عمران خان ڈیووس میں کتنے کامیاب رہے؟

تنویر قیصر شاہد  پير 27 جنوری 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ہر سال کی طرح اِس بار بھی جنوری کے آخری ہفتے میں دُنیا کے کئی وزرائے اعظم ، صدور ، تھنک ٹینکس کے سربراہ، بڑے بڑے صنعت کار، ماہرینِ معیشت اور عالمی شہرت کے حامل سیاسی و سماجی دانشورڈیووس (سوئٹزر لینڈ) میں اکٹھے ہُوئے ۔ وزیر اعظم عمران خان بھی شرکت کرنے والی ممتاز عالمی شخصیات میں شامل تھے۔

’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ پر اُن کے موقف کو بغور سنا گیا ہے۔ متنوع موضوعات پر خانصاحب کی گفتگو کو خاص طور پر پاکستان، بھارت، جنوبی ایشیا اور عالمِ عرب میں کھلے کانوں اور سنجیدگی سے ضرور سُنا گیا ہے۔ ڈیووس میں وزیر اعظم پاکستان کی امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، سے خوشگوار ماحول میں جو گفتگو سامنے آئی ہے،اِسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے ۔عمران خان اب ملائیشیا کے دَورے پر بھی ( اگلے ماہ) جا رہے ہیں۔ اگلے مہینے ہی وہ پاکستان کے عظیم دوست جناب طیب اردوان کی میزبانی بھی کرنے والے ہیں۔

مہاتیر محمد اور طیب اردوان سے عمران خان کی رُوبرو ملاقاتیں شائد اُس مبینہ تلخی اور شکررنجی کو بھی تحلیل کر سکیں جو گزشتہ دنوں ’’کوالا لمپور سمّٹ‘‘ میں پاکستان کے بوجوہ شرکت نہ کرنے سے پیدا ہو گئی تھی۔ خانصاحب کی ڈیووس میں جرمن چانسلر، انجیلا مرکل، سے (سائیڈ لائن پر) ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انھیں جرمنی کے سرکاری دَورے کی دعوت بھی دی گئی ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم کو ایسی ہی تازہ دعوتیں بھارت اور نیپال کی طرف سے بھی آئی ہیں۔

یہ دعوت نامے اس امر کے شاہد ہیں کہ بھارت پاکستان سے فاصلہ رکھنے کے باوجود پاکستان کی اہمیت کو زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ نیپال کی ہر حکومت بھارت کے زیر اثر رہتی ہے ۔اس پس منظر میں نیپال کا عمران خان کو مدعو کرنا ایک نئی ڈویلپمنٹ کہی جا سکتی ہے ۔ تحفظِ ماحولیات کے حوالے سے نیپال اپنے دارالحکومت ( کھٹمنڈو) میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے ۔ اس میں ’’سارک‘‘ ممالک کے ممبران بھی مدعو کیے گئے ہیں ۔

خبر ہے کہ دُنیا کے تقریباً150ممالک کے سربراہانِ ریاست اور سربراہانِ حکومت کو نیپال میں ہونے والی تحفظِ ماحولیات کی کانفرنس (Sagarmatha Dialogue) کے لیے دعوت نامے بھیجے جا رہے ہیں۔ قیاسات ہیں کہ کھٹمنڈو میں عمران خان کی نریندر مودی سے بھی ملاقات ہو گی۔ ایسا ہُوا تو دونوں ممالک میں پائی جانے والی شدید کشیدگی میں کمی کی جا سکے گی ۔ بھارت نے اپنے انسانیت دشمن اقدامات کے کارن دُنیا بھر سے جو ملامت سمیٹی ہے، وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے دستکش ہو جائے۔

غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ رواں سال نئی دہلی میں بھارتی میزبانی میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کانفرنس میں مودی، عمران خان کو دعوت دیتے سنائی دے رہے ہیں ۔ یوں برف پگھلتی محسوس ہو رہی ہے ۔ کہاں وہ حالات تھے کہ بھارت ’’سارک ‘‘ کانفرنسوں میں پاکستان کو نہایت ٹف ٹائم دے رہا تھا ۔ پاکستان تین سال پہلے (شیڈول کے مطابق) اسلام آباد میں ’’سارک‘‘ ممالک کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرنے جا رہا تھا لیکن بھارت نے بائیکاٹ کر دیا ۔ بھارت نے ’’سارک‘‘ میں موجود اپنے ہم خیال اور ہم نوا ممبران کو بھی اس کانفرنس کا مقاطع کرنے پر مجبور کیا۔ یوں پاکستان ’’سارک‘‘کی میزبانی کے اس اعزازسے محروم رہ گیا ۔ یہ بھارتی کم ظرفی کی انتہا تھی۔

بھارت نے اب ایک بار پھر فریب کاری اور امن دشمنی کی مثال قائم کی ہے ۔ ڈیووس میں عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ہُوئی تو امریکی صدر نے کہا: ’’ ہم کشمیر کی (دگرگوں) صورتحا ل پر نگاہ رکھے ہُوئے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا میں ثالثی کروا سکتے ہیں۔‘‘ بھارت نے اس پیشکش کو مسترد تو کیا ہے لیکن دُنیا کی لعنت بھی سمیٹی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ڈیووس میں عمران خان کی آواز تو سنائی دیتی اور گونجتی رہی لیکن وہاں بھارت نظر آیا نہ مودی کی شکل ۔

ہمارے وزیر اعظم نے مگر ڈیووس کے ہر دستیاب فورم پر مسئلہ کشمیر کا ذکر بلند آواز سے کیا۔ عمران خان نے ڈیووس ایسے اہم ترین عالمی پلیٹ فارم پر اپنے سننے والوں کو یہ بھی بتایا کہ گزشتہ 180 ایام کے دوران بھارتی قابض سیکیورٹی فورسز زبردستی کرتے ہُوئے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کو غائب کر چکی ہے ، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ ان کشمیری کمسن لڑکوں کو کس جرم میں غائب کیا گیا ہے اور بھارت کی کس جیل میں انھیں قید کیا گیا ہے؟

عمران خان نے کشمیریوں کا سفیر بننے کی عملی سعی کی ہے ۔ ظاہر ہے بھارت کو عمران خان کے اس مستحکم اور دبنگ موقف پر تکلیف پہنچی ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت بزدلوں کی طرح عمران خان کی تضحیک کے لیے طارق فتح ایسے اپنے پٹھوؤں کو سامنے لایا ہے۔ سب نے دیکھا ہے کہ ڈیووس میں ہر میسر جگہ پر عمران خان نے جھجکتے ہُوئے کوئی بات نہیں کہی۔ صاف اور براہِ راست لہجے میں بات کرنے والے عمران خان کو سُننے والے کم نہیں تھے۔

اہم بات یہ بھی تھی کہ انھوں نے کسی بھی موضوع پر پوچھے گئے کسی سوال کا جواب دیتے ہُوئے لکھی گئی پرچی کا سہارا نہیں لیا۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ایک میزبان نے تو آن دی ریکارڈ تسلیم بھی کیا کہ عمران خان نے تقریر کرنے کے لیے کسی اسکرپٹ کا سہارا نہیں لیا ۔ ڈیووس میں ’’ورلڈ اکنامک فورم سمّٹ‘‘کے دوران معروف امریکی ٹی وی (سی این بی سی) کی اینکر پرسن (ہیڈلی گیمبل) نے بھی خانصاحب کا مفصل انٹرویو کیا۔ جس اعتماد سے ہمارے وزیر اعظم نے سبھی سوالات کے اطمینان بخش جواب دیے، امریکی صحافی کے پاس مزید کوئی سوال ہی نہیں بچا۔

پاکستان میں عمران خان کی متعارف کروائی جانے والی پالیسیوں سے عوام الناس کو ابھی تک کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے ۔ شدید مہنگائی، بڑھتی بیروزگاری، بجلی گیس پٹرول کے نرخوں میں کمر شکن اضافہ، ان سب کی وجہ سے اکثریتی عوام اُن سے ناراض ہیں ۔ میڈیا بھی شکنجہ محسوس کر رہا ہے اور صحافی بھی ۔ ڈیووس میں کئی فورموں پر عمران خان نے خود پاکستان میں جاری ان مسائل کا ذکر بھی کیا اور اعتراف بھی ۔ عمران خان نے مگر ڈیووس میں جس استقامت سے ایران امریکا تعلقات ، امن سازی ، افغانستان کے مسائل اور مقبوضہ کشمیر بارے بھارتی مجرمانہ اقدامات کا اظہار کیا ہے ، لگتا یہی ہے کہ ایک لمحے کے لیے پاکستانی عوام اپنے شدید معاشی بحران بھول کر خانصاحب کی ستائش کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ عمران خان نے ڈیووس میں پاکستان کے امن اور ٹورازم انڈسٹری کی بہترین وکالت بھی کی ہے۔ اب تو برطانیہ نے بھی پاکستان کو محفوظ ملک قرار دیا ہے۔ اس سے ہماری سیاحت کو خاصا فروغ ملے گا۔ خانصاحب نے ڈیووس میں بھارتی مقتدر پارٹی ، مودی اور آر ایس ایس کی  انسانیت دشمن سوچ کو جس طرح بے نقاب کیا ہے ، بھارت اس پر عمران خان سے سخت ناراض ہُوا ہے ۔

خاص طور پر جب عمران خان نے یہ کہا کہ اس وقت بھارت پر وہ ٹولہ حکمران ہے جس نے اپنے بابائے قوم (مہاتما گاندھی) کو قتل کر ڈالا تھا۔ بھارتی اس پر بہت جز بز ہُوئے ہیں ۔ بھارتیوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ عمران خان کو کیسے روکیں کہ وہ گاندھی جی کی قاتل جماعت (مودی جس کے رکن ہیں) کا ذکر کرنا بند کر دیں ۔ڈیووس میں عمران خان نے بھارتی برسرِ اقتدار پارٹی کی تشدد پسندانہ سوچ کا ہر جگہ پھلکا اُڑایا ہے ۔ پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ بازوں کو ، عمران خان کی صورت میں ، اینٹ کا جواب پتھر کی شکل میں مل رہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔