جمہوریت اور بلدیاتی انتخابات

نصرت جاوید  بدھ 13 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چند ہی روز پہلے اس کالم میں اشاروں کنایوں کی مدد سے میں نے آپ کی خدمت میں عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ان دنوں حکومت کرنے میں کوئی خاص مزا نہیں آرہا۔ بے تحاشہ گمبھیر مسائل کے انبار کے علاوہ وہ اپنے ہاتھ بندھے اس لیے بھی محسوس کررہے ہیں کہ ہماری عدلیہ اب بہت آزاد اور متحرک ہے۔ وہ عام شہریوں کے روزمرہ مسائل پر کڑی نگاہ رکھتی ہے اور اپنے تئیں حکومتوں کو ان مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات لینے پر بھی مجبور کرتی رہتی ہے۔

مقامی حکومتوں کے بغیر دُنیا کا کوئی ملک خود کو ایک مستحکم جمہوریت کا نمونہ نہیں کہلوا سکتا۔ ہمارے سیاست دان جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر جا بیٹھیں تو آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اقتدار کو نچلی سطح تک پہنچانے کے سارے وعدے بھول جاتے ہیں۔ اسی لیے تو ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک جو بھی فوجی آمر آیا ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے نام پر سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنے کے نام پر اپنے اقتدار کو طویل تر کرتا چلا گیا جو بقول اس کے ایمان دار بھی ہو اور اچھی حکومت کرنے کے قابل بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنا ذاتی اقتدار طویل تر کرنے کی خاطر بالآخر وہ ان ہی سیاست دانوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوا جنھیں بندوق کے زور پر اس نے اقتدار سے باہر پھینک کر ’’کڑے احتساب‘‘ کی نذر کیا تھا۔

ہمارے سیاستدانوں کے لیے یہ بات یقینا باعثِ شرم ہے کہ 2008ء کے بعد وہ ’’حقیقی جمہوریت‘‘ قائم کرنے کے دعوے تو بہت کرتے رہے مگر بلدیاتی انتخابات نہ کرواسکے۔ پانچ برس ایک طویل مدت ہوتی ہے۔ وہ گزرگئی۔ بالآخر اس سال مئی میں ایک اور عام انتخابات بھی ہوگئے۔ ان کے ہوجانے کے بعد سپریم کورٹ یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہے کہ بلدیاتی انتخابات بھی جلد از جلد کروائے جائیں۔ آئین ان کا تقاضا یقینی طور پر کرتا ہے۔ مگر میری اپنی رائے میں آئینی ضرورتوں سے کہیں زیادہ اہم یہ سیاسی حقیقت بھی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام صرف اسی صورت مستحکم ہوسکتا ہے کہ جب خلقِ خدا اپنے خالصتاََ مقامی نوعیت کے مسائل کو گلی محلوں سے منتخب اپنے جیسے لوگوں کے توسط سے حل کرنے کی صلاحیت دریافت کرسکے۔ اقتدار اور اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیر نام نہاد جمہوری نظام اشرافیہ کسی Exclusive Club کی مانند دِکھتا ہے جہاں ایک دوسرے کے بظاہر مخالف سیاست دان اقتدار کے لیے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ عام آدمی چونکہ کسی بھی نوعیت کے کسی اختیار سے کبھی آشنا ہی نہیں ہوا ہوتا اس لیے محسوس ہی نہیں کرپاتا کہ کسی فوجی آمر نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اس سے کیا چیز چھینی ہے۔ اسے اپنی کسی چیز کے لٹ جانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ سیاسی فیصلہ سازی کے تمام مراحل سے اس کی لاتعلقی آمروں کو بلکہ من مانیاں کرنے کے پورے مواقع دیتی ہے۔ وہ منتخب سیاست دانوں کو پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں۔ انھیں ہتھکڑیاں پہنا کر اذیت دیتے ہوئے بالآخر طویل جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتوں کو پتہ نہیں کیوں احساس نہیں ہورہا کہ جمہوری نظام کی مقامی حکومتوں تک منتقلی میں تاخیر ان کی اپنی ساکھ اور قوت کو بتدریج کمزور سے کمزور تر کررہی ہے ۔ ہمارے ہاں کسی نہ کسی نظریے کے نام پر سیاسی جماعتوں کو جاندار بنانے والے ’’سیاسی کارکن‘‘ اب کہیں نظر ہی نہیں آتے۔ اب تو صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ’’حلقے‘‘ ہیں۔ ان میں انتخاب لڑنے والے چوہدری، رانے اور مخدوم وغیرہ ہیں۔ ان لوگوں کے ذات برادری کی بنیاد پر قائم  اپنے اپنے دھڑے ہیں۔ ان کے ڈیروں پر ہمہ وقت موجود ’’چمچے‘‘ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ چمچوں اور مضبوط دھڑوں والا شخص کوئی الیکشن جیتنے کے لیے کبھی مسلم لیگ میں چلاجاتا ہے اور جب ضرورت محسوس کرے پاکستان پیپلز پارٹی میں گھس آتا ہے۔ وہ جس جماعت میں جاتا ہے اس کے نظریے یا قیادت سے ہرگز وفادار نہیں ہوتا۔

اسے بس ’’اپنے حلقے‘‘ سے غرض ہوتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی لگن کہ وہ اپنے دھڑے کے کسی بندے کے لیے کسی افسر کو فون کرے تو وہ اس کا فون نہ صرف سنے بلکہ اس کا بتایا کام بھی جتنی جلد ممکن ہو پورا کردے۔ کوئی من چلا فوجی وردی پہن کر جمہوری حکومت کا تختہ الٹادے تو مضبوط دھڑوں اور بہت سارے چمچوں والا یہ شخص صرف اس آمر کے ابتدائی دنوں میں کچھ پریشان رہتا ہے۔ بعدازاں اسی آمر کے بنائے بااثر لوگوں تک پہنچ کر اپنی بقاء کے راستے ڈھونڈلیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو 1980ء کی دہائی سے اس ملک پر مسلط ایسے کھوکھلے اور بے بنیاد ’’جمہوری نظام‘‘ سے صرف اپنی بقاء کی خاطر نجات پانے کے ٹھوس ذرایع دریافت اور استعمال کرنا ہوں گے۔ یہ سب کہہ دینے کے بعد میں اس بات پر بھی اصرار کرنے پر مجبور ہوں کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں بلدیاتی انتخابات کو حقیقی معنوں میں صاف اور شفاف بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو مناسب وقت دے رہی ہیں ورنہ دوسری صورت میں بجائے بلدیاتی انتخابات کے ہمیں مزید سیاسی خلفشار اور معاشرتی ابتری کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔