انتہا پسندی کے ناگ

رئیس فاطمہ  بدھ 13 نومبر 2013

ہم بھی کیا لوگ ہیں …؟ ہمیشہ نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ بلکہ ہمیں الجھائے رکھا جاتا ہے۔ تاکہ اصل مسائل کی طرف دھیان نہ جاسکے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ مہنگائی کہاں سے کہاں جا پہنچی …؟… ٹماٹر جو اکتوبر سے سستا ہونا شروع ہوجاتاہے۔ وہ نومبر میں ڈیڑھ سو روپے فی کلو بک رہا ہے۔ ادرک دو سو سے ڈھائی سو روپے کلو۔ کوئی بھی سبزی ساٹھ روپے سے کم نہیں۔ اس بار تو آلو بھی سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ عوام کی فکر کسے ہو۔ یہاں تو یہ بحث چل پڑی کہ حکیم اﷲ محسود شہید تھا کہ نہیں …؟… فتوے بھی آنے لگے۔ مولانا نے فرمایا کہ امریکا سے اظہار نفرت کے لیے کتے کا لفظ استعمال کیا …!!… بہت خوب … بہت خوب … وزیراعظم کی کرسی کے حصول کے لیے اس قابل نفرت امریکا کو سلام کرنے حضور دوڑے چلے جاتے تھے … کیا پتہ خفیہ ملاقاتوں میں سفید محل کے کالے رفیق کو کیسی کیسی یقین دہانیاں نہ کروائی گئی ہوں گی۔ کہ حضور ایک بار بھروسہ تو کرکے دیکھ لیں … اس بار ہم دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

بالکل ایسے ہی جیسے جیسے افغان جہاد میں تھے … لیکن ان کی یہخواہش پوری نہ ہو سکی۔ پتہ نہیں کیوں مذہبی جماعتیں ہمیشہ مذہبی اور مسلکی تعصب کو ہوا دینے میں کیوں آگے آگے رہتی ہیں … اب یہی دیکھ لیجیے کہ ایک ایسا دہشت گرد جس نے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو بے دریغ مارا ہو کیونکر شہید کہلایا جاسکتا ہے … یہ فیصلہ کرنے والا تو صرف خداوند تعالیٰ ہے … آپ کون ہیں یہ فیصلہ کرنے والے …؟… حکیم اﷲ صرف اس لیے شہید سمجھا جائے کہ وہ امریکی ڈرون حملے میں ماراگیا … لیکن ان فوجی جوانوں اور معصوم لوگوں کو آپ کس مقام پر رکھیںگے جنھیں اس ظالم نے مارا تھا … کیا عجیب منطق ہے۔ جس کو چاہیں شہید قرار دیدیں خواہ وہ کتا ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کو چاہیں واجب القتل قرار دیدیں کفر کے فتوے صادر کردیں … ذرا سوچئے … اگر کتے کی شہادت والا بیان کوئی اور دیتا تو اب تک تمام مذہبی جماعتیں اور ان کے امیر آپسی گٹھ جوڑ سے اسے سزا وار ٹھہرا چکے ہوتے …  برسوں پہلے یگاؔنہ نے کیا خوب کہا تھا۔

سب ترے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا

سر پھرا دے انساں کا، ایسا خبط مذہب کیا

پاکستان وہ بد نصیب ملک ہے۔ جہاں گزشتہ ساٹھ سالوں سے بہروپیے اور مسخرے نوٹنکی کے تماشوں میں بخوبی اپنا اپنا کردار ادا کرکے داد پارہے ہیں۔ اور پھر بھی ’’صاحب ایمان‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔  افسوس … اسی  وجہ سے آج ہم ہر جگہ ذلیل ہیں … مذہب کے ٹھیکیداروں نے اپنی اپنی مرضی کے پیمانے بنالیے ہیں۔ شہادت اور جہاد کا درجہ اگر ان کی سوچ کے مطابق اتنا ہی بلند ہے تو خود ان کے بیٹے، داماد، بھائی، بھانجے، پوتے اور نواسے اس عظیم مرتبے سے کیوں محروم رہتے ہیں۔ لیکن کالم میں تاب نہیں کہ مزید نقاب کشائی کرسکے ۔ ان کے قول و فعل کا تضاد ملاحظہ کیجیے تو چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ ایک طرف لوگوں سے داد وصول کرنے اور تالیاں پٹوانے کے لیے امریکا کے خلاف اس حد تک نازیبا بیان دینا کہ کتے کو درجہ شہادت پر فائز کردیا اور اندر ہی اندر سفید محل کے طواف سے توبہ بھی نہیں کرتے۔ لیکن کتنی ہی تالیاں پٹوالیں لوگ ووٹ انھیں نہیں دیتے۔ کیونکہ امن کے خواہاں عوام ان کی حقیقت جانتے ہیں کہ ان کا وہی مقصد ہے جو سن 47ء سے پہلے تھا۔ مختلف حربوں سے لوگوں کو اپنی جگہ لڑوانا، یہی کاروبار آج تک بڑی کامیابی سے جاری وساری ہے۔ کیونکہ اس میں مال بہت ہے اور محنت نہ ہونے کے برابر۔

الیکشن سے پہلے میڈیا پر جمہوریت اور پائیدار امن کی جو بین بجائی جارہی تھی وہ اب کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ لوگوں کو کسی حد تک عمران خان سے امید تھی لیکن وہ بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو انتہا پسند جماعتوں کا مینی فیسٹو ہے۔ بجائے موجودہ حکومت کا ساتھ دینے اور عوامی مسائل کے حل کی تدابیر کے وہ بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس طرح وہ صرف خود کو اور اپنی پارٹی کو زندہ رکھنے کا ناکام فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ملک میں ہر طرف بحران ہی بحران ہے۔ معیشت کا بحران، توانائی کا بحران، بجلی اور گیس کی نایابی، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، روز مرہ کی ضروریات زندگی کا ناقابل یقین حد تک مہنگا ہوجانا۔

بلکہ متوسط طبقے خصوصاً تنخواہ دار آدمی کے ہاتھ سے نکل جانا … کیا یہ سب مسائل ایسے نہیں تھے جن پر غور کیاجاتا اور ان کے ممکنہ حل ڈھونڈے جاتے …؟… لیکن نہیں الیکشن کا ڈھونگ محض اپنے خزانے بھرنے کے لیے رچایا جاتاہے اور اس ڈھونگ میں اوپر سے نیچے تک سب شریک ہوتے ہیں۔ کیا یونیفارم والے … کیا تھری پیس سوٹ والے۔ کیا پگڑیوں اور عماموں، جبوں والے … اور کیا الیکٹرونک میڈیا کے طاقت ور لوگ جنھیں من پسندڈفلی بجانے کا معاوضہ توقع سے کہیں بڑھ کر ملتاہے … ایسے میں عام آدمی کی تکلیف کے بارے میں کون سوچے … بعض اخبارات میں صحافی نکالے گئے ان سے جو معاہدے کیے گئے تھے ان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھیں سڑکوں پہ لاپھینکا ۔ مگر ان کے بارے میں کون سوچے۔

کسی بھی ادارے سے بلا جواز بے روزگار کیے جانے والے ملازمین کے بارے میں سوچنے کا وقت کسی حکمران کے پاس نہیں ہے کیونکہ اقتدار کی مسند پر قدم رکھتے ہی یہ اپنی آنکھیں ان لوگوں کی طرف سے قطعی بند کرلیتے ہیں۔ جن کے مسائل حل کرنے کا ڈھنڈورا یہ پیٹا کرتے تھے … خیر کی توقع کسی سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ پیغمبروں کی آمد بند ہوگئی ہے۔ معجزوں کی توقع عبث ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں گھرے ملک کے مستقبل کے بارے میں اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں … اگر مشکل ہے تو صرف سچ بولنا اور سچ لکھا۔ جو بھی مسائل کی طرف توجہ دلائے اور لیڈروں کے کرتوتوں سے عوام کو آگاہ کرے وہ یا تو بھارت کا ایجنٹ ہوگا یا امریکا اور اسرائیل کا۔ اس سے آگے یہ سوچ ہی نہیں سکتے۔ گالی دینا سب سے آسان ہے اسی لیے پس پردہ سیاست دانوں اور مذہبی جماعتوں کے گٹھ جوڑ نے ہمیشہ حقیقی مسائل پر سے توجہ ہٹانے کے لیے بہت سے شعبدے اپنی جیبوں میں بند کررکھے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو امریکا پر تنقید تو کھل کر کرتے ہیں مگر ان کا حال یہ ہے کہ امریکی ویزے کے حصول کی خاطر یہ ان کے کتوں کو نہلانے تک کے لیے راضی ہوجائیںگے۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔