عدت کا رواج نہیں ہے…

شیریں حیدر  اتوار 26 جنوری 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چند دن کی چھٹی کا کہہ کر گیا تھا اور لوٹا نہیں… رابطہ کرنے کی کوشش کی تو فون بند۔ آج کل ہر گھر میں یہی کہانی ہے کہ اچھے اور ٹک کر رہنے والے ملازم ناپید ہیں ۔ کوئی بھی لڑکا ملازمت کے لیے آتا ہے تو اس کے پاس اپنی غربت اور مجبوریوں کی طویل داستان ہوتی ہے۔ ضرورت مند ہونے کا یقین اور ’’ ہمیشہ‘‘ آپ کے ساتھ وفادار رہنے کا وہ عہد جو پہلی دفعہ دو ماہ کی اکٹھے تنخواہ لے کر جاتے ہی بھول جاتا ہے۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا!! ہمارے ساتھ بھی یہ کوئی پچاسویں دفعہ ہوا تھا۔

دو دن اور گزرے تو علم ہوا کہ اس بے وقوف نوجوان نے خود کشی کی کوشش کی اور بچا لیا گیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا، جیسا بھی کوئی ہمارے ساتھ برتاؤ کرے مگر کوئی اس حد تک چلاجائے کہ جان تک دینے کو تیار ہو جائے اور وہ بھی جس کے دو تین بچے بھی تھے۔ اس کے جس بھائی نے ہمیں یہ اطلاع دی تھی اسی نے بتایا کہ اسے کوئی ذہنی تکلیف بھی لاحق تھی، یہ بھی ہمارے حق میں اچھا ہوا کہ وہ ایسی غلط کوشش کرتے وقت ہمارے گھر پر نہ تھا ورنہ ہمارے ہاں تو اس وقت میڈیا والوں کی رونق لگی ہوئی ہوتی۔

اس کے بھائی کے فون سے ہی، صاحب نے، اس سے بات کی اور اس انتہا تک جانے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی بیوی کی بے وفائی اس کے جان تک لینے کا سبب بن گئی تھی۔ وہ اس کے بچے لے کر گھر سے چلی گئی تھی اور کسی اور آدمی کے پاس رہ رہی تھی اور جلد اس سے شادی کرنے والی تھی۔ ’’ کیا؟؟ ‘‘ میںنے حیرت سے سوال کیا، ’’یقینا وہ بھی ٹی وی ڈرامہ دیکھتی ہو گی،

’’ یہ کیا ڈرامہ ہے اور اس کا کیا ذکر یہاں ؟ ‘‘ صاحب نے گھوری ماری۔

’’ اس میں بھی ایک بیوی اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر گھر سے چلی جاتی ہے اور کسی آدمی کے ساتھ بے نکاحی رہنے لگتی ہے… ‘‘

’’ اور یہ ڈرامہ کیا ٹیلی وژن پر دکھایا جا رہا ہے؟ ‘‘ اپنی دنیا میں گم رہنے والے لوگ… ہاں!!

میں نے مزید وضاحت کی۔ ’’ جو برائیاں معاشرے میں ہیں، انھیں تو دکھایا جانا ہے ، گلیمر نظر آتاہے لوگوں کو اس میں !‘‘

’’ برائیاں چاہے معاشرے میں موجود ہوں مگر انھیں اس طرح دکھایا جائے کہ لوگوں کو برائی میں کشش نظر آنا شروع ہو جائے!‘‘ انھوں نے خفگی سے کہا، ’’ اس طرح کے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو ہمارے ملک کا سنسر بورڈ کہاں ہے؟ ‘‘

’’ میرا خیال ہے کہ سنسر بورڈ والوں کو بھی یہ ڈرامہ بہت پسند ہے! ‘‘ میںنے رائے دی۔

’’ تم نے اپنی بیوی کو طلا ق دے دی ہے کیا؟ ‘‘ صاحب نے کال کرکے، اس سے سوال کیا۔

’’ نہیں سر… ‘‘ اس نے فوراجواب دیا ۔

’’ کیا تم یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ، اگر وہ واپس آ جائے تواسے رکھنا چاہو گے؟ ‘‘ صاحب نے سوال کیا ۔

’’ جی سر!! ‘‘ اس نے بیوی کی فرمانبرداری کی انتہا تک جاتے ہوئے کہا، ’ وڈا دانش نہ ہووے تے ‘ میں نے دل میں سوچا، ’’ مگر وہ تو اس بندے سے شادی کر رہی ہے سر! ‘‘

’’ اس بندے سے شادی تو وہ تم سے طلاق لیے بنا نہیں کر سکتی، تم سے طلاق لے، اس کے بعد اپنی عدت پوری کرے اور پھر شادی کرے! ‘‘ اسے وضاحت کی اور تھوڑی سی تشریح مزید کی گئی۔

’’ عدت کا تو ہمارے ہاں رواج ہی نہیں ہے سر اور اب اس بندے کے ساتھ اس کی شادی تقریبا طے ہوچکی ہے اسی لیے تو میں نے خود کشی کی کوشش کی تھی!‘‘

’’ وہ ایسے کیسے شادی کرسکتی ہے؟ ‘‘ حیرت سے سوال کیا گیا۔

’’ اس کی ماں نے بھی چار شادیاں کی تھیں سر اور اس نے کوئی عدت وغیرہ پوری نہیں کی کیونکہ اس نے کسی شوہر سے طلاق ہی نہیں لی تھی … ‘‘ سوائے حیرت کے منہ کھول دینے کے کوئی چارہ نہ تھا۔

اس کی بیوی تو خیر آج کل کے ڈراموں سے متاثر کوئی بے وقوف عورت ہو گی مگر ہمارے ہاں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنھیں اہم سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ میرا کئی بار ایسے بے وقوف لوگوں سے واسطہ پڑ چکا ہے جن کے خیالات اور نظریات مذہب سے شدید دوری کا پتا دیتے ہیں۔

… ہمارے ہاں عدت کا رواج نہیں ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ عدت بھی ایک غیر ضروری رسم ہے۔ انھیں اس کے مقصد کا علم نہیں ہوتا اور بسا اوقات ایک دو ماہ کا وقفہ ڈال کر بچیوں کی دوسری شادیاں کر دیتے ہیں ۔ بالخصوص طلاق کی صورت میں، اپنی بیٹی کے سابقہ شوہر کو نیچا دکھانے کی غرض سے کہ ہماری بیٹی کو بہت رشتے میسر ہیں ۔

… طلاق کی صورت میں عورت اپنے شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے اور اسے وہ اگر دوبارہ اپنی زوجیت میں لینا چاہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کرے اور باقاعدہ اس کی بیوی بن کر رہے اور دوسرے شوہر کی وفات یا اس سے طلاق کی صورت میں وہ اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جاتی ہے ۔ لیکن ہمارے پسماندہ علاقوں اور دیہات میں پہلے تو طلاق کو طلاق نہیں بلکہ مذاق سمجھا جاتا ہے، شوہر دن میں دسیوں بار بیویوں کو لاتوں اور گھونسوں سے مارتے اور زبان سے طلاق کا لفظ ادا کرتے ہیں اور بیویاں اور ان کے میکے والے سمجھتے ہیں کہ ایسی طلاق موثر نہیں ہوتی کہ مرد ذات ہے، غصے میں کچھ بھی بک دیتا ہے۔گویا طلاق کو گالی کے طور پر سمجھنا، مرد کی مردانگی کی دلیل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاق میںدی گئی طلاق بھی طلاق ہوتی ہے ۔ بسا اوقات لوگ یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ غصے میں تھا، اسے علم نہیں کہ اس نے کیا کہہ دیا اور بد قسمتی یہ کہ ان کے اس موقف کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ بھئی طلاق تو ہوتی ہی غصے میں ہے… پیار سے کون طلاق دیتا ہے؟؟

بعض حالات میں عورتیں یا ان کے میکے والے، دن میں کئی کئی بار دی گئی طلاق کے با وصف اپنی بیٹیوں کو اسی جہنم میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں یا وہ خود بچوں کی زنجیر میں بندھی خود کو مجبور سمجھتی ہے اور اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ اس گناہ کی زندگی میں اس کے لیے شاید دنیا میں عارضی آسانی ہو مگر آخرت میں بڑا عذاب ہے۔

ایک اور نیا رواج جو چل نکلا ہے وہ ہے حلالہ کروانے کا۔ کچھ لوگوں نے مذہب کی ٹھیکیداری کا بیڑہ اٹھا لیا ہے اور وہ ہمدردی یا لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے نام پر، حلالہ کروانے کے لیے ’’ دستیاب ‘‘ ہیں۔ وہ ان عورتوں سے چند دن کے لیے نکاح کر لیتے ہیں اور انھیں فارغ کردیتے ہیں تا کہ وہ اپنے شوہر کے لیے حلال ہو جائیں ۔ اس نوعیت کے نکاح اور اس کام میں ملوث مرد و ز ن کے لیے بہت وعید ہے ۔ جہالت میں ڈوبے ہوئے اور اپنے مفادات کے لیے مذہب کو مذاق بنائے ہوئے لوگوں نے معاشرے کا چہرہ پہلے ہی اتنا بگاڑا ہوا ہے اور اس پر مستزاد ہمارے میڈیا میں اس نوعیت کی برائیوں کو اچھال اچھال کر بتا دیتے ہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اس تمام عرصے میں آج کل کی نوجوان لڑکیاں خواہش کرتی رہتی ہیں کہ انھیں بھی ایسا شوہر ملے جو ان کی بے حیائی اور غیر مردوں سے تعلقات کے باوجود انھیں اپنی زندگی میں ہمیشہ خوش آمدید کہیں ۔

کاش… اس نوعیت کے ’’ غیر اہم معاملات ‘‘ پر بھی کسی کی نظر کرم ہو جائے یا ہم خود ہی اپنے آپ کو سنوار لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔