مٹی پاؤ

عابد محمود عزام  بدھ 13 نومبر 2013

ملک میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف نفرت کو پنپتے ایک عرصہ بیت گیا۔ اسے ’’مجرم‘‘ کہنے والی زبانوں کی پاکستان میں اتنی کثرت، جس کا شمار بھی مشکل ہے۔ عوام و خواص سب ہی ’’جناب‘‘ کو آمر کے نام سے پکارتے رہے۔ سیاستدانوں نے اس  نفرت کے الائو کو مزید بڑھکایا۔ ان کی باتیں سن کر تو یوں لگ رہا تھا جیسے یہ ممکن ہی نہیں کہ پرویز مشرف کو سزا نہ ہو۔ پرویز مشرف گرفتار ہوئے تو ان کا احتساب اور ان کے اعمال کی سزا ملنے کی کوشش پر جمہوریت پسند لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس ضمن میں تمام اختلافات کو بھلا کر حکومت اور اپوزیشن کا ایک موقف تھا کہ ڈکٹیٹر کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسود کی موت کو شہادت یا ہلاکت قرار دینے میں الجھی ہوئی ہے۔ عوام اور میڈیا ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات، ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بحثوں میں مصروف ہیں، چار بڑے مقدمات میں ’’پابند پرتعیش فارم ہائوس‘‘ سابق صدر پرویز مشرف کی ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا اور ان کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا گیا۔

اس فیصلے سے کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا کہ ہر نظر آنے والی چیز حقیقت نہیں ہوتی، کیونکہ پرویز مشرف ایک ’’معصوم‘‘ انسان ہیں۔ مجرم پرویز مشرف نہیں بلکہ وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے ’’جناب‘‘ کو مجرم گردان کر مجموعی طور پر 6 ماہ 20 دن قید میں رکھا گیا۔ یا پھر اصل مجرم وہ ’’ماورائی قوت‘‘ ہے جس کے حکم پر ’’نامعلوم افراد‘‘ نے ایک ایسے دور میں جب پاکستان کے سیاہ و سپید کے مالک پرویز مشرف تھے، وہ جرم کیے جن کا الزام پرویز مشرف پر لگایا جاتا رہا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے ایک منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مار کر 1999ء سے لے کر اگست 2008ء تک ملکی اقتدار پر زبردستی قبضہ جمائے رکھا اور ان کو بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی اور لال مسجد میں قتل عام میں بھی نامزد کیا گیا تھا۔ جب ’’جناب‘‘24 مارچ 2013ء کو چار سال خود ساختہ جلاوطنی گزارنے کے بعد واپس پاکستان آئے تو 18 اپریل 2013ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے 2007ء میں ججز گرفتاری کے الزامات پر انھیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ 26 اپریل 2013ء کو عدالت نے ’’جناب‘‘ کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ 25 جون 2013ء کو پرویز مشرف پر دو الگ مقدمات اور بے نظیر بھٹو قتل اور اکبر بگٹی قتل میں نامزد کیا گیا۔ 20 اگست 2013ء کو عدالت نے پرویز مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا الزام عاید کیا۔ 2 ستمبر 2013ء کو پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد آپریشن 2007ء کی ایف آئی آر کاٹی گئی اور 6 نومبر کو کوئی بھی ’’ثبوت‘‘ نہ ملنے پر پرویز مشرف کی آزادی کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔

پرویز مشرف کی تمام مقدمات میں ضمانت پر رہائی سے اگرچہ ملک میں کوئی زیادہ شور شرابا تو نہیں ہوا البتہ پاکستان کی اکثریت چیں بجبیں ضرور ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی تمام مقدمات میں ضمانت پر رہائی کو حکومت اور پرویز مشرف کے درمیان ’’خفیہ ڈیل‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’حکومت نے امریکی دبائو پر پرویز مشرف کو رہا کیا جب کہ پرویز مشرف محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی، لال مسجد اور عدلیہ کے مجرم ہیں۔ سابق آمر پرویز مشرف کی جگہ کوئی غریب ہوتا تو وہ ابھی تک جیل میں سڑ رہا ہوتا۔‘‘ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ایاز سومرو تو یہاں تک کہہ گئے ہیں : ’’افسوس کی بات ہے کہ جس نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا وہی آمر کے ساتھ ڈیل کر چکے ہیں۔ یہ (پرویز مشرف) تو اپنے دور کا بڑا آمر اور قاتل ہے۔‘‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ پرویز مشرف کی ضمانت کو این آر او کے تحت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :’مقدمات کمزور کر کے پرویز مشرف کی ضمانتیں ہوئیں، رہائی خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہے۔ پہلے کہہ دیا تھا کہ پرویز مشرف رہا ہو جائے گا۔‘‘ جب کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان کا فرمانا ہے: ’’کسی قاتل، ڈاکو اور لٹیرے کی عدالت سے ضمانت ہو جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قاتل ڈاکو اور لٹیرا نہیں، بلکہ یہ نظام کی کمزوری ہے، پرویز مشرف اس ملک کے عوام کے مجرم ہیں اور ان کی رہائی نظام کی کمزوری ہے۔‘‘

یہ ایک حقیقت ہے کہ اب بھی پاکستانی قوم کی اکثریت سابق صدر پرویز مشرف کو بہت سی باتوں میں قصوروار ٹھہراتی ہے، ان کے نزدیک پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ بھی ہوا، وہ ’’جناب جنرل‘‘ کے حکم سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ عوام محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی، لال مسجد، عدلیہ کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں، ایک منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارنا، میڈیا کے ساتھ ہونے والا جبر، آئین کو دو بار معطل کرنا، پاکستان میں دہشتگردی کا پروان چڑھنا اور عافیہ صدیقی سمیت کئی پاکستانیوں کی امریکا کو فروخت کے معاملے میں پرویز مشرف کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ اسی لیے وہ پرویز مشرف کی تمام مقدمات میں ضمانت پر رہائی کو ’’ڈیل‘‘ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ویسے ایک مفید مشورہ ہے کہ حکومت کے ہر کام میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے، ’’چھوٹی موٹی ڈیل‘‘ برداشت کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ کسی ’’بندے‘‘ کی جان چھوٹتی ہے تو چھوٹنے دیں۔ بحث کرنے کے لیے پاکستان میں اور بہت سے مسائل ہیں۔ گڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل؟ پرویز مشرف کو سزا دینے سے نواب اکبر بگٹی، محترمہ بے نظیر بھٹو اور لال مسجد میں مارے جانے والے افراد تو دوبارہ زندہ ہونے سے رہے۔ آمر جمہوری حکومتوں کے تختے تو الٹتے ہی رہتے ہیں۔ جہاں تک معاملہ عدلیہ اور ججوں کی نظر بندی کا ہے، اس میں تو ان بے چارے ججوں کو خود ہی اپنی نظر بندی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو کسی دوسرے کو کیا اعتراض؟

اب بھی ’’بے چارے پرویز مشرف‘‘ کو آمر آمر کے القابات سے نوازتے ہوئے ملک کو آمریت پروف بنانے کا مطالبہ کرنے والوں سے گزارش ہے کہ ’’جناب پرویز مشرف‘‘ نے تو اپنے دور میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر ان کو سزا دی جائے، اگر کچھ ایسا کرتے تو انھیں سزا نہ دی جاتی؟ ان کے دور میں بڑے بڑے حکم نامے خدا جانے کون دیتا رہا، وہ تو ایک لاچار اور بے بس صدر تھے، وہ ’’بالکل معصوم‘‘ ہیں اور تمام آمر بھی ’’بے چارے پرویز مشرف‘‘ کی طرح بے قصور، معصوم اور ’’بے چارے‘‘ ہی ہوتے ہیں، اسی لیے تو کسی کو سزا نہیں ملتی۔ ہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہماری عدلیہ مکمل آزاد ہے۔ وہ اپنی مرضی سے فیصلے کرتی ہے۔ پرویز مشرف کی رہائی کے لیے امریکا یا ہماری فوج کو حکومت پر دبائو بڑھانے کی کیا ضرورت؟ اور امریکا مسلم ممالک میں آمروں کی مکمل پشت پناہی کیوں کرے؟ اور ہمارے وزیر اعظم صاحب کے پرویز مشرف کی رہائی کے معاملے پر امریکا اور فوج سے ذرا بھر بھی ڈرنے ورنے کا کیا تُک؟ اس سب کے باوجود ’’جناب جنرل‘‘ رہا ہوگئے تو کیا۔ لوگ اگر پرویز مشرف کی رہائی کو ’’ ڈیل‘‘ قرار دیں تو ان کی زبانیں تو بند نہیں کی جا سکتیں نا۔ لہٰذا اس معاملے پر مٹی پائو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔