سرمایہ دارانہ نظام اور خواتین

زمرد نقوی  پير 27 جنوری 2020
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا میں غربت اور امارت میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی کانفرنس ہوئی۔ غربت میں کمی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم آکسفام نے عالمی عدم مساوات سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ جس میں لڑکیوں اور خواتین کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں سب سے زیادہ غربت کا سامنا ہے۔

دنیا میں خواتین کی تین چوتھائی تعداد بلا معاوضہ کام کرتی ہے۔ جس کا معاوضہ 10 ہزار 800 ٹریلین ڈالر سالانہ بنتا ہے۔ جو ٹیکنالوجی انڈسٹری کے حجم سے تین گنا زیادہ ہے۔ دنیا میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کے پاس 50 فیصد زیادہ دولت ہے۔ گھریلو ملازمین میں اکثریت خواتین کی ہے جو کل تعداد کا 80 فیصد ہے۔ پوری دنیا میں 42 فیصد خواتین بیروزگار ہیں۔ ان کی مالی حیثیت بھی اچھی نہیں۔

آکسفام کے بھارتی سربراہ کا کہنا ہے کہ ہماری کمزور معیشتیں عام آدمی اور خواتین کے خرچوں پر ارب پتی افراد اور بڑے تاجروں کی جیب بھر رہی ہیں۔ عدم مساوات کے خاتمے کے بغیر امارت اور غربت کی درمیانی  خلیج کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا کے صرف ایک فیصد امیر ترین افراد اپنی دولت پر دس سال تک صرف اعشاریہ پانچ فیصد اضافی ٹیکس ادا کریں تو اس سے بزرگوں، بچوں کی دیکھ بھال ان کی تعلیم و صحت کے شعبے میں نہ صرف مزید فنڈ مہیا ہو گا بلکہ گیارہ کروڑ 70 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے درکار سرمایہ کاری کی کمی بھی دور ہو سکتی ہے۔

حکومتیں ویلیو ایڈڈ ٹیکس پر انحصار کرتی ہیں جو غریبوں کو متاثر کرتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرامز نے تیونس، مصر اور اردن میں خواتین پر منفی اثرات ڈالے ہیں اور ان سے عدم مساوات بڑھی ہے۔ متعدد ممالک خواتین تنظیموں کے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہیں۔

عالمی تنظیم کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2153 ارب پتی افراد کے پاس دولت دنیا کی 60 فیصد آبادی کے برابر ہے۔ جب کہ دنیا کے 22 امیر ترین مردوں کی دولت براعظم افریقہ کی تمام خواتین سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں دنیا کے ارب پتی افراد کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر اہرام مصر کی تعمیر کے دور سے روزانہ دس ہزار ڈالر بچت کریں تو اس وقت سے لے کر اب تک کی جمع شدہ رقم موجودہ وقت کے صرف 5ارب پتی اشخاص کی اوسط دولت کا پانچواں حصہ ہو گا۔

ایک اور مثال میں ہمارے پڑوس میں بھارت کی ہے۔ جہاں کے ایک فیصد امیر ترین بھارتیوں کے پاس بھارت کی 95 کروڑ آبادی کے مقابلے میں چار گنا زیادہ دولت ہے۔ وہاں شادیوں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جب کہ اسی وقت وہاں کروڑوں افراد کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ جب کہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ 2025 تک دو ارب 40 کروڑ افراد کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی رسائی مشکل ہو گی۔ جس میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی بھی شامل ہوں گے۔

رپورٹ کہتی ہے کہ انتہائی دولت اور انتہائی غربت پر مبنی معاشی نطام ناکامی کی علامت ہے۔ حکومتوں کو امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو کم کرنا چاہیے۔ اس وقت دنیا کے 75 کروڑ 50 لاکھ افراد انتہائی غربت میں رہتے ہیں۔ عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی نصف آبادی ساڑھے پانچ ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کر رہی ہے۔

امریکا جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل ہے تو ارتکار دولت کا بھی وہی مرکز ہے۔ دنیا کی بیشتر دولت امریکا کے قبضے میں ہے جب کہ دنیا کے بیشتر امیر ترین افراد کا تعلق بھی امریکا سے ہے۔ حقائق یہ بھی ہیں کہ امریکی آبادی تقریباً 33 کروڑ ہے۔ جو دنیا کی آبادی کا چار فیصد ہے۔ جب کہ رقبہ اتنا بڑا ہے کہ وہاں پانچ ٹائم زون ہیں۔ لیکن دولت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی کل دولت کا 30 فیصد اس کے پاس ہے۔ یہ دولت ہی ہے جس کے نتیجے میں امریکا دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت بن گیا ہے۔ دفاع پر اس کے اخراجات 718 ارب ڈالر ہیں۔ جو دنیا کے کل دفاعی اخراجات کا تیسرا حصہ ہے۔

نتیجے میں دنیا کا کوئی بھی ملک امریکی جارحیت سے محفوظ نہیں۔ یعنی حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے امریکی سامراج اپنی فوجی طاقت کے ذریعے دنیا کے وسائل پر قبضہ کرتا ہے۔ پھر اس قدرتی وسائل کے ذریعے اپنی فوجی قوت  کو مزید بڑھاتا ہے۔ یہ امریکی فوجی قوت ہی ہے جو دنیا کے نہ صرف قدرتی وسائل بلکہ ملکوں پر قبضہ کرنے میں مدد گار ہے۔کیلیفورنیا ٹیکساس اور نیویارک کی مجموعی دولت دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی دولت برطانیہ کی مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ جب کہ سعودی عرب کی قومی پیداوار تیل کے وسائل کے باوجود امریکی چھوٹی ریاستوں سے بھی کم ہے۔

پانی کی قلت ہو یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات۔ دنیا میں جغرافیائی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ نا انصافی پر مبنی معاشی نظام جس کے نتیجے میں دنیا میں بھوک ، غربت، بیروزگاری اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ایسٹیبلشمنٹ ہو یا اس کی مدد گار مقامی ایسٹیبلشمنٹ دونوں مل کر انسانوں کا خون چوس رہے ہیں۔ حکمران طبقات نے پوری دنیا کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ ایک عجیب بے بسی کا عالم ہے۔ ماضی کے برعکس انسانوں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اس ظالمانہ نظام کو بدل بھی نہیں سکتے۔

دنیا میں زیادہ تر سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے یا کنٹرولڈ جمہوریت۔ یہ سارے بندوبست سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے ہیں تاکہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے۔ تیسری دنیا کے عوام تو رہے ایک طرف اب تو امریکی یورپی عوام بھی ان شکنجوں کو نہیں توڑ سکتے۔ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کے خطے پر ہی نظر ڈال لیں سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ کہیں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی بلکہ جو تھی وہ بھی ڈوب گئی ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں جو کچھ پاکستان میں ہوا وہی ہوا جس کا میں نے اپنے تجزیوں اور پیش گوئیوں میں مسلسل ذکر کرتا رہا۔ ہمارا خطہ ایک بندوبست میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں ہم نے گزشتہ نومبر، دسمبر میں دیکھیں۔ صرف اکیلا ایران ہی اس بندوبست کے خلاف لڑ رہا ہے لیکن وہ بھی اکیلا کب تک لڑے گا۔

بھارتی مفادات بھی اس عالمی سامراجی نظام سے جڑ گئے ہیں۔ آنے والے وقت میں بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ جو بات ہمارے سوچنے سمجھنے کی ہے کہ وہ یہ کہ بھارت نے بھارتی کشمیر کی خصوصی حیثیت اس وقت ختم کی جب وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن گیا۔ اور امریکا یورپ کے معاشی مفادات اس سے جڑ گئے۔ اس وقت وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مضبوط ستون بن گیا ہے۔ امریکا کا وہ نہ صرف اسٹرٹیجک پارٹنر ہے بلکہ تہذیہی اور ثقافتی طور پر بھی وہ مغرب سے مکمل ہم آہنگ ہو گیا ہے۔ جب کہ پاکستان کو دنیا آج بھی شکوک و شبہات سے دیکھ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔