- فوج سے کوئی اختلاف نہیں، ملک ایجنسیز کے بغیر نہیں چلتے، سربراہ اپوزیشن گرینڈ الائنس
- ملک کے ساتھ بہت تماشا ہوگیا، اب نہیں ہونے دیں گے، فیصل واوڈا
- اگر حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے، علی امین گنڈاپور
- ڈالر کی انٹر بینک قیمت میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں قدر گھٹ گئی
- قومی اسمبلی: خواتین ارکان پر نازیبا جملے کسنے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
- پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی ’متعصبانہ‘ رپورٹ کو مسترد کردیا
- جب سے چیف جسٹس بنا کسی جج نے مداخلت کی شکایت نہیں کی، قاضی فائز عیسیٰ
- چوتھا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
کوچۂ سخن
غزل
جب تک اک بار وہ سینے سے مرے آ نہ لگے
کچھ بھی ہوتا ہوا مجھ کو یہاں اچھا نہ لگے
میری خواہش ہے کہ اب کوئی نہ بچھڑے مجھ سے
میری خواہش ہے کہ اب گاؤں میں میلہ نہ لگے
دور مت جا کہ کہیں ایسا نہ ہو دوست تجھے
بھول جانے میں مرا ایک بھی ہفتہ نہ لگے
میری خواہش ہے تجھے صاف دکھائی دوں میں
میری خواہش ہے کہ تجھ کو کبھی چشمہ نہ لگے
پاس بیٹھا ہوا ہوں غور سے دیکھو مجھ کو
تا کہ کل دور سے کوئی مرے جیسا نہ لگے
لاتے لاتے ترا تحفہ میں نے گھر چھوڑ دیا
بس یہی سوچ کے شاید تجھے اچھا نہ لگے
(نورُ الحق نور۔ مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
ستارہ وار ترے غم میں جل بجھا ہوں میں
یہ کس طرح کی اذیت میں مبتلا ہوں میں
میں آدھا جملۂ خوش کن تھا آدھا مصرعۂ تر
پر احتیاط سے برتا نہیں گیا ہوں میں
مرے وجود میں رکھی یہ روشنی کیا ہے
یہ کس چراغ کی مانند جل رہا ہوں میں
وہ اپنا عکس مری چشمِ تَر میں دیکھتی تھی
تجھ آئینے سے بہت معتبر رہا ہوں میں
کہ میرے پیروں تلے آ رہے ہیں ماہ و نجوم
یہ کون سمت سفر پر نکل پڑا ہوں میں
میں شاخِ نخلِ شکستہ سہی مگر ذی شان
نجانے کتنے پرندوں کا آسرا ہوں میں
(ذی شان مرتضیٰ۔ ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
اب ایسے حال میں لُٹنے کا ڈر تو ہے ہی نہیں
کہ خالی ہاتھ ہیں رختِ سفر تو ہے ہی نہیں
یہ منزلیں تو ٹھہرنے کا اک بہانہ ہیں
سفر وہ رات ہے جس کی سحر تو ہے ہی نہیں
اچھالتے ہیں یونہی خواہشوں کے پتھر ہم
سمے کے پیڑ پہ ورنہ ثمر تو ہے ہی نہیں
ہمارے راستے اوروں کے ہیں بنائے ہوئے
کوئی سفر بھی ہمارا سفر تو ہے ہی نہیں
تمھیں بھی شوق ہے راہوں کی خاک ہونے کا
ہمارے پاس بھی رستے ہیں گھر تو ہے ہی نہیں
ترے خیال کی خوش بو نہ آئی تو یہ کھلا
برائے سانس ہوا کا گزر تو ہے ہی نہیں
ظہیر لُوٹنے باہر سے کوئی کیا آتا
فصیلِ شہر کے پہلو میں در تو ہے ہی نہیں
(رانا ظہیر مشتاق۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
جھجک اٹھتا تھا ہر اِک شوخیٔ گفتار سے پہلے
بڑا سنجیدہ تھا یہ دل تمھارے پیار سے پہلے
بہت انمول تھی جب خانۂ غربت میں تھی اپنے
وہی پائل کی چھم چھم کوچہ و بازار سے پہلے
دھڑکتا تھا یہ دل سینے میں تیرا نام لے لے کر
نہ تھا زخمی کبھی اتنا نظر کے وار سے پہلے
سجاؤں کس طرح میں بام و در کو تیری آمد پر
کوئی منظر نہیں بھاتا تیرے دیدار سے پہلے
قیامت دو دفعہ ہوتی ہے برپا دل کی بستی میں
تیرے انکار کرنے پر، ترے اقرار سے پہلے
میں الزامِ جفا کاری رکھوں تو کس پر اے عارف
میرے اپنوں نے لوٹا ہے مجھے اغیار سے پہلے
(محمد حسین عارف۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
اک پیڑ پینٹ کر کے مصور جو تھک گیا
پنچھی تخیلات کی نس میں اٹک گیا
پیتا تھا گھول گھول کے الفاظِ شاعری
جب چڑھ گئی تو صاحبِ دیواں بہک گیا
مدت کے بعد نیند کی ٹہنی ہوئی نصیب
اتنے میں تیری یاد کا پنچھی چہک گیا
مرجھا گئے گلاب مرے زخم سونگھ کر
کیکر کا پیڑ دیکھ کے مجھ کو مہک گیا
پیچھا کِیا ہے ظلمتِ شب کا سحر تلک
سورج بہت گیا تو یہی شام تک گیا
اک عمر میری آنکھ ہی صحرا رہی فہد
پھر یوں ہوا کہ خون کا آنسو ٹپک گیا
(سردار فہد۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
اچھے وقتوں کے مرے سارے وفادار بھی پُھر
وقت آیا جو کڑا مجھ پہ، مرے یار بھی پُھر
آج آیا ہے نظر کاسہ لیے وہ بھی مجھے
آج اس شہر کا وہ آخری خود دار بھی پُھر
خاک کے ہاتھ میں آنے کی ذرا دیر ہے بس
تیری یہ شان، یہ رتبہ، تری دستار بھی پُھر
آ گیا وقت کے ہر ایک نشانے پہ میاں
اڑ گئی عمر تو رنگ لب و رخسار بھی پھر
اب بتا کون رہا دارِ فنا میں باقی
میرا سَر ہی نہ گیا بس تری تلوار بھی پُھر
(عزم الحسنین عزمی۔ گجرات)
۔۔۔
غزل
میں جو خاموش رہوں، سوز دروں چیختا ہے
پھر بھی خاموش رہوں، اور فزوں چیختا ہے
وہ بھی کیا وقت تھا جب میرا جنوں چیختا تھا
کیا زبوں حالی ہے، اب مجھ پہ زبوں چیختا ہے
مجھ پہ جادو ہے کسی شوخ نگہ والے کا
ہر طرف آج یہی، رنگِ فسوں چیختا ہے
بے حسی دیکھیے، اس قوم پہ طاری ہے سکوت
اور شہیدانِ گلستان کا خوں چیختا ہے
اب حرم میں بھی پرستش ہے کسی اور ہی کی
گرجا و دیر کا محراب و ستوں چیختا ہے
اتنا ہیجان ہے اب زیست میں برپا مصعب
میرے چپ ہونے پہ خود میرا سکوں چیختا ہے
(مصعب شاہین۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
دھواں بنا کے ہوا کو تھما دیے گئے ہیں
خطوط وقت سے پہلے جلا دیے گئے ہیں
تمہارے واسطے دنیا بنائی ہے اس نے
ہم ایسے لوگ تو یونہی بنا دیے گئے ہیں
کہیں پہ کوئی اندھیرے سے جنگ کرتا ہے
کہیں چراغ خوشی سے بجھا دیے گئے ہیں
بس ایک شخص کی خواہش میں عمر بیت گئی
ہم اس حسین کے صدقے! لٹا دیے گئے ہیں
عذاب توڑنے آئی ہوئی تھی خاموشی
مگر یہ شعر وسیلہ بنا دیے گئے ہیں
ہمارے واسطے دریا نہیں بنا راشد
کسی سراب کے پیچھے لگا دیے گئے ہیں
(راشد علی مرکھیانی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
ہماری موت کا واحد ہے یہ گواہ بدن
نہیں ہے روح پہ کوئی بھی زخم گاہ بدن
ہماری آنکھ سے ظاہر ہو روشنی کیسے
ہمارے سامنے رکھا گیا سیاہ بدن
جو گونگے لوگوں کی بستی میں کوئی نام لیا
سنائی دینے لگے مجھ کو بے پناہ بدن
اسے مرے ہوئے گھنٹے گزر گئے کتنے
اب آگے کیا ہے؟ نہیں ہے اگر تباہ بدن؟
میں اس پہ نقش بناؤں گی اپنی وحشت کے
نئی نکالوں گی تجھ سے میں کوئی راہ بدن
میں اندھے لوگوں میں شامل ہوں ان کے جیسی ہوں
سو ایک شرط ہی رکھی گئی، نباہ بدن
(انعمتا علی۔ جہلم)
۔۔۔
غزل
اترے ہیں میرے شہر میں ایسے عذاب ریت کے
آنکھیں تمام ریت کی، آنکھوں میں خواب ریت کے
چلتی ہے رات بھر یہاں بادِ غبارِِ تشنگی
کھلتے ہیں شاخِ دل پہ بھی اجڑے گلاب ریت کے
صحرا ئے زندگی میں اب سایا نہیں، شجر نہیں
پیروں میں آبلے مرے سَر پہ سحاب ریت کے
کیسے بچاؤں آندھیو تم سے یہ خستہ جسم و جاں
خیمۂ جان ریت کا، اس پہ طناب ریت کے
لہروں کے اضطراب کا شہرہ ہے، شہر و دشت میں
پڑھتا نہیں کوئی یہاں، جلتے نصاب ریت کے
فوزی کو اس مقام پر اپنی بھی کچھ خبر نہیں
کانٹوں پہ کھینچ لے گئے مجھ کو سراب ریت کے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
حوصلہ وہ کہاں سے لاتے ہیں
پیڑ پتوں کو جب گراتے ہیں
فرق پڑتا نہیں کسی کو یہاں
شور ایسے ہی ہم مچاتے ہیں
یہ تو تکمیل کی نشانی ہے
موت یوں ہی نہیں بلاتے ہیں
وہ ہمیں دیکھتا ہی رہتا ہے
اس لیے جان ہم چھڑاتے ہیں
دیکھ توحید بزدلی کی حد
سائے پر گولیاں چلاتے ہیں
(توحید زیب۔ بہاولپور)
۔۔۔
’’محبت‘‘
چلو میں مان لیتا ہوں
تمھیں چاہت نہیں مجھ سے
تمھیں الفت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں
ذرا یہ تو بتاؤ تم
کسی محفل میں کوئی بھی
مرا جب نام لیتا ہے
تو تم کیوں چونک جاتے ہو؟
کہو، کیوں آہ بھرتے ہو؟
گلی میں کوئی بھی بچہ
مری جب بات کرتا ہے
قدم کیوں روک لیتے ہو؟
ذرا چل کر، ذرا رُک کر
مرا وہ تذکرہ سن کر
نظر کیوں بھیگ جاتی ہے؟
کوئی مجھ کو بُرا کہہ کر
کبھی جو مسکراتا ہے
تو تم کیوں منہ بناتے ہو؟
کہو، کیوں روٹھ جاتے ہو؟
مرے دشمن سے تم اکثر
مرے بارے میں لڑتے ہو
مرے احباب سے اکثر
بہت انجان سا بن کر
مرا کیوں ذکر کرتے ہو؟
اکیلے میں مری غزلوں کو تم کیوں گنگناتے ہو؟
زبردستی کیوں آنکھوں کو چھلکنے سے بچاتے ہو؟
اگر یہ کر نہ پاتے ہو تو کیوں آنسو بہاتے ہو؟
تم اکثر چھت پہ جاتے ہو
تو کیوں تاروں کو تکتے ہو؟
اکیلے چاند سے اکثر
مخاطب تم کیوں رہتے ہو؟
سُنا ہے تم یہ کہتے ہو
کہ ’’میں بالکل اکیلا ہوں‘‘
تو کیوں یہ بات کرتے ہو؟
مجھے معلوم ہے اب بھی
کتابِ دل میں اب تک بس مرا ہی نام لکھا ہے!
تمھیں مجھ سے محبت تھی
تمھیں مجھ سے محبت ہے
فقط مجھ سے محبت ہے
چلو میں مان لیتا ہوں
تمھیں چاہت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔