ملا فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے لہٰذا افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، دفترخارجہ

ویب ڈیسک  بدھ 13 نومبر 2013
 سعودی عرب میں 8لاکھ پاکستانی شہریوں کو قانونی حیثیت دی جا چکی ہے جبکہ 54 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہریوں واپس آنا چاہتے ہیں۔،دفترخارجہ۔ فوٹو: فائل

سعودی عرب میں 8لاکھ پاکستانی شہریوں کو قانونی حیثیت دی جا چکی ہے جبکہ 54 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہریوں واپس آنا چاہتے ہیں۔،دفترخارجہ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ترجمان  دفتر  خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک  طالبان پاکستان  کے نئے امیر ملا  فضل اللہ  کی حوالگی کے لئے افغان حکومت سے کوئی رابطہ نہیں  کیا گیا تاہم افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے۔

دفتر خارجہ اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران اعزاز احمد کا کہنا تھا کہ ملا  فضل اللہ افغانستان میں موجود ہے اور افغانستان سے متعدد مرتبہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کے حوالے سے بات چیت کی جا چکی ہے لیکن فضل اللہ کی پاکستان حوالگی کے لئےکبھی کابل انتظامیہ سے کوئی رابطہ نہیں  کیا گیا۔ دونوں  ممالک کے درمیان دیگر ایشوز پر رابطے جاری ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان توانائی کے بحران سے دوچار ہے اور پاکستان کسی بھی ملک سے توانائی بحران کے خاتمے کے لئے  معاہدہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کو کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان اور ایران کے درمیان معاہدہ ہے اور اس معاہدے پر امریکی پابندیوں  کا اطلاق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ  پاکستان حکومت کشمیری قیادت سے رابطہ رکھتی ہے، پاکستان  ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کا حامی ہے اور پاکستان کشمیری قیادت کو پاک بھارت مذاکرات میں  شامل کرنے کا خواہش مند ہے، بھارت نے جموں  و کشمیر میں   انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

اعزاز احمد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں  نئے قانون کے تحت 8لاکھ پاکستانی شہریوں کو قانونی حیثیت دی جا چکی ہے جبکہ 54 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہریوں  نے کاغذات مکمل نہیں  کئے اور وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم دولت مشترکہ کے اجلاس میں  شرکت کے لیے جمعرات کو سری لنکا جائیں  گے جہاں وہ مختلف سربراہان مملکت سے ملاقاتیں  کریں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔