کاٹنے کے لیے جو بڑی بڑی چھریاں رکھی گئی تھیں انھیں دیکھ کر مجھے اسیّ کی دہائی کی دوحہ قطر کے ریگستان میں دی گئی دعوت یاد آگئی جس میں شیخ صاحب کے ملازمین گوشت کاٹنے کے لیے ان چھریوں کو مہمانوں کے کانوں کے اس قدر قریب سے لاتے، لے جاتے تھے کہ کھانے سے زیادہ دھیان اپنی طرف لگا رہتا تھا ۔

اتفاق سے یہ تقریب بھی اُس گولڈن ٹیولپ نامی ہوٹل کے ہال میں تھی جہاں پہلے بھی کئی بارآنا ہوچکا تھا۔  ویک اینڈ کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے شروع شروع میں مہمانوں کی آمد کی رفتار قدرے سست رہی جس کے آثار میزبانوں کے چہروں پر ضرورت سے زیادہ نمایاں تھے کہ یہ اُن کے ادارے کی طرف سے کی جانے والی پہلی ادبی تقریب تھی لیکن جوں جوں خالی کرسیوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی اُن کے اوسان بحال ہونا شروع ہوگئے مگر آدھے گھنٹے کے اندر صورتحال پھر پہلے جیسی ہوگئی کہ اب ان کے پاس مزید مہمانوں کو بٹھانے کے لیے جگہ نہیں تھی اور لوگ تھے کہ آتے چلے جارہے تھے۔

میرے دائیں بائیں وہاں کے مشہوربھارت نژاد بزنس مین اور مشاعروں کے سب سے بڑے اسپانسرشکیل سبروانی اور برادرم مرتضیٰ برلاس کے بھتیجے تشریف فرما تھے جن سے تصویروں اور مصافحوں کے درمیان قسطوں میں گفتگو ہوتی رہی ۔ اشتیاق گوندل اور عامر جعفری کی تعارفی تقریروں اور غزنی ایجوکیشن ٹرسٹ کی ڈاکیومنٹری کو بہت توجہ سے سنا اور دیکھا گیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کے لوگ اپنی حکومتوں کے برعکس قومی معاملات میں کس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

مشاعرے کی نظامت عزیزی پاشا نے کی جو سید قیس مرحوم کے نیازمندوں کی پہلی صف میں تھے اور وہاں پاکستانی اسکول میں تدریس کے شعبے سے متعلق ہیں اُن کے علاوہ تین مقامی شعرا طاہر عظیم ، رخسار ناظم آبادی اور احمد عادل نے اپنا کلام سنایا یہ تینوں دوست ہم عصر اُردو شاعری کے ایسے معروف اور معتبر نام ہیں جن کا کلام سن اور پڑھ کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے مجھے تقریباً پچاس منٹ کلام سنانا پڑا کہ اچھے سامعین اور احباب کی فرمائشوں کو ٹالنا مشکل بھی ہے اور ایک طرح سے کفرانِ نعمت بھی۔

ہفتہ یعنی 18جنوری کا دن بحرین گردی کے لیے وقف تھا کہ عامر جعفری پہلی بار یہاں آئے تھے جب کہ اُن کا ہر شہر کو رَج کے دیکھنے کا شوق ایسا ہے کہ وہ کئی بار دیکھے ہوئے شہروں کو بھی محاورے والے نو مسلموں کے سے جوش و خروش کے ساتھ دیکھتے ہیں البتہ اُن کے اس شوقِ سفر کا خوشگوار اور دلچسپ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹر اشتیاق گوندل اور میں نے بارہا اس شہر میں آنے جانے کے باوجود کئی ایسے مقامات بھی دیکھ لیے جو بوجوہ اب تک سرسری یا نادیدہ کی صف میں آتے تھے۔ آصف عارف سب سے پہلے ہمیں مسجد خمیس میں لے گئے جو اس وقت کی یادگار ہے جب ابھی بحرین ایک پسماندہ صحرائی قصبے کا منظر پیش کرتا تھا، یہ نامکمل اور غیر آباد مسجد اب ایک کھنڈر کی شکل میں اپنے باقاعدہ اور میناروں کے ساتھ ایک ٹورسٹ پوائنٹ کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔

لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کے قطب مینار کی طرح اس کے میناروں میں بھی اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جو اس قدر تنگ ہیں کہ پرانے وقتوں کے پُلوں کی طرح انھیں صرف یک طرفہ ٹریفک کے لیے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوسفی صاحب نے لکھا تھا کہ پرانے لاہور شہر کی کچھ گلیاں اس قدر تنگ ہیں کہ مخالف سمتوں سے آنے والے کسی مرد اور عورت کے لیے نکاح کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں بچتی ۔ عامر جعفری اپنے ایڈونچر ازم کے شوق میں اس کی اوپر کی منزل تک پہنچ تو گئے مگر اُن کے بیان کے مطابق اُن سیڑھیوں کی گنجائش اُن جیسے دھان پان نما وجود کے لیے بھی اپنی تنگیٗ داماں پرشرمندہ سی نظر آتی تھی ۔

سیکیورٹی کے ادارے سے اپنے تعلق کی نسبت سے آصف عارف کی ڈیوٹی  Causeway پر بھی رہی ہے سو وہ اس کی تاریخ، نوعیت، اہمیت اور تفصیل سے بہت اچھی طرح واقف تھے اور ہمیں اتنا آگے تک لے گئے جہاں تک ہم پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔

آصف عارف نے بتایا کہ اگرچہ ہم ڈاکٹر شعیب کے لنچ سے مزید لیٹ ہوجائیں گے لیکن اُن کی خواہش ہے کہ ہم وہ شجر زندگی  Tree of lifeبھی دیکھتے چلیں جو روایات کے مطابق صحابہ کرام ؓ کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس وقت تک قائم اور ہرا بھرا ہے۔ نزدیک سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس درخت کو سپورٹ دینے اور اس کے مرنے و الے حصوں کی تراش خراش کے لیے کچھ خصوصی اقدامات بھی کیے گئے ہیں اور اب اس کی شاخوں اور پتوں کا رخ بھی آسمان سے زیادہ زمین کی طرف ہے مگر اس کی عمر واقعی بہت زیادہ ہے اس درخت کے اردگرد اور دور تک ہمارے فارم ہاؤسز کی طرح کی خیمہ گاہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں مقامی لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ آکر رہتے ہیں اور فطرت سے اپنا وہ ٹوٹا ہوا رشتہ استوار کرتے ہیں جو اُن کی اصل پہچان ہے اور یہ کہ یہاں راتوں میں چراغاں کا سا سماں ہوتا ہے۔

ہمارے پہنچنے تک ڈاکٹر شعیب صاحب کے گھر میں تیار کھانا ٹھنڈا اور میزبانوں کے مزاج گرم ہونے کا قوی اندیشہ تھا لیکن اُن کی محبت ہے کہ انھوں نے دونوں باتوں سے اعراض کیا۔ دمام کے پاکستانی فورم کے دوستوں کی بھجوائی ہوئی ایک کیمرہ ٹیم بھی ہماری منتظر تھی سو اُن کے لیے یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایک پیغام ریکارڈ کرایا گیا ۔ رات کا کھانا برادر عزیز احمد عادل کے گھر اور اگلی صبح کا ناشتہ شجاع الاسلام بھائی کی طرف تھا جو رشتے میں عامر جعفری کے خالو اور سعید قیس مرحوم سے تعلق کی خاطر سے میرے بھی احباب میں سے تھے، اس دوران میں عطریات کے انٹرنیشنل برانڈ ’’جنید‘‘ کے مالکان سے اُن کے دفتر میں ملاقات رہی جس کی خوشبو اُن کی تحفے میں دی گئی خوشبویات کے ساتھ اب تک مشامِ جاں کومعطر کر رہا ہے ۔

بحرین میں ایک گھر ایسا ہے جہاں حاضری دیے بغیر جانے کا گناہ میں نے آج تک نہیں کیا اور نجیب افضل مرحوم کے اس گھر سے جو محبت ہمیں اُن کی زندگی میں ملی اُن کی بیگم اور ہماری محترم بہن اور بھابی نے اُسے اُن کے بعد بھی زندہ رکھا ہے ۔ مہرو بھابی نے حسب معمول ڈنر پر ایک محفل کا اہتمام کیا جہاں احباب کے ساتھ ساتھ نجیب بھائی کے بچوں اور اُن کے بھی بچوں سے ملاقات ہوئی اور اس بات پر یقین مزید گہرا ، محکم اور تازہ ہوا کہ جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔